ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 42

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 42
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 42

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لائیو وڈیو اور معیار زندگی

یہ علاقہ مجھے بہت پسند آیا۔ میری خواہش تھی کہ یہاں سے بھی ایک لائیو وڈیو بنا کر فیس بک کے احباب کے ساتھ شیئر کروں ۔مگر مسلسل مصروفیات کی وجہ سے اس کا موقع نہیں مل سکا۔ یہاں تک کہ سڈنی سے رخصت ہونے کا موقع آ گیا۔ائیر پورٹ روانگی سے قبل ذوالفقار صاحب نے کہا کہ یہ کام کرہی لیں ۔ چنانچہ میں نے اس موقع پر لوگوں کے ساتھ وہاں کی وڈیو شیئر کی تھی۔

اس وڈیو میں اور دیگر مواقع پر بھی میں نے جو توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ یہ علاقہ بلکہ آسٹریلیا کے تمام علاقے جہاں میں گیا اپنی سہولیات کے لحاظ سے پاکستان کی اپر کلا س کے علاقوں سے بہتر تھے ۔ لوگوں کی بنیادی ضروریات یعنی تعلیم اور صحت حکومت کے ذمہ ہیں ۔انفراسٹرکچر اورامن و امان ہر اعتبار سے بہت بہتر اور معیاری ہے ۔اس کے بعد جو شخص محنت کرے گا وہ باآسانی ایک اچھا معیارِزندگی حاصل کر لے گا۔ چنانچہ ہر جگہ میں نے یہ دیکھا کہ لوگوں کے پاس اچھے گھر ہیں ۔ بہترین گاڑ یاں ہیں ۔ضرورت اورسہولت کا ہرسامان اور ہر مشین ہے ۔

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

میرے لیے نہ مغرب نیا ہے نہ یہ معیار زندگی۔ مگر میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں کئی برس بعد کسی مغربی ملک میں آیا تھا۔ ان دس پندرہ برسوں میں پاکستان پست سے پست ہوتا چلا گیا اور مغربی ممالک بہتر سے بہتر ہوگئے ۔ بلکہ بہت سے مسلم ممالک جیسے ترکی اور ملائشیا وغیرہ ترقی کی راہ پر ہم سے بہت آگے نکل گئے ۔ اس لیے تقابل کر کے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔

اس کی وجوہات بہت سادہ ہیں ۔ ہماری دانشور کلاس نے عام آدمی کے مسائل کو قوم کا اصل مسئلہ نہیں بنایا۔ایران و توران کے سارے مسائل، علمی و فکری بحثیں ، نظریاتی تشخص کے مسائل اور اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے تعلقات وغیرہ جیسی چیزیں ہی ہماری فکری کلاس میں زیر بحث رہتی ہیں ۔اچھا یہ مباحثے کریں تو فکری سطح پر کریں ۔ تاکہ کوئی حل تو نکلے ۔ مگر یہ مباحثے جذباتی انداز فکر کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ جس کے بعد کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل پاتا۔ ہاں اس عمل میں عام آدمی کے مسائل زیر بحث آنے سے رہ جاتے ہیں ۔ باقی عام آدمی کے مسائل سے ہٹ کر دانشور کلاس کو جو مسائل اصلاً زیر بحث لانے چاہئیں ، بدقسمتی سے ان کو ابھی اس کا علم ہے اور نہ دلچسپی۔ ان مسائل کو جاننے کے لیے ملکی سیاست اور ذاتی مفادات و تعصبات سے بلند ہونا پڑ تا ہے ۔ یہ بات شاید ابھی ہماری دانشور کلاس کو سیکھنی ہے ۔

عام آدمی کے مسائل

عام آدمی کے مسائل جو کہ اصلاًقوم کے بنیادی مسائل ہیں وہ کیا ہیں ۔ یہ کہ اچھی تعلیم کے مواقع قوم کے ہر بچے کو مفت میسر ہوں ۔ مفت علاج معالجے کی سہولت ہر شخص کوملے ۔امن و امان اور عدل ہر شہری کو ملے ۔ ملک کا انفراسٹرکچراعلیٰ سطح پر بنایا جائے ۔شفاف انتخابات کا عمل مسلسل جاری رہے تاکہ حکمرانوں کا احتساب جاری رہے ۔

یہ ہیں عام آدمی کے مسائل۔ فکری اور نظری مباحث ان مسائل کے حل ہونے کے بعد اچھے لگتے ہیں ۔جس طرح ترکی اور ملائشیا وغیرہ نے اپنے ابتدائی مسائل حل کر لیے تو اب وہاں یہ چیزیں زیر بحث آئیں تو ان کی کوئی جگہ بنتی ہے ۔ مگر ہمارے فکری قیادت نے عوام کو بے حد جذباتی بنادیا ہے ۔ ایک جذباتی بات کی جاتی ہے اور بے چارہ عام آدمی اپنے مسائل بھول کر ملک کی نظریاتی اساس اورامت کے عالمگیر مفاد جیسی چیزوں میں الجھا رہتا ہے ۔ ہاں جب بھی موقع ملتا ہے ، لوگ امیگریشن لے کر کسی مغربی ملک میں سیٹ ہونے یا مشرق وسطیٰ میں ملازمت کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر اپنے ذاتی مسائل حل کر کے یہی فکری تقریریں دوبارہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر شروع کر دیتے ہیں ۔ باقی لوگ ذاتی زندگی میں کرپشن، قانون کی پامالی اور ہر سطح پر بے اصولی کا مظاہرہ کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہر محفل میں فکری مباحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔ یوں قوم کی صورتحال مجموعی طور پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔حال یہ ہے کہ کراچی جیسا شہر جو ستر کی دہائی تک لندن اور نیویارک کے مقابلے کا تھا، اب کچرا دان بن چکا ہے ۔ یہ غالباً موجودہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ دنیا کا کوئی بڑ ا شہر بغیر کسی جنگ کے اس طرح تباہی کے دہانے پر آکھڑ ا ہوا ہو گا۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی دنیا کے دس کم ترین معیار کے شہروں میں سے ایک بن چکا ہے ۔

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

سڈنی شہر

ملبورن میں جمعے کو چھٹی تھی۔ اس لیے وہاں پروگرام ہوا تھا۔ ہفتہ اتوار کوآسٹریلیا میں چھٹی ہوتی ہے اور پیر کو بھی چھٹی تھی۔ اس لیے اب ان تین دنوں میں یہاں مسلسل پروگرام تھے ۔ مگر میرے لیے پہلا مرحلہ آرام کا تھا۔ چنانچہ تین راتوں کے بعد میں نیند بھر کے سویا۔ بلکہ فجر کے بعد دوبارہ سو گیا اورکافی دیر سے اٹھا۔ذوالفقارصاحب کا گھر بلندی پر ہونے کی بنا پر ٹھنڈی ہواؤں کی زدمیں تھا۔ لیکن دو کمبلوں اور ہیٹر کی بنا پر سردی کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔گرچہ گھر سے باہر جب بھی نکلا، سرد ہواؤں نے مشکلات پیدا کیں ۔

ہفتے کو پہلا پروگرام ایک ڈنر کے بعد خطاب کا تھا۔ چنانچہ عصر پڑ ھ کر ہم گھر سے روانہ ہوئے اور پہلی دفعہ دن کی روشنی میں سڈنی شہر کو دیکھا۔ہر جگہ خوبصورتی، صفائی اور جمالیات کے مظاہر تھے ۔ سڈنی کا شہرآسٹریلیا کا سب سے بڑ ا شہر تھا۔اس کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے ۔ آسٹریلیا کی بیشتر آبادی ان شہروں میں ہے جو سمندر کے کنارے آبادہیں ۔میں پہلے ملبورن میں تھا جو جنوبی کنارے پر تھاجبکہ سڈنی مشرقی کنارے پرہے ۔آسٹریلیا کی دو کروڑ چالیس لاکھ آبادی میں سے تقریباً ایک کروڑ انھی دو شہرو ں میں مقیم ہے ۔

ذوالفقار صاحب کا گھر مرکز شہر سے دور ایک مضافاتی علاقے میں تھا۔اسے ماؤنٹ اینن کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک انتہائی پرسکون علاقہ تھا جس کے بالکل قریب ہی آسٹریلین بوٹونیکل گارڈن کے نام کا وسیع وعریض پارک تھا۔ وقت کی کمی کی بنا پر ہم یہاں نہ جا سکے اوربس ایک روز کہیں جاتے ہوئے گاڑ ی ہی سے ذوالفقار صاحب نے اسے دکھادیا تھا۔ویسے میرا تاثر تو یہ تھا کہ ان کا گھر جس علاقے میں ہے وہ بھی درختوں اور سبزے کی کثرت کی بنا پر کسی گارڈن سے کم نہیں ۔

ان کے گھر کے پاس ایک دوسری سیر گاہ بھی بنی ہوئی ہے ۔اس میں چھوٹی سی ایک جھیل اور واک کرنے والو ں کے لیے ٹریک بھی ہے ۔ یہاں گھر کافی کشادہ ہیں ۔ تقریباً چھ سو گز کے ۔ہر گھر سنگل اسٹوری ہوتا ہے جس کی چھت ہٹ کے طریقے پر تر چھی بنی ہوتی ہے ۔ہر گھر میں گارڈن ہونا اور کچھ جگہ چھوڑ نا بھی لازمی ہے ۔

بلند و بالا عمارات صرف مرکز شہر میں تھیں اور اس کے اردگرد چھوٹے چھوٹے علاقے رفتہ رفتہ بسائے گئے تھے ۔سڈنی اور آسٹریلیا کے دیگر شہر اسی اصول پر بسائے گئے تھے کہ ایک مرکز شہر تھا اور پھر نواحی بستیوں میں آبادی پھیلتی چلی گئی۔ذوالفقار صاحب کا گھرمرکزِ شہر سے دور واقع ایسی ہی ایک نواحی بستی میں تھا۔ مگر یہ بستیاں موٹر وے جنھیں یہاں فری وے کہا جاتا ہے ، کے ذریعے مرکز شہر اور دیگر علاقوں سے متصل تھے ۔ یہ فری وے سگنل فری راستے تھے جن کے ذریعے سے دور کا سفر بھی آسان ہوجاتا تھا۔فری وے کے راستے میں جہاں کہیں بستی آتی وہاں دیواریں کھڑ ی کر دی جاتیں کہ بستی کے مکیں ٹریفک کے شور سے ڈسٹرب نہ ہوں ۔

یہی شاید ہمارے اور مغرب کے موازنے کا ایک درست مقام ہے ۔ ہم اونچی دیواریں چور، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے بچنے کے لیے بناتے ہیں ۔ اہل مغرب بستیوں کے گرد دیواریں ٹریفک کے شور سے بچنے کے لیے بناتے ہیں ۔ہمارے ہاں جان، مال اور آبرو کے تحفظ کے لالے پڑ ے ہوئے ہیں اوروہاں زور نوائز پولوشن (Noise Pollution) اور دیگرماحولیاتی آلودگیوں سے بچنے پر ہے ۔اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے ہاں وہ وقت کب آئے گا جب ہم بستیوں کے گرد دیواریں جان، مال، آبرو کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ شورسے بچنے کے لیے بنائیں گے ۔شاید جب ہم غیر ضروری جذباتیت سے باہر آ کر امن اور ترقی کی قدر وقیمت جان لیں گے تو ہمارے ہاں بھی یہ سب کچھ ہونے لگے گا۔

(جاری ہے)