سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . .چوتھی قسط

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . .چوتھی قسط
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . .چوتھی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زرافشاں کی تیسری شاخ اتر کر وہ سیب اور شفتالو اور نارنج کے اجڑے ہوئے ، لوٹے ہوئے باغات سے گزرنے لگے پھر اس میدان میں داخل ہوئے جہاں ملک شاہ سلجوقی چوگان کھیلا کرتا تھا۔ اس کے تین طرف باغات کے کنارے کنارے فرانسیسی افواج کے اعلیٰ افسروں کے خیمے کھڑے تھے۔ مغربی سمت میں پھولوں کی اونچی جھاڑیوں سے گھری ہوئی ملک شاہ کی بنوائی ہوئی سرخ پتھر کی بارہ دری قناتوں کی حد بندی میں لے لی گئی تھی۔ اس کی پشت پر خربوزے کے کھیتوں میں تاج فرانس کے محافظ دستے کے خیمے نصب تھے ان خیموں سے قنات بندی کی حد تک سپاہی ننگی تلواریں لئے پہرے پر کھڑے تھے۔ اس کے پہلو میں اتنا چوڑا راستہ تھا کہ چار گھوڑے ایک ساتھ نکل سکیں جو سواروں کے دستے سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں سے فرانس کی ذاتِ خاص کے رنگ رنگ کے خیمے اپنے سروں پر شاہی نشان سجائے دور تک کھڑے نظر آتے تھے۔یہیں وہ دونوں روک لئے گئے اور پھر مشعلوں کی روشنی کے حلقے میں ایک بھورے اونی خیمے میں ڈال دیئے گئے۔ جہاں پورے تین دن اور تین راتیں عجیب و غیرب لاتعداد سوالوں کے یکساں جواب دینے میں گزر گئیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . .تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر ایک بار وہ تنہا باہر نکالا گیا۔ اور اس عالیشان مدور بارگاہ کے سامنے لایا گیا جہاں ان گنت مشعلوں کی خوفناک زبانوں اور لاتعداد بھیانک آنکھوں اور تلواروں کا پہرہ کھڑا تھا۔ اس کے قریب ملکہ کا جھنڈا نصب تھا جس کے زرد پھر یرے پر چاندی کا شیر ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں صلیب لئے اور تاج پہنے دہاڑ رہا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد وہی نارمن عورت اس کے قریب آئی اور اسے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کر کے بارگاہ کے اندر داخل ہو گئی۔
ساری بارگاہ زرد نمدے کی تھی اور سارے شہتیر زرد ریشم کے غلاف پہنے ہوئے تھے۔ فرش پر زرد قالین اور جنگلی جانوروں کی کھالیں بچھی ہوئی تھیں۔ جو قد آدم شمعوں کی روشنی میں جگمگارہی تھیں۔ بھاری بھاری زرد پردے سمٹے کھڑے تھے۔ آبنوس کی لمبی میز کے سامنے ایک ہشت پہل کرسی پڑی تھی جس کے سیپ کے کام سے گندھے ہوئے پائے ہرن کے سینگوں کی طرح باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے۔ میز کی دوسری طرف اسی وضع کی مگر چھوٹی اور سادی کئی کرسیاں پڑی تھیں، وہ انہیں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک طرف سے وہ برآمد ہوئی اور کرسی پر بیٹھ گئی اور کرسی کے دونوں طرف خوشبودار شمعوں سے روشن جھاڑوں کی ٹھنڈی سفید روشنی میں اس کے کھلے ہوئے شانوں پر ڈھیر سرخ بال اور سرخ ہو گئے تھے۔
اس نے میز پر ہاتھ رکھا۔ مانی کی تصوریروں کی طرح نازک سفید ترشی ہوئی انگوٹھیوں سے جگمگاتی انگلیوں نے روشنی کر دی۔ نارمن عورت نے میز کے برابر رکھی ہوئی منقش تپاتی پر ایک طشت رکھ دیا جس کی سیمیں انگیٹھی میں عنبرسلگ رہا تھا۔ دوسری مسلح عورت نے اس کے لبادے کے نیچے زرہ پر لگے ہوئے خنجر کو نکال کر میز پر رکھ دیاملکہ جو اسے مسلسل گھورے جا رہی تھی اسی طرح بے نیاز بیٹھی رہی۔ پھر اپنی مخصوص زبان میں بولی ۔
’’تم فرنچ جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں ، میری ماں شامی ہے۔‘‘
’’فرانس کی بارگاہ میں ہتھیار باندھ کر آنے والے اجنبیوں کی سزا جانتے ہو‘‘؟
’’موت ۔۔۔لیکن میں نہ تو اجنبی ہوں اور نہ آیا ہوں۔ ‘‘
’’وہ کیسے ؟‘‘
’’میرے دادا فرانسیسی تخت و تاج کے جوشیلے خادم تھے اور وہی خون میری رگوں میں اچھلتا ہے اور میں یہاں تلواروں کی نوک پر لایا گیا ہوں اور پادریوں پر حملے عیسائی نہیں کرتے جن سے بچنے کیلئے زرہ اور خنجر کی ضرورت محسوس ہو۔‘‘

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ملکہ نے مسکرا کر دیکھا اور وہ مطمئن ہو گیا۔
’’کتنی فوج ہے ویمسک کے پاس ۔‘‘
’’ایک لاکھ سوار ہتھیار پہنے کھڑے ہیں اور سلطان کے قاصد صوبوں کے گورنروں کے پاس حکم لے کر جا چکے ہیں۔‘‘
’’کتنی کمک اور آسکتی ہے ؟‘‘
’’تقریباً ایک لاکھ ‘‘
ملکہ کی نظریں کچھ سوچنے لگیں۔
’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ بھی بولتے ہو؟‘‘
’’دمشق کی آبادی چار لاکھ ہے اور بارہ برس کے لڑکوں سے لے کر ساٹھ برس کے بوڑھوں تک نے تلواریں پکڑ لی ہیں۔ شاہی لشکر اس کے علاوہ ہے۔ ‘‘
’’شہر کے عیسائیوں کی تعداد کیا ہو گی؟‘‘
’’دس ہزار سے بھی کم ۔‘‘
ملکہ دیر تک میز پر انگلیوں سے لکیریں کھینچی رہی۔ پھر ایک بیک نگاہ اٹھا کر اس کو دیکھا اور مضبوط مگر مدھم لہجے میں بولی۔
’’ہمارا خیال ہے کہ کمسنی کی اس رہبانیت کے مقابلے میں بادشاہوں کی خدمت میں رہ کر بڑے بڑے کام انجام دے کر مسیح کی زیادہ خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’میں۔۔۔میں ملکہ عالم کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
’’ہم تم کو اپنے ذاتی محافظ دستے میں شامل کر سکتے ہیں۔‘‘
اور اس کے منہ سے بے اختیاری میں نکل گیا۔
’’ میں اپنی زندگی کی اس زرین سعادت پر عمر بھر فخر کرتا رہا ہوں۔‘
اور وہ اپنے خیمے میں آکر ساری رات پر ہول آوازوں اور نعروں میں گھرا ہوا تقدیر کی اس گردش کے انجام پر سوچتا رہا۔ صبح ہوتے ہی اسے ملکہ کے خاصانِ بارگاہ کا لباس عطا کیا گیا۔ اس نے گھٹنوں تک زرد مخمل کی تنگ قبا اور صلیب اور سیاہ چمک دار چمڑے کے موزے سنہری مہمیز اور سمور کی چمکدار سیاہ ٹوپی پہنی۔ بالشت بھرچوڑی پٹی پر چاندی کا وہ سینہ بند لگایا جس پر ملکہ فرانس کا ذاتی نشان بنا ہوا تھا۔ کمر سے وہ سیدھی لمبی تلوار باندھی جس کا قبضہ صلیب کی شکل کا تھا ۔ بائیں شانے پر تکونی ڈال اور داہنے کندھے پر نیزہ اٹھالیا اور کئی دن تک بارگاہِ خاص کے دروازے پر کھڑا پہرا اور قحطان کو دلاسہ دیتا رہا جو اس بے نام حراست سے عاجز آگیا تھا ۔
پھر بہار کی وہ صبح آگئی جب ’’شام کی ہوا برف میں نہا کر اور گلابوں کی خوشبو پہن کر نکلتی ہے اور دلوں کو شکار کرتی ہوئی چلتی ہے۔ وہ ناشتہ کر رہا تھا کہ قرنا بجنے لگا۔ اس نے دوسرے خاص برداروں کی طرح جلدی جلدی لباس تبدیل کیا اور بارگاہِ خاص کے مشرقی دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا جس کے سامنے فرانس کی سلطنت کے بہتر ین منتخب گھوڑے آنکھوں سے چنگار یاں برسا رہے تھے۔ کسی کے کہنے پر وہ بھی ایک گھوڑا پسند کرنے چلا۔ پہلی ہی قطار میں ایک ابلق (گھوڑا ) نتھنے پھلائے ، دم کو چنور کئے سازو یراق سے آراستہ اگلے پیروں سے زمین کُھرچ رہاتھا ۔اس نے لپک کر اسی کی لگام اچک لی اور اچھل کر سوار ہوا اور ستون کی طرح قائم ہو گیا ۔
یہ وہ گھوڑا تھا جسے بڑے بڑے مغربی شہسوار چھوتے ڈرتے تھے۔ پھر اپنی بارگاہ کے خیموں کی پشت سے بلکہ برآمد ہوئی ۔ وہ سر سے پاؤں تک سنہرے کام کا زردہ بکتر پہنے، خود پر یا قوت کی کلغی اور گلے میں یا قوت کی صلیب پہنے’’نقرہ ‘‘ گھوڑے پر سوار نخریلی چال چلتی آئی اور اس کی ران کے نیچے ٹرپتے گھوڑے کو دیکھ کر محظوظ ہوئی اور نارمن عورتوں اور فرانسیسی شہسوار وں کو عقب میں لے کر جبل لبنان کی شکار گاہوں کی طرف چلی ۔

(جاری ہے)