پولیس تشدد کی جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے، تو اس پر تبصرہ کرنے والے تربیت کا ذکر کرتے اور کہتے ہیں کہ ان ملازمین کو نفسیاتی تعلیم کی ضرورت ہے، لیکن ایسی تمام تجاویز اور یہ دعوے کہ جن پولیس ملازمین نے زیادتی کی ان کو سزا دی جائے گی، ہوا میں اُڑ جاتے ہیں اور پولیس اپنے روائتی کردار پر ہی قائم رہتی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کلب چوک میں نابینا افراد محض اس لئے پولیس والوں کی زیادتی کا شکار ہوئے کہ وی وی آئی پی کے لئے راستہ صاف کرانا تھا،اس پر بھی شور ہوا، وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا، تحقیقات اور دوچار چھوٹے ملازم معطل ہوئے، پھر لوگ بھول بھال گئے کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا، چنانچہ اب تک کسی کو اس تحقیقات کا علم نہیں۔جمعرات کو چوک بھاٹی گیٹ میں تعلیم کے لئے کوشاں چھوٹے چھوٹے طالب علموں نے مظاہرہ کیا تو پولیس والے اپنے روائتی ’’حسن انتظام‘‘ کے تحت ان پر پل پڑے۔ بچوں کو ڈنڈے مارے، اساتذہ کو تھپڑ، مُکے پڑے، ماؤں کو دھکے لگے، دو بچے زخمی بھی ہو گئے، اس کے باوجود پولیس والے مطمئن ہیں۔ واردات کے فوراً بعد روائتی طریقہ اختیار کیا، زخمی بچے کے والد کا بیان لے لیا، یوں قصہ ختم کرنے کی کوشش کی۔
یہ اسلامیہ ہائی سکول بھائی گیٹ کے طلباء تھے،جو قدیم سکول ہے اور سرکاری تحویل میں لئے جانے سے قبل انجمن حمایت اسلام اسے چلاتی تھی، پھر وہ وقت آیا جب سکول کو سرکلر گارڈن میں منتقل کیا گیا اور بد انتظامی کی وجہ سے ویران سا ہو گیا، قبضہ مافیا نے پنجے گاڑھے اور اکثر اوقات یہ ان کے قبضہ میں رہنے لگا، پھر ایک نجی ٹرسٹ نے ذمہ داری لی، سکول پھر سے آباد ہوا اور کارکردگی بھی مثالی ہو گئی۔ بتایا گیا ہے کہ پشاور آرمی سکول پر دہشت گردی کے بعد غیر سرکاری سکولوں کو سیکیورٹی انتظامات کے لئے کہا گیا اس سکول کی انتظامیہ (ٹرسٹ) کو دیواریں اونچی کرنے کے لئے ہدایت نامہ بھیجا گیا۔انتظامیہ نے مالی مشکلات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ سے گرانٹ مانگ لی، جو ان کا جرم ٹھہرا اور ایک ہی روز کے اندر حکم نامہ جاری کر کے سکول ٹرسٹ سے واپس لے کر محکمہ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔ طلباء اور اساتذہ اس پر احتجاج کر رہے تھے وہ پُرامن تھے ان کا مطالبہ تھا سکول واپس کرو اور سیکیورٹی دو۔ بس اس جرم پر وہ سزا وار ٹھہرے، اب وزیراعلیٰ نے بھی نوٹس لیا۔ اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سکول ٹرسٹ کو واپس کیا جائے اور سیکیورٹی کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ نبھائے، ساتھ ہی ساتھ موقع کی ویڈیو دیکھ کر پولیس ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے اور والدین کو معاف رکھا جائے۔ *
You are subscribed Successfully