سکولوں اور کالجوں میں کھیلوں کے مقابلے
یومِ اقبالؒ پر پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کی طرف سے پنجاب سٹیڈیم میں انٹرسکول و کالج گیمز کا رنگا رنگ افتتاح ہوا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر کھیل رانا مشہورد احمد خاں مہمانِ خصوصی تھے۔ سیکریٹری سپورٹس ہمایوں مظہر شیخ، ایم ڈی ٹورازم احمد ملک، پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر افتخار علی ملک اور سیکریٹری ادریس حیدر خواجہ کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں کے سپورٹس کے شعبوں کے متعلقہ ذمہ دار بھی موجود تھے۔ ہزاروں کھلاڑی لڑکوں، لڑکیوں نے اس رنگا رنگ تقریب میں حصہ لیا، یومِ اقبالؒ پر ان کھیلوں کے افتتاح کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اقبالؒ نے کہا تھا:
نہیں ہے نو اُمید اقبالؒ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ویسے بھی اقبالؒ کی خواہش تھی۔۔۔ جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔۔۔ پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ادریس حیدر خواجہ سے جب اس اہم ایونٹ پر گفتگو ہوئی تو انکشاف ہوا کہ پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کی تاریخ تو بہت قدیم ہے اور پاکستان وجود میں آنے سے پہلے بھی یہ موجود تھی بلکہ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان اولمپکس اس کے بعد قائم ہوئی تھی۔ اس تنظیم کا پنجاب میں کھیلوں کے فروغ میں بہت اہم کردار ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پنجاب کا صوبہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں پر قدیم زمانے سے ہی مختلف کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے در حقیقت کھیلوں کے بڑے اور نامور کھلاڑی پیدا کرنے میں نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس اہم نرسری کو نظر انداز کیا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو کھیلوں سے بھی بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر بھی طلبہ کو کم نمبروں کے باوجود داخلہ دیا جاتا ہے کیونکہ بعد میں یہی طلبہ صوبائی اور نیشنل سطح پر کھیلنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔ 2008ء میں انٹرسکولز اور کالجز سپورٹس کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ صرف دو سال ایسے گزرے جب ان مقابلوں کا انعقاد نہیں ہو سکا، ورنہ ہر سال باقاعدگی سے پنجاب سپورٹس ایسوسی ایشن گیمز کے مقابلے کروا رہی ہے اور ہمارے ہونہار طلبہ نے عالمی مقابلوں میں بھی حصہ لیا ہے اور وہاں پر انعامات حاصل کر کے پاکستان کا نام عالمی سطح پر بلند کیا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ ذہین طلبہ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بہت سے کام کرتے ہیں لیکن سپورٹس کا شعبہ پنجاب حکومت کی توجہ چاہتا ہے۔ اگر حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب اس طرف توجہ دیں تو انٹرسکولز اور کالجز سپورٹس سے مختلف کھیلوں کے باصلاحیت طلبہ کو منتخب کر کے ان کی خصوصی تربیت اور کوچنگ کے ذریعے انہیں عالمی سطح رینک کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور جیتنے کے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر افتخار علی ملک نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔’’صحت مند جسم اعلیٰ تعلیم اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے ویسے تو پورے پاکستان کو ہر لحاظ سے نوازا ہے، لیکن چاروں صوبوں میں سے پنجاب کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر سپورٹس کا زبردست ٹیلنٹ موجود ہے۔ پنجاب انٹرسکولز اور کالجز سپورٹس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ایک طرف تو کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ان طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے جو سپورٹس کے شعبے میں اپنے ٹیلنٹ کو منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کے پاس فنڈز وافر نہیں ہیں، لیکن پھر بھی سپورٹس کے میدان میں ٹیلنٹ کو منوانے والے طلبہ کو پانچ پانچ ہزار روپے حوصلہ افزائی کے لئے دیئے جاتے ہیں۔
افتخار علی ملک نے مزید بتایا۔۔۔ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور پرائیویٹ شعبے کے تعاون سے پنجاب میں کھیلوں کو بھرپور فروغ دیا جائے۔ جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے سٹوڈنٹس انڈومنٹ فنڈ بارہ ارب روپے تک پہنچا دیا ہے اور تقریباً ایک لاکھ طلبہ کو وظائف دینے کے علاوہ ہونہار طلبہ کو مختلف ترقی یافتہ ممالک میں سٹڈی ٹورز پر بھیجا جا رہا ہے اور واپسی پر پاکستانی طالبعلم اتنے اچھے نقوش چھوڑ کر آتے ہیں کہ آکسفورڈ سمیت مختلف نامور یونیورسٹیوں کی طرف سے بہت مثبت رسپانس کرتا ہے اور ان طلبہ کی وجہ سے بیرونِ پاکستان ہمارا امیج بہت مثبت ہوا ہے۔ سپورٹس کا شعبہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ چاہتا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ بارہ ارب روپیہ طلبہ کی بہبود کے لئے مختص کر سکتے ہیں تو سپورٹس کے شعبے کو تو صرف ایک ارب روپے سے بہت زیادہ ترقی دی جا سکتی ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ محمد شہباز شریف سپورٹس کو فروغ دینے کے لئے انٹرسکولز اور کالجز کے طلبہ کے لئے بھی سالانہ فنڈ مختص کریں۔
جب اولمپکس یا بین الاقوامی سپورٹس کے مقابلوں کی کوریج مختلف چینلوں پر دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پنجاب میں بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پاکستان کا ایک کھلاڑی بھی کسی مقابلے میں شرکت کرتا ہوا نظر نہیں آتا، جبکہ ہاکی پر اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرنے کے باوجود کوئی حوصلہ افزا نتیجہ آنا تو دور کی بات ہے،انہیں اولمپکس میں بھی داخلے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ سپورٹس کے دوسرے بہت سے شعبے ایسے ہیں۔ جن میں پاکستانی خصوصاً پنجاب کے کھلاڑی اپنا سکہ منوانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ پنجاب اولمپکس ایسوسی ایشن کچھ تجاویز مرتب کرنے میں مصروف ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی جائیں گی۔ ان تجاویز میں کھیلوں کے چند شعبوں کے انتخاب کے بعد با صلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب کر کے انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود کے خیالات بھی ایسے ہی ہیں۔ لیکن عملی قدم اٹھائے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انڈیا میں مختلف ادارو ں نے فٹ بال کی ٹیموں کو سپانسر کر کے فٹ بال کے اچھے کھلاڑی پیدا کئے ہیں پنجاب کے نوجوانوں کے تو خون میں سپورٹس شامل ہے، اگر انہیں مناسب مواقع فراہم کئے جائیں تو پنجاب کے با صلاحیت کھلاڑی عالمی سطح پر پاکستان کا نام بلند کر سکتے ہیں۔