علم اور تعلیم میں بنیادی فرق ( 2)

epaper

ماہرِ ہندسہ جات شری واستو رامانوجن جنہوں نے حسابیات( Arithmetics)کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اے ٹی ایم مشین سے کون واقف نہیں یہ مشین انہی کی محنت کا نتیجہ ہے معروف ترین ادیب اور رومانوی نثر کے ماہر ولیم شیکسپیئر بھی رسمی تعلیم کے حامل نہیں تھے جدید زمانے میں ایپل کمپنی سے کون واقف نہیں بچے سے لیکر جوان اور بوڑھے تک ایپل کے لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز استعمال کر رہے ہیں ایپل جو کہ موبائل ٹیکنالوجی کی دنیا کا انتہائی مستند اور معتبر ترین نام ہے اسکے بانی سٹیو جابز بھی مڈل پاس تھے کالج سے نکالے جانے والے بل گیٹس بھی جدید دور کی انتہائی معتبر شخصیت ہیں کمپیوٹر بغیر بل گیٹس کے تذکرہ کے نامکمل ہے مائیکرو سافٹ اس وقت دنیا کی انتہائی قابلِ اعتماد اور مستند ترین کمپنی ہے بل گیٹس اسکے اونر ہیں کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تعلیم یافتہ صرف وہ نہیں جن کے پاس بھاری بھرکم ڈگریاں ہیں یا جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں زندگی سے بڑی کوئی یونیورسٹی نہیں اور تجربے سے بڑی کوئی ڈگری نہیں انسان صرف تجربات سے سیکھتا ہے تخیلات سے نہیں کالج یا یونیورسٹی میں آپ کو کسی علم یا فن کے قواعد و ضوابط تو پڑھائے جا سکتے ہیں لیکن حقائق نہیں حقائق تجربات سے حاصل ہوتے ہیں اور تجربات سے قبل رہنمائی سودمند ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی کی رہنمائی آپکے تجربات کو مثبت بنا دے ہاں بنا بھی سکتی ہے بعض اوقات لیکن یہ کوئی مستقل قاعدہ نہیں کہ کسی کی علمی یا منطقی رہنمائی تجربات کے نتائج مثبت بنا دے دانشِ اصلی وہی ہے جو آپ کو غور و فکر اور مشاہدات و تجربات سے حاصل ہوتی ہے ، سوچ اور تجربات و مشاہدات پر پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
دنیا کا کوئی بھی نظریہ، خیال یا عقیدہ مطلق حقیقت نہیں رکھ سکتا کیونکہ حقائق بدلتے رہتے ہیں اس لئے کہ انسانی طبع یک رنگی اور جمود سے منزہ ہے انسان فطرتاً متغیر پسند واقع ہوا ہے وہ جلد اْکتا جاتا ہے رویوں سے اعمال سے افکار سے اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو فطرتی آزادی کے ساتھ اپنی فکر اور عمل متعین کرنا چاہئے کہ یہ انسان کا خارجی نہیں بلکہ فطرتی اور جوہری حق ہے تعلیم مخصوص ہو سکتی ہے تعلیم و تربیت مخصوص و جامد ہو سکتی ہے لیکن فکر جامد نہیں ہو سکتی کیونکہ فکر بہتے دریا کی مانند ہے اور بہتے دریا کبھی نہیں رکتے عام قاعدہ ہے کہ کھڑا پانی جوہڑ بن جاتا ہے پس یہی صورتحال فکر کی بھی ہے فکر جامد ہونے سے انسانی روح و جسم پر انتہائی سقم رسیدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں انسان کی روحانی ترقی مسدود ہو جاتی ہے بلکہ انسان جسمانی طور پر بھی اضمحلال کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ فکر ڈرائیو کرتی ہے وجود کو پس وجود تابع ہوتا ہے فکر کا اسی فکر کا خلاصہ دانش کہلاتی ہے پس دانش کی مثال سورج کی کرنوں کی مانند ہے جو اَبد تک چمکتی رہے گی دانش انسانی رویہ کو مزین کرتی اور انسان کو اعلی اخلاقی اقدار کی حامل بناتی ہے اس معاملے میں صرف انسان کو رہنمائی چاہئے ہوتی ہے صراطِ دانش کی اور صراطِ دانش انسان کسی تعلیمی ادارے یا تعلیمی ماحول سے نہیں حاصل کر سکتا اس کیلئے فکری جدوجہد اور رویہ میں جدت اور نیرنگی ضروری ہے اگر فکر رجعت پسندی سے آلودہ ہو جائے اور انسانی رویوں کو عقائد جکڑ لیں تو انسان کے اخلاق متعفن ہو جاتے ہیں اور معاشرہ اخلاقی پستی میں گر جاتا ہے دنیا میں صرف وہی اقوام آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے قابل ہوتی ہیں جو علم و اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتی ہیں علم سے مراد ڈگریاں لینا یا دیوہیکل تعلیمی ادارے تعمیر کرنا نہیں بلکہ اجتماعی شعور پیدا کرنا علم الاصل ہے جوکہ ہمارے ہاں بالکل ناپید ہو چکا ہے۔


اجتماعی شعور( Collective wisdom)کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے واضح رہے کہ اجتماعی شعور صرف ڈگریاں لینے سے نہیں آ جاتا پاکستان میں آجکل قریباً ہر علم و فن کی عبوری ڈگریاں مل رہی ہیں لیکن فی نفسہ ایسا کچھ نہیں ہے میں نے ایک تھیوریٹکل فزیسٹ نوجوان سے کہا کہ آپ مجھے آئن سٹائن کی تھیوری اپنے الفاظ میں بالکل سمپل طریق سے سمجھا دیں یقین کیجئے میری یہ گزارش سن کر نوجوان پریشان ہو گیا یاد رکھیں پڑھنا تعلیم ہے اور سمجھنا علم اور پڑھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں جب آپ سمجھ ہی نہیں پائے کیونکہ ہمارے پڑھنے کا مقصد ہی دراصل سمجھنا ہوتا ہے اور جب ہم سمجھ سے عاری ہو جائیں تو پڑھنا ہمارا ذریعہِ معاش تو بن سکتا ہے لیکن ذریعہِ فلاح نہیں، علم اور تعلیم میں ایک جوہری فرق یہ بھی ہے کہ علم انسان کو تہذیب النفس کی راہ پر لگا دیتا ہے جبکہ تعلیم تہذیب النفس سے مشروط نہیں ہوتی کیونکہ علم سے انسان حساس بن جاتا ہے اور یہی حساسیت انسان کے رویہ کو ہر آلائش سے منزہ کر دیتی ہے اسکی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر بدتہذیب ہو سکتا ہے وہ اخلاقی قباحت کا شکار ہو سکتا ہے لیکن ایک حساس عالم بدطینت نہیں ہو سکتا اور اسکی دلیل یہ ہے کہ بدتمیزی دراصل بے حسی سے پیدا ہوتی ہے چنانچہ ہر بے حس انسان بدخو بھی ہوتا ہے ۔


علم اور تعلیم میں بنیادی فرق کی وضاحت کے بعد تربیت پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ہمارے ہاں ایک اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے یعنی تعلیم و تربیت، تعلیم و تربیت سے مراد ہماری شعوری و غیر شعوری حْسنِ اخلاق ہی ہوتی ہے جب ہم اپنے بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اخلاق سنوار لیں نہ کہ اْنہیں ڈگری ہولڈر بنا لیں، ڈگری لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ محض ڈگری لینا مقصود نہیں کیونکہ ڈگری دراصل آپ کے فن کا ثبوت ہوتی ہے کہ آپ فلاں فن کے ماہر یا اْسکے متعلق معلومات رکھتے ہیں اب اس پورے معاملے کا تعلق اخلاقیات سے نہیں جوڑا جا سکتا جبکہ علم تو اخلاقیات ہی کا مطالعہ ہوتا ہے ہمارے ہاں چونکہ اجتماعی شعور نہیں پایا جاتا اس لئے علم، تعلیم، تربیت اور اخلاقیات کو شفل کر دیا جاتا ہے جس کے باعث اجتماعی شعور انتہائی ناقص بن جاتا ہے کسی چیز کو کماحقہ سمجھنا علم ہے کسی چیز کے متعلق رہنمائی تعلیم ہے کسی چیز کو بتدریج کمال تک پہنچانا تربیت ہے اور رویہ کو ہر منفی سرگرمی سے پاک کرنا دراصل اخلاق ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب ہی انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے ہم اپنے بچوں کو امن رسیدہ شعور دینے کی بجائے اْنہیں جہالتِ چنگیزی میں مبتلا کر دیتے ہیں اْوپر سے فاصلاتی نظامِ تعلیم نے ریاستی نظامِ تعلیم کو کباڑ خانہ بنا کے رکھ دیا سی ٹی، پی ٹی سی اور بی ایڈ جیسی انتہائی فنی مہارت آج دوشیزاؤں کا ذریعہِ کاسمیٹکس بن چکی ہے سیگریٹ پھونکنے والے سے لیکر کبوتر اْڑانے والا دہقان بھی آج اْستاد بن چکا ہے بلکہ ہمارے ہاں تو محکمہ تعلیم کو مْرلی محکمہ کی اعزازی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے اْستاد کسی بھی انسانی معاشرے کا روحانی باپ ہوتا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں پایا جاتا مملکتِ خداداد میں، یہاں پر ایک سال میں سب سے زیادہ چھٹیاں محکمہ تعلیم والوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں جبکہ دیگر انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹس برائے نام چھٹیاں کرتے ہیں مطلب سب سے گیا گزرا محکمہ ہمارے ہاں تعلیم ہی تو ہے۔(جاری ہے)