علم و ہنر کی بالادستی
مصطفی کمال پاشا
کیا ہم میں سے کوئی ذی شعور فرد انسانی تہذیبی ارتقاء میں علم و ہنر کی بالا دستی سے انکار کر سکتا ہے؟ انسان کی تمدنی تاریخ میں اس کے مظاہر ہر سو ہمارے سامنے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، اوپر اور نیچے بکھرے ہوئے ہیں چہار سو علم و ہنر اور فکر و فن کے مظاہرے انسانی عظمت کا ثبوت ہیں اگر آج انسان کی رسائی چاند ستاروں اور آسمان کی بلندیوں تک ہو گئی ہے تو یہ انسانی علم و ہنر کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ اپنے علم و ہنر کے باعث ہی انسان نے سمندروں کی پنہائیوں سے خزانے دریافت کر لئے ہیں ہوا ؤں پر دسترس اور لہروں پر حکمرانی اسی علم و ہنر کے باعث ہے۔ علم و ہنر نے ہی انسان کو کائنات میں اعلیٰ اور ارفاء مقام عطا کیا ہے۔
دس ہزار سالہ زرعی دور (AGRARIAN ERA) سے صنعتی دور(INDUSTRIAL ERA) میں انسانی تہذ یب کا داخلہ ہنر مندی کے باعث ہی ممکن ہوا ہے پھر نالج ایج اور گلوبل ویلج تک انسانی تہذ یب کا سفر علم و ہنر اور فن میں کمال کے باعث ہی کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ آج اگر تہذ یب انسانی تعمیر و ترقی اور حیرت انگیز جدت سے دوچار ہے تو اس میں انسانی فہم و فراست کے ساتھ ساتھ فن کاری اور ہنر کاری کا بنیادی کردار بھی ہے۔ تہذیب جدید کا مطالعہ اس حوالے سے دلچسپی کا حامل ہے۔
جاپان، جرمنی، ملائیشیا، انڈیا اور چین کی تعمیر اور ترقی کا سفر ایسی ہی بنیادوں پر استوار ہے۔
تہذ یب و تمدن اور علم و عر فان کے ارتقاء پر نظر رکھنے والے ماہرین دانشوروں کی رائے ہے کہ دور حاضر میں انسانی علم اپنے ارتقاء کے انتہائی مقام تک پہنچ چکاہے۔ انسان نے علم کے جس مقام تک پہنچنا تھا وہ سفر تمام ہوا۔ عالمگیر شہرت یافتہ فوکو یامانے (END OF HISTORY) میں دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حتی الامکان ارتقاءِ علم کے مراحل طے ہو چکے ہیں انسانی علم نے بامِ عروج حاصل کر لیا ہے اب آگے اور کچھ مزید نہیں ہے جسکی جستجو اور تلاش میں انسان سر گرداں ہو۔ ایک دوسرے عالمی شہرت یافتہ ہنٹنگٹھن نے (CLASH OF CIVILIZATION) میں لکھا ہے کہ مختلف تہذیبیں آپس میں برتری اور عروج کے لئے ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی اور جو تہذ یب اپنے اندر زیادہ قوت اور ثابت قدمی پائے گی وہی کامیاب اور غالب ہو گی۔ گویا ڈارون کا بیان کردہ SURVIVAL OF FITTEST کا اصول چلے گا۔ جو قابل ہو گا، ترقی یافتہ ہو گا۔ ایڈوانس ہو گا وہی پنپے گا وہی بچے گا وہی غالب ہو گا۔ باقی قومیں اور تہذیبیں یا فنا ہو جائیں گی یا محکوم اور مجبور بن کر جانوروں کی زندگی گزاریں گی۔
90 ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے اور امریکی سامراج کی حتمی فتح کے خود ساختہ اعلان کے ساتھ ہی انسانی تہذ یب کا ارتقاء ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا اور امریکی بالا دستی کی جنگ تیز ہو گئی۔ 90ء کی دہائی اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس میں عالمی سیاست نے ایک نیا ٹرن لیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کی سیاست بائی پولر سے یونی پولر ہو گئی اور توازن سے عدم توازن کی کیفیت میں چلی گئی۔ توانا امریکی اور اشتراکی کیمپوں کے باعث عالمی بساط سیاست توازن اور استحکام کی حالت میں تھی دونوں کیمپ اپنے اپنے دوست ممالک اور اقوام کی تعمیرو رترقی کے لئے بھی کاوشیں کرتے تھے اسطرح کمزور اور غریب ممالک اپنے اپنے انداز میں قائم و دائم تھے لیکن 90 ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی امریکی استعمار نے اپنی برتری اور لیڈر شب کا یکطرفہ طور پر اعلان کر دیا۔خلیج پر حملے کے ذریعے اپنی دہشت ناکی ظاہر کی۔آپریشن ڈیزرٹ سٹارم اور ڈیزرٹ شیلڈ نے امریکہ کی لامحدود فائر پاور، ایڈوانس وار ٹیکنالوجی اور اس کے شاندار استعمال کی حیران کن صلاحیت دنیا پر اسطرح ظاہر کی کہ کسی قوم میں اس کے خلاف منہ کھولنے کی جرات نہ رہی پھر 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان اور عراق پر عملاََ فوج کشی کر کے وحشت اور بربریت کا جو کھیل کھیلا، انسانی تاریخ ا سکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سوویت یونین کے بعد امریکی مہم جوئی تکبر اور غیر اخلاقی رویوں اور مظاہر پر مبنی تھی اسلئے اس کے غلط نتائج نکلے۔ دنیا تباہی و بربادی کا شکار ہوئی۔
کیونکہ یونی پولر ورلڈ ایک غیر فطری حالت ہے عالمی نظام یکطرفہ طور پرامریکی خواہشات کے مطابق کسی طرح بھی چل نہیں سکتا۔ عالمی سیاست میں عدم استحکام زیادہ دیر تک کارفرما نہیں رہ سکتا اسلئے دیگر اقوام تعمیر و ترقی کے عمل کے ذریعے بتدریج طاقت ور ہو رہی ہیں۔ توازن طاقت کے لئے کئی چھوٹے بڑے علاقائی اور عالمی بلاکس بن رہے ہیں اس طرح عالمی بساط میں عدم توازن ، بتدریج متوازن ہونے چلا ہے یہ سب کچھ بتدریج ہو رہا ہے۔چین ایک عظیم طاقت کے طور پر عالمی منظر پر ظاہر ہو چکا ہے۔ جرمنی اور ملائیشیا مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ۔انڈیا بھی اسی دوڑ میں شامل نظر آ رہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند دھائیوں کے دوران، بلکہ گزشتہ صدی کے نصف کے بعد جنگِ عظیم دوئم (1939-45ء) کی تباہ کاریوں کے بعد جن اقوام نے معاشی ، استحکام اور سیاسی خود مختاری حاصل کی اور اپنے دفاعی صلاحیتوں کو اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کر کے تعمیر و ترقی کی منازل طے کیں وہ سب کسی نہ کسی انداز میں اپنی نوجوان نسل کو جو ہر قابل بنا کر ترقی کے عمل میں ساتھ لے کر چلیں جو قومیں نوجوانوں کو ہنر مندی اور فن یافتگی کے ذریعے کارآمد بنانے میں کامیاب ہوئیں وہی عالمی منظر پر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ ملائیشیا ، بزازیل ، ترکی ، چین ، جرمنی، جاپان اور انڈیا اس کی واضع مثالیں ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے دشمن ہمسائے انڈیا کو دیکھ لیں اس نے 60ء کی دھائی میں اپنے نوجوانوں کے لئے ہنر مندی اور فن سازی کا جو عمل شروع کیا یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج انڈیا عالمی منظر پر چھا جانے کے لئے پَر تول رہا ہے امریکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چینی مینو فیکچررز یہاں کھچے چلے آرہے ہیں۔ روسی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جاپانی پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ یہاں ہنر مند افرادی قوت حسبِ ضرورت دستیاب ہے اس لئے مصارف پیدائش COST OF PRODUCTION کم ہے۔
سرمایہ کار کھنچے آرہے ہیں۔ انڈیا ہیروں کی منڈی کا عالمی چمپئین ہے یہاں ہیروں کی کانیں نہیں ہیں لیکن یہاں لاکھوں ایسے ہنرمند موجود ہیں جو خام ہیرے یعنی کوئلے کو اپنے فن سے بنا سنوار کر قیمتی ہیرے میں منتقل کرتے ہیں ہیرے سازی کی سب سے بڑی صنعت انڈیا میں ہے جسے اس کے تربیت یافتہ ہنر مند چلا رہے ہیں کس ہیرے کی کیا قیمت ہو گی یہ ہندوستان کے ہنر کار طے کرتے ہیں اسطرح ہندوستان کروڑوں نہیں اربوں ڈالر کما رہا ہے۔
دنیا کے امیر ترین شخص اور آئی ٹی کے کنگ بل گیٹس کو لیجیے اس نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سلیکون ویلی بنگلور میں قائم کی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کال سنٹرز انڈیا میں قائم ہیں۔ کال سنٹرز کا سب سے زیادہ بزنس انڈیا میں ہوتا ہے یہ انڈسٹری بھی ہندوستان کے لئے اربوں ڈالر کی کمائی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کی وجہ تربیت یافتہ ہنرمندوں کی با افراط دستیابی ہے۔ ہندوستانی ہارڈوئیر ہنر کاروں کی با افراط کھپت نے ہندوستان کو اس شعبے میں بھی با عزت مقام دلایا ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے اورلڑکیاں بل گیٹس کے تعاون سے ہنر مندوں کی اس فوج میں شامل ہو رہے ہیں جو انڈیا کی تعمیر و ترقی میں ہر اول دستے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
ملائیشیا نے بھی اپنے ہنرمند نوجوانوں کے ذریعے عالمی برادری میں با عزت مقام حا صل کیا ہے۔ فرقوں اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم قوم کو مہاتیر محمد نے فن کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تر بیت کے ہتھیار وں سے مسلح کر کے ترقی کی شاہراہ پر اس طرح گامزن کیا کہ پھر انہوں نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے ایشین ٹائیگر (ملائیشیا) نے پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی۔ جارج سورس نے سٹاک مارکیٹ میں بحران پیدا کر کے ملائشیا کو ا یشین ٹائیگر کے مقام پر گراکربلی بنا دیا لیکن کیونکہ ملائیشیا کی بنیادیں مضبوط تھیں اور وہاں تربیت یافتہ افراد موجود تھے جو اسے ایک بار پھر عزت اور احترام کے مقام پر لے آئے آج اگر ملائیشیا عالمی برادری میں بلند مقام پر کھڑا ہے تو اس کی وجہ اس کے ہنر کار اور فن کار ہیں۔ جنہوں نے اسے دوبارہ ایشین ٹائیگر بنا دیا۔
چین ہمارے لئے ایک اور قابل تقلید مثال ہے جس نے بتدریج ترقی کر تے کرتے اپنے آپ کو دنیا کی محترم ۔ مضبوط اور مو ثر اقوام کی صف میں لا کھڑا کیا ہے چین عالمی معیشت میں ایک دیو کی صورت میں چھارہا ہے ہرآنے والا دن اس کی قدرو منزلت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ چینی مضوعات ، سوئی، کامن پن بال پوائنٹ سے لے کر موٹر سائیکل ، گاڑی اور ہوائی جہاز تک عالمی مارکیٹ میں چھائی ہوئی ہیں چینی کرنسی یوآن کی قدر میں اضافہ یا کمی عالمی منڈی میں زلزلہ برپا کر دیتا ہے اس کی بنیادی وجہ چینی فن کار، اور تربیت یافتہ افرادی قوت ہے جو چین کو قدم بقدم آگے بڑھا رہی ہے۔تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کروا رہی ہے۔
چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور کے اجراء کے ذریعے پاکستان ایک عظیم معاشی معاشرتی انقلاب سے ہمکنار ہونے جا رہا ہے اس راہداری کے تمام راستے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور عظمت کی طرف جاتے ہیں لاکھوں ہنر مندوں کو روزگار کی فراہمی کے ذریعے یہاں غربت ختم ہونے والی ہے۔ پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سورج طلوع ہونے کو ہے، لیکن معاشی ترقی اور خوشحالی کے اس سفر کو تیز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم علم و ہنر سے بہرہ ور نوجوانوں کی فوج تیار کر کے اکنامک کاریڈور کے میدانِ کار میں اُتاریں۔اسی سے یہاں معاشی انقلاب برپا ہو گا۔