یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں آئینی معاملہ ہے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا: ہائیکورٹ


لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کی چار جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرریوں کے خلاف کیس میں ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے مبہم جواب داخل کرنے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیاکہ سرکاری یونیورسٹیوں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے مگر ہائر ایجویشن کمیشن کی ان یونیورسٹیوں سے متعلق پالیسی ہی واضح نہیں۔ جسٹس شاہد کریم نے مزید ریمارکس دیئے کہ جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں آئینی مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔دوران سماعت پنجاب یونیورسٹی کے وکیل ملک اویس خالد نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو پبلک سیکٹر یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کے سیکشن 14کے تحت میرٹ اور قوانین کی بنیاد پر تعینات کیا گیا۔درخواست گزاروں کے وکیل سعد رسول نے کہا کہ قوانین کے تحت وائس چانسلرز کی تعیناتی سے قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔معیار طے کرنا ،یونیورسٹیوں کو گائیڈ لائن دینا اور وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے لئے سرچ کمیٹیاں قائم کرنا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اختیار ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن لاہور کے ڈائریکٹر جنرل نذیر حسین نے جواب داخل کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایچ ای سی نجی یونیورسٹیوں کے معاملات کو ریگولیٹ کرتا ہے،پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے معاملات کو صوبائی حکومتیں قوانین کے تحت سرانجام دیتی ہیں جس پر عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کمیشن کے ڈھیلے ڈھالے جواب سے کام نہیں چلے گا،یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں آئینی معاملہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے مگر ہائر ایجویشن کمیشن کی اس سے متعلق پالیسی ہی واضح نہیں ہے،عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حکم دیا کہ اسے سرچ کمیٹیاں قائم کرنے اور گائیڈ لائن دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں اس حوالے سے مبہم جواب دینے کی بجائے واضح جواب عدالت میں پیش کیا جائے ،اس کیس کی مزیدسماعت 4 اپریل کو ہوگی۔