نجکاری کسی مسلے کا حل نہیں سرکاری سکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے
زلیخا اویس
دنیا بھر میں تمام ترقی یافتہ ممالک ، یا وہ ممالک جو ترقی کرنا چاہتے ہیں، اپنی پہلی ترجیح تعلیم کو سمجھتے ہیں۔ ایک جمہوری ریاست ہونے کی بناء پر پاکستان میں بھی عوام کے منتخب نمائندوں پر آئین کے تحت فرض ہے کہ وہ ریاست کے تمام باشندوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ پرائمری سے لے کر میٹرک تک معیاری تعلیم مفت مہیا کرے ۔ اس فرض منصبی کو نبھانے کے لیے حکومت اپنی نگرانی میں سرکاری سکول قائم کرتی ہے۔ مگر نجانے پاکستان میں اس کے برعکس کیوں ہوتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک خبر میری نظر سے گزری کہ ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ اور برٹش کونسل کے مشترکہ پروگرام میں پنجاب کے سرکاری سکولوں کو دنیا بھر کے بہترین سکولوں سے منسلک کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دہیے گئے ہیں۔
ڈی ایس ڈی(DSD) اور برٹش کونسل کے مشترکہ پروگرام کے تحت پنجاب کے 550 سرکاری سکولوں کو 180ممالک کے 44000 سکولوں سے آن لائن منسلک کر دیا جائے گا جس کے تحت انٹر نیٹ کے ذریعے یہ سکول باہمی تجربات ، مشاہدات اور تعلیمی صلاحیتوں کا تبادلہ کریں گے۔
یہ خوشخبری صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہوداحمد خان نے ڈی ایس ڈی اور برٹش کونسل کے مشترکہ پروگرام کے تحت پنجاب کے سرکاری سکولوں کو دنیا بھر کے ممالک کے بہترین سکولوں سے منسلک کرنے کے معاہدے پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سُنائی ۔
وزیر موصوف کا مزید کہنا تھا کہ ڈی ایس ڈی اوربرٹش کونسل کے اس مشترکہ پروگرام کے تحت پنجاب کے سکولوں کو دنیا بھر کے سکولوں سے جوڑ کر تعلیمی معیاربہتربنایا جائے گا اور اس پروگرام کے تحت اگلے مرحلہ میں پنجاب کے 1500 سکول مستفید ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق
برٹش کونسل نے آن لائن انٹر نیشنل سکول ایوارڈ کے تحت پنجاب کے 550 سکولوں کا انتخاب کیا گیاہے جس میں یہ لازم قرار دیا گیاہے کہ منتخب سرکاری سکول مختلف پروگرام میں اشتراک کرے جس میں ملک کے کم از کم چار اور بین الاقوامی سطح کے ایک سے تین سکول شامل ہوں گے جہاں سکولوں کے اساتذہ اور طلباء اپنے تعلیمی تجر بات اور صلاحیتوں کا براہ راست باہمی تبادلہ کریں گے اور بیرون ممالک اساتذہ کے طریقۂ تدریس کا مشاہدہ کریں گے ۔ اس پروگرام کے تحت ڈی ایس ڈی، اٹک، راولپنڈی، چکوال،جہلم،سرگودھا ،خوشاب، گجرات، بہاولپور،رحیم یار خان،مظفر گڑھ،ملتان،لودھراں،خانیوال، وہاڑی،ساہیوال ،اوکاڑہ، فیصل آباد ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ،لاہور، قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے منتخب سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں اورماتحت اساتذہ کی ٹریننگ کرے گا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ اقدامات خوش آئند ہیں۔ اور بظاہر حکومت کی تعلیم دوستی کا ثبوت بھی ہیں ۔جبکہ دوسری جانب سرکاری سکولوں کی نجکاری کا سلسلہ بھی جاری ہے اوراساتذہ کی اپ گریڈیشن جیسے مسائل کا بھی تاحال کوئی حل نہیں نکل سکا۔
یہ صورتِ حال کسی المیے سے کم نہیں کہ شعبہ تعلیم میں موثراصلاحات کے ذریعے بہتری لانے کی بجائے ۔سارے تعلیمی نظام کو پرائیویٹائز کیاجارہا ہے اور سکولوں کوپیف(PEF)کے حوالے کرنے کا یہ سلسلہ مرحلہ وار جاری ہے۔
1973ء کا آئین استاد اور تعلیمی اداروں کو تحفظ دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو بھی سرکاری بنایا، بے شمار ٹیچرز کو بھرتی کیا جس سے تعلیم کا میعار بھی بہتر ہوا اور استاد کو عزت بھی ملی اور روزگار بھی ملا۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیوئزیشن کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تونہ صرف تعلیم کا نقصان ہوگا بلکہ بے شمار اساتذہ بھی بیروزگار ہوجائیں گے ۔
اس وقت پنجاب میں پچاس ہزار سے زیادہ سکولوں میں ساڑھے تین لاکھ کے قریب اساتذہ تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے اہم بات ہے ہے کہ پہلے مرحلے میں سکولوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ کو تو دیگر سرکاری سکولوں میں کہ جہاں اساتذہ کی تعداد کم تھی، ایڈجسٹ کردیا گیا ہے مگر ان کے بعد فارغ ہونے والے استاد کہاں جائیں گے۔
پورا سسٹم ہی پرائیویٹائز کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارا نظام تعلیم ہی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلاجائے گاجو ان سکولوں کو ٹھیکے پر دے کر تعلیم و تعلیم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے۔
ایک طرف حکومت تعلیمی ترقی کے لئے برٹش کونسل کے اشتراک سے ’’ آن لائن انٹر نیشنل سکول‘‘ جیسے معاہدے کررہی ہے، اور دوسری جانب سرکاری سکولوں کی نجکاری کا عمل بھی زورو شور سے جاری ہے ۔
2013ء کے بعد مختلف پالیسیوں کے ذریعے نجکاری میں بہت تیزی آئی ہے۔ان تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے2020ء تک 95فیصد سرکاری پرائمری تعلیمی اداروں بند ہوجائیں گے اورپاکستان میں حکمران خاندانوں کی طرح تعلیمی اداروں پر بھی چند خاندانوں کااختیارہوگا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کوزیادہ تر نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پنجاب میں توبڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی باقاعدہ نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے کا بجٹ (وفاقی اور صوبائی) انتہائی شرمناک حد تک کم رہا ہے اور اب تو یہ رقم بھی ’پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن‘ جیسے اداروں کے ذریعے ’این جی اوز‘ اور نج کاری شدہ سرکاری تعلیمی اداروں کے نئے مالکان کو دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح نام نہاد’’تعلیمی ٹرسٹوں‘‘کو دی جانے والی اربوں روپے کی خطیررقوم کی وضاحت اور جواز سرکاری بجٹ میں کہیں موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں تعلیم کی صورتِ حال کی زبوں حالی کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا ملک تعلیمی اعتبار سے دنیا میں 160ویں نمبر پر ہے۔
’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ کی مہم کے ذریعے تعلیم عام کرنے کی جو پالیسی بنائی گئی تھی وہ نئے سرکاری سکول کھولے بغیر کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟پنجاب میں 40 لاکھ مزید بچوں کو سکولوں میں لانے کا ہدف ہے لیکن یہ ہدف محکمہ نے اپنے پاس رکھا ہی نہیں، بلکہ نجی سکولوں کے حوالے کر دیا ہے۔ محکمہ سکولز ایجوکیشن نے بذریعہ مراسلہ یہ واضح کیا ہے کہ لاہور سمیت صوبے کے 36 اضلاع میں کوئی بھی نیا سرکاری سکول سرکاری محکمے کے زیرِ انتظام نہیں کھولا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ تعلیم عام کرنے کے لیے مکمل طور پر نجی سکولوں پر انحصار کیا جائے گا۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری سکولوں کو ختم کر کے متبادل نجی سکولوں کا جال بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسی لئے نجی سکولوں کو پھلنے پھولنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
ایک طرف نجی سکولوں کے نصاب اور فیسوں کو دائرہ کار میں لانے کے لیے اسمبلی میں سکول ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بحث اور حکومتی اقدامات ہیں تو دوسری جانب نجی سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن (پیف) کے ذریعے سالانہ 9 ارب روپے کا بجٹ تھما دیا گیا ہے۔
پیف(پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن) کو 15۔2014 کے بجٹ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن مزید مطالبے پر 2 ارب 80 کروڑ روپے اضافی دیے گئے۔ رواں تعلیمی سال کے لیے حکومت نے پیف کا بجٹ 10 ارب روپے تک کر دیا ہے جبکہ صوبے میں جن 10 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں، ان کا بجٹ 15 ارب روپے سے کم کر کے 8 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پیف کے طریقہ کار کے مطابق نجی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی فیسوں کی ادائیگی،ایجوکیشن واوچر سکیم کے تحت کر دی جاتی ہے ۔ یقی جو نجی سکول پیف کے ساتھ الحاق شدہ ہیں، ان کے بچوں کی فیسیں بھی پیف ادا کرتی ہے۔
اس پالیسی سے نجی سکولوں کے گروپس کو مزید مضبوط ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پیف کے ساتھ پانچ سال پہلے جس مالک نے ایک نجی سکول کا الحاق کروایا، وہ اب دس دس سکولوں کے مالک ہیں۔ پھر بھی حکومت اور بیوروکریسی ان سکولوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی کیونکہ بہت سارے سکولوں میں سیاستدانوں بلکہ خود بیوروکریسی کے نمائندوں کی سرمایہ کاری ہے!
ستم با لائے ستم یہ کہ پنجاب کے تعلیمی منصوبوں کاماسٹر مائنڈ ایک برطانوی ماہرِ تعلیم سر مائیکل باربر ہے جسے حکومت ماہانہ 10 لاکھ روپے ادا کر رہی ہے، جبکہ وی وی آئی پی رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
سر مائیکل باربر کے کہنے پر شعبہ تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک کے نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئیں ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کیا اس طرح کے اقدامات کر کے حکومت شرح خواندگی میں اضافہ کر سکتی ہے یا تعلیمی معیار بہتر ہو سکتا ہے؟
معیاری تعلیم کی مفت فراہمی نہ صرف ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے بلکہ آئین کا بنیادی حصہ بھی ہے۔۔۔ وہ آئین جس کے تقدس کی بہت فکر ہمارے حکمرانوں کو رہتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بہت سے دوسرے بنیادی سماجی فرائض کی طرح حکمران طبقات اور ریاست یہ فریضہ بھی ادا نہیں کر پائے ۔اگر صورتِ حال یہی رہی تو تعلیم غریب بچوں کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی۔
جب تک سکول قومی دھارے میں رہیں گے، تب تک توہمارے بچے شاید سستے سکولوں میں پڑھ سکیں۔ مگر جس دن وہ نجی تحویل میں چلے گئے، بچوں سے مختلف حیلے بہانوں سے مختلف قسم کے فنڈ بٹورے جائیں گے۔ اور پھر یوں ہو گا کہ بچے صرف ان خاندانوں کے پڑھیں گے جو امیر ہوں گے۔
یہ سوال جومیرے ذہن میں پیدا ہوا ہے اور بہت سارے لوگوں کے ذہن میں بھی آتا ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی استعداد کار کو بہتر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔سرکاری سکولوں کی تعداد میں اضافہ، اور ان کے معیار کو نجی سکولوں کے معیار کے برابر لا کر ہی تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب حکومت کو پیف کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے بجائے مستقل طور پر سرکاری سکولوں کو کھول کر ان کی براہ راست سرپرستی کرنی چاہیے۔ نجی سکولوں کو دائرہ کار میں لا کر ان کے نصاب اور فیسوں کو سرکاری سکولوں کے برابر کرنا چاہیے تاکہ تعلیم صرف امیروں تک محدود نہ رہے اور ہمارے بچوں میں یکساں اقدار اور قومی ترقی کا جذبہ پیدا ہو سکے۔
***