نتائج آنے سے پہلے نئی کلاسوں میں داخلے کا رجحان
محمد معاذ قریشی
کسی بھی مُلک میں خواہ وہ جمہوری ہو یا بادشاہت کا دور دورہ ہو، تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں، جن کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے اور ہر حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اِن دونوں شعبوں پر بھرپور توجہ دے، جو ریاستیں فلاحی ریاستیں کہلانے کی دعویدار ہیں وہاں تو بجٹ کا خطیر حصہ صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔صحت انسانی زندگی اور تعلیم انسانی مستقبل سے جڑی ہوتی ہے، ترقی یافتہ اقوام اکثر و بیشتر تعلیم کے میدان میں مقابلہ کرتی ہیں اور جن اقوام میں نفسیاتی جنگوں کے معرکے ہوئے ہیں اُن میں تعلیم کا کردار ہی زیادہ رہا ہے، ہمارے ہاں بھی تعلیم کو ہر دور میں اہمیت دی جانے کے دعوے عام رہے ہیں، لیکن اقدامات اکثر اس کے برعکس ہوتے رہے اور تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے، جس کی وہ متقاضی ہے۔ اکثر و بیشتر سیاسی مخالفت کی بنا پر ایسے انتظامی فیصلے کئے جاتے رہے، جن سے تعلیمی انقلاب کی اصل روح کو نقصان پہنچا۔ سرکاری تعلیمی ادارے تو اپنی جگہ، نجی تعلیمی اداروں نے تو تعلیم کو باقاعدہ کاروبار، بلکہ انڈسٹری بنا ڈالا اور اپنے مفاد کی خاطر نونہالانِ وطن کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا۔ پرائمری سے ہائر ایجوکیشن تک تعلیم اِس قدر مہنگی کر دی گئی کہ غریب کی دسترس سے باہر ہو گئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بدحالی کا تو تذکرہ ہی نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تعلیم یا تربیت نام کی کوئی شے برائے نام بھی ڈھونڈنے کو نہیں ملتی، مجبوراً والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں جہاں دونوں ہاتھوں سے لُٹ کر سال دو سال بعد یا بچوں کو ادارے سے اُٹھا لیتے ہیں اور کسی دوسرے ادارے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں یا پھر تعلیم کو خیرباد کہہ کر بچے کو کام پر ڈال دیا جاتا ہے، جو پرائیویٹ اداروں کے اخراجات برداشت کرنے کی تھوڑی بہت سکت رکھتے ہیں وہ بھی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد زچ ہو جاتے ہیں اور اے کلاس تعلیمی اداروں سے بچوں کو ہٹا کر بی اور سی میں پناہ لیتے ہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے والدین کو آج کل جس پریشانی کا سب سے زیادہ سامنا ہے وہ رزلٹ آنے سے پہلے اگلی کلاسوں میں داخلے کی چکا چوند ہے۔ میٹرک کے نتائج سے پہلے پری انٹر اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ سے پہلے بی اے، بی ایس سی، بی سی ایس، بی کام اور انجینئرنگ و میڈیکل وغیرہ میں داخلے کے جھانسے والدین کے لئے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے بورڈ اور یونیورسٹیز کی طرف سے رزلٹ اناؤنس کرنے سے پہلے ہزاروں، بلکہ لاکھوں روپے حاصل کر کے اگلی کلاسوں میں داخل کر لیتے ہیں۔طلبہ و طالبات کو یہ سبز باغ دکھایا جاتا ہے کہ آپ کا وقت بچایا جا رہا ہے اور آپ کو اگلی کلاسز میں داخلہ دے کر ہم بڑا احسان کر رہے ہیں، لیکن جب داخلہ لینے والے بچے رزلٹ آنے پر کامیاب نہیں ہو پاتے تو اگلی کلاس کی تعلیم ختم اور فیسوں کے اخراجات ہضم۔
کئی تعلیمی ادارے تو ایسے ہیں کہ ایک دو مضامین میں فیل ہو جانے والے سٹوڈنٹس کو بھی ایڈمٹ کر لیتے ہیں، لیکن یونیورسٹی اور بورڈ سے اُن کی رجسٹریشن نہیں کرواتے، دو سال گزرنے کے بعد جب طالب علم اِس دھوکے سے آگاہ ہوتے ہیں تو اُن کے پاس سڑکوں پر آ کر احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔اِس حوالے سے آج تک محکمہ تعلیم، ایچ ای سی یا دوسرے ذمہ دار اداروں نے کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نجی تعلیمی ادارے بے لگام ہیں اور دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ میں جو جی میں آئے کر لیتے ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر کوئی پالیسی بنائی بھی جاتی ہے تو اُس کا نفاذ یقینی بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی، نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے کئی پالیسیاں فائلوں کی زینت بنی آج بھی سرکاری دفاتر میں پڑی ہیں اور کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ والدین اِس زیادتی پر دروازہ کھٹکھٹائیں تو کس کا اور کون سا، کوئی ذمہ دار ادارہ بھی ایسا نہیں جو من مانی کرنے والے نجی تعلیمی اداروں کو لگام دے سکے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت رزلٹ آنے سے قبل اگلی کلاسوں میں داخلہ دیئے جانے کے حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس حکمتِ عملی اپنائے جس کا اطلاق نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔