وزارت عظمٰی کا آسان راستہ : تین بار پیر اعجاز قادری کے دربار میں حاضری
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
پیر اعجاز قادری نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کہا ہے کہ وہ تین بار ان کے دربار میں حاضری دیں تو انہیں وزارت عظمیٰ دلوا دی جائے گی۔ پیر صاحب کی اس پیشکش کا نہ جانے آصف علی زرداری کیا مطلب لیں، کیونکہ پیر اعجاز قادری کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب زرداری صدر تھے۔ اس زمانے میں ان کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ ان کا زیادہ وقت ایوان صدر ہی میں گزرتا ہے۔ تین چار بار تو ہم نے بھی انہیں ایوان صدر کی راہداریوں میں دیکھا، بعض تقریبات کے سلسلے میں ایوان صدر جانا ہوتا تو پیر صاحب وہاں رونق افروز ہوتے، جو لوگ انہیں جانتے تھے وہ آگے بڑھ کر قدم بوسی کی کوشش کرتے اور جنہیں ذرا زیادہ شناسائی تھی وہ دعاؤں کی درخواست بھی کر دیتے تھے۔ ویسے تو کسی کو بھی اقتدار اللہ رب العزت کی مرضی کے برخلاف نہیں مل سکتا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعض دنیاوی راستے بھی ہیں جن پر چلنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کا ایک آئین ہے جس میں درج ہے کہ قومی اسمبلی میں جس کی اکثریت ہوگی وہ وزیراعظم بن جائے گا۔ موجودہ حلقہ بندیوں اور خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کی بنیاد پر اس وقت قومی اسمبلی کی 342 نشستیں ہیں۔ وزیراعظم بننے کے لئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ یہ حمایت جس کسی کو بھی حاصل ہو جائے وہ وزیراعظم بن سکتا ہے۔ جب کبھی قومی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے، نمبر گیم کا فارمولا یہی رہے گا، البتہ اگر کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ہو تو پھر توڑ جوڑ کرنے پڑتے ہیں اور ضرورت پڑے تو سیاسی جماعتوں کے ٹکڑے بھی کرنے پڑتے ہیں بشرطیکہ آپ اس پوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہوں کہ انگلی کا اشارہ کرکے کسی مضبوط سیاسی جماعت کو توڑ سکیں، بعض اوقات تو انگلی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، محض اشارۂ ابرو ہی کافی ہوتا ہے جیسے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا نیک کام یہ کیا کہ وہ مسلم لیگ جو نواز شریف کی صدارت میں متحد تھی، اس کے دو ٹکڑے کرا دئیے اور ایک مسلم لیگ (قائداعظم) بنوا دی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسلم لیگ انہوں نے بنوائی تھی۔ زیادہ تر مسلم لیگیوں نے اس جماعت کا رخ کیا، جو لوگ نواز شریف کی محبت کے بڑے دعوے کرتے تھے وہ بھی یہ سمجھے کہ اب نواز شریف بھولی بسری کہانی ہوگئے ہیں، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں، کہیں عدالتی پیشی کے لئے جہاز میں سوار کرانا پڑے تو باقاعدہ نشست سے باندھ کر لایا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہواؤں کا رخ پہچاننے والوں نے ادھر کا رخ کرلیا جدھر سے اقتدار کی عطر بیز خوشبوئیں آتی تھیں۔ ایسے میں چند سر پھرے ہی نواز شریف کی اس مسلم لیگ میں رہ گئے جو بعد میں ان کے نام سے مشہور ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے حکم سے الیکشن ہوئے تو پرویز مشرف کی چشم ابرو سے بننے والی مسلم لیگ (ق) اگرچہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن قطعی اور سادہ اکثریت بھی اسے حاصل نہ ہوسکی، جنرل پرویز مشرف نے مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش تو کئی بار کی لیکن وہ ایسے کوتاہ دست تھے کہ بڑھ کر اقتدار کا جام تھام نہ سکے، اور آپ کو معلوم ہے سیاست کی دنیا کوتاہ دستوں کو کبھی راس نہیں آئی۔ اقتدار کا یہ جام جب جنرل پرویز مشرف نے راؤ سکندر اقبال اور فیصل صالح حیات کو پیش کیا تو انہوں نے خوشی خوشی اسے لبوں سے لگا لیا اور پیپلز پارٹی کے کیک کا ایک سلائس جنرل صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا جس کے تعاون سے میر ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن گئے۔ یہ کہانی اگرچہ لذیذ ہے اور اس کی شیریں دہنی تقاضا کرتی ہے کہ اسے ذرا تفصیل سے لکھا جائے لیکن اس وقت ذکر ہے پیر اعجاز قادری کا، جنہوں نے عمران خان سے کہا ہے کہ وہ تین بار ان کے دربار میں حاضری دیں تو انہیں وزارت عظمیٰ دلوا دی جائے گی۔ حیرت کی بات ہے کہ پیر صاحب پیر تو آصف علی زرداری کے ہیں اور وزارت عظمیٰ پیش کر رہے ہیں عمران خان کو۔ اس سے لگتا ہے کہ یا تو انہوں نے اپنی چشم بینا کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں کا مستقبل جھانک کر دیکھ لیا ہے اور انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ زرداری کا اب اقتدار میں آنا ممکن نہیں، اس لئے انہوں نے عمران خان پر نظریں جما دی ہیں جو 2013ء سے پہلے ہی اقتدار کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے لیکن عمران خان سے زیادہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگلا وزیراعظم وہی بنوائیں گے یعنی اگر خود نہ بھی بن سکے تو بھی نیا وزیراعظم ان کی مرضی سے بنے گا۔ اب پیر صاحب نے جو آسان نسخہ عمران خان کے لئے تجویز کیا ہے، بہتر ہے وہ ان کے آستانے پر حاضری دیں اور چاندی کی طشتری میں سجی ہوئی وزارت عظمیٰ لے کر بنی گالہ آجائیں۔ کیونکہ وزارت عظمیٰ اگر معروف ذریعوں سے حاصل کرنی پڑے تو بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، جلسوں میں بدنظمیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، سیالکوٹ جلسے کی طرح بعض اوقات انڈے اور ٹماٹر بھی کھانے پڑتے ہیں، حلقوں میں لوگوں کی سخت سخت باتیں سننی پڑتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ووٹروں کو نقد رقوم نہیں تو موٹر سائیکلیں وغیرہ تحفے میں دینا پڑتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اور بھی ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں، پھر بھی نتیجہ 2013ء کی طرح نکل آئے تو دھرنے دے کر امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، پھر بھی ایسا ہوتا ہے کہ انگلی نہیں اٹھتی تو دارالحکومت کے لاک ڈاؤن کی کال دینا پڑتی ہے، جسے کوئی چودھری نثار ناکام بھی بنا سکتا ہے۔ اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد بھی صحرا نوردی مقدر ٹھہرتی ہے اور یقین نہیں ہوتا کہ وزارت عظمیٰ کا ہما سر پر بیٹھ جائے گا یا بیٹھتے بیٹھتے اڑ جائے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ آدمی پیر صاحب کی بات مان کر ان کے آستانے پر حاضری دے اور جب تیسری بار ان کے دربار سے نکلے تو بنا بنایا وزیراعظم ہو۔ اعجاز قادری صاحب پیر ہیں، وہ مرید بناتے ہیں، شاعر ہوتے اور انکساری شعار کرتے تو کہہ سکتے تھے :
ہم فقیروں سے دوستی کرلو
گر سکھا دیں گے بادشاہی کا
لیکن انہوں نے عمران خان کو دوست بننے کی دعوت نہیں دی، ایسا مرید باصفا بننے کے لئے کہا ہے جو تین بار حاضری دے اور من کی مراد پائے۔
آسان راستہ