فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ سولہویں قسط
صرف دو ایکٹر ایسے تھے جو لکشمی چوک میں گھومتے پھرتے نظر نہیں آئے۔ ان میں ایک سنتوش کمار تھے اور دوسرے سدھیر ورنہ دوسرے اداکار تو فلموں میں کام کرنے کے بعد بھی بے تکلفی سے ان کوچوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ سدھیر نے آغاز ہی سے خود کو الگ تھلگ اور گوشہ نشین رکھا تھا۔ سنتوش کمار میں بھی ایک ارسٹو کریٹ جیسی خصوصیات تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداکاروں کو دیکھنے کا لوگوں کو ہمیشہ اشتیاق رہتا تھا۔ ایک بار لکشمی چوک میں یہ خبر گرم ہوئی کہ سنتوش کمار آئے ہیں اور فلم ساز میاں رفیق کے دفتر میں بیٹھے ہیں۔ یہ خبر منٹوں میں دور دور تک پھیل گئی اور دفتر کے سامنے ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا جو شام تک موجود رہا لیکن یہ خبر غلط تھی۔ سنتوش کمار اس دفتر میںآئے ہی نہ تھے لیکن ان کے پرستار ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے صبح سے شام تک کھڑے رہے۔ سنتوش کے پاس اس زمانے میں کار نہیں تھی۔ کار تو دوسرے فلمی ستاروں کے پاس بھی نہیں تھی یہ لوگ کمپنی کی گاڑیوں میں یا تانگوں میں اسٹوڈیو جایا کرتے تھے۔ وہ بھی عجب زمانہ تھا مفلسی اور بے روزگاری کا زمانہ۔ مگر حوصلے سب کے بلند تھے۔ آج کے بالکل برعکس جب کہ آج پیسے کی ریل پیل ہے۔
فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ پندرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن ہم دفتر گئے تو پتا چلا کہ میر صاحب کئی بار یاد کر چکے ہیں۔
جب ہم میر نور احمد صاحب کے دفتر میں پہنچے تو وہاں مقامی ایجنٹ کے علاوہ ایک دو اور اصحاب بھی موجود تھے۔میر صاحب نے حسب معمول گھنٹی بجا کر چپڑاسی کوطلب کیا اور کہا ’’ بھئی یہ چائے تو زیادہ گرم نہیں تھی‘ خوب گرم چائے لے کر آؤ۔ ‘‘
اس کے بعد وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ ظہور عالم شہید صاحب بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔ تجویز یہ تھی کہ اخبار میں باقاعدگی سے ہر ہفتے فلمی خبریں اور تصویریں شائع کی جائیں۔ ایجنٹ اور سرکولیشن کا خیال تھاکہ اس سے اخبار کی اشاعت میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہماری رائے دریافت کی گئی تو ہم نے بھی اس کے حق میں رائے دی۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ فلمی حصہ مرتب کون کرے گا ؟
ایجنٹ صاحب نے فرمایا ’’ آفاقی صاحب کے سوا کون کر سکتا ہے۔ اللہ کے فضل سے انہیں فلموں کا خوب پتہ ہے‘‘۔
اب سب کی نگاہیں ہماری طرف مرکوز ہو گئیں۔
ہم نے کہا ’’ ہم تو تیار ہیں مگر اس کے لیے ہمیں فلموں والوں سے ملنا بھی پڑے گا اور اسٹوڈیو بھی جانا پڑے گا۔‘‘
مطالبہ معقول تھا اس لیے فوراً تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح ہمارے لیے فلم اسٹوڈیو ز جانے اور فلم والوں سے ملاقات کرنے کا راستہ کھل گیا۔
اسی زمانے میں ہم لکشمی چوک پر فلمی ماہنامہ ’’ فلم لائٹ ‘‘ کے دفتر میں بھی جایا کرتے تھے۔ اس کے مالک اور ایڈیٹر عیسیٰ خان غزنوی تھے۔ یہ پرچہ اس زمانے میں بہت مقبول فلمی میگزین تھا۔ بااثر بھی تھا۔ عیسیٰ خان بذات خود بہت دلچسپ اور رنگین ہستی تھے۔ ان سے ہماری ملاقات لکشمی چوک کے چائے خانوں میں ہوئی تھی اور وہ ہمیں اپنے دفتر لے گئے تھے۔ ’’ فلم لائٹ ‘‘ کے دفتر میں ہم ایکٹروں اور ایکٹریسوں کی آمدورفت دیکھتے رہتے تھے اور یہ بھی کہ وہ اپنے بارے میں مضمون‘ خبر یا تصویر شائع کرانے کے لیے کیا کیا جتن کرتے تھے۔ یہ سب تماشا ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتا رہتا تھا۔
جب ’’ آفاق ‘‘ میں ہر ہفتے فلم کے بارے میں خبریں وغیرہ شائع کرنے کا پروگرام طے ہوا تو ہم نے فوراً لکشمی چوک کا رخ کیا اور عیسیٰ غزنوی کی معلومات سے استفادہ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے ہمیں فلم والوں سے بھی ملوایا‘ فلم اسٹوڈیوز بھی دکھا دیے اور فلمی صنعت کے اسرارورموز بھی بتادیے۔ اس طرح چند ہفتوں کے اندر ہم ایک تجربہ کار اور بارسوخ شخصیت بن گئے۔ تصویریں ہمیں خود اداکاروں اور فلم سازوں نے فراہم کر دی تھیں۔ کچھ بنے بنائے بلاک عیسیٰ غزنوی سے مل گئے تھے۔ خبروں کی بھی کمی نہ تھی۔ مضامین اور انٹرویوز کے بھی ڈھیر لگ گئے تھے۔یہ سب کچھ اتنا زیادہ تھا کہ اس کے لیے دو تین کالم کافی نہ تھے چنانچہ ہم نے شہید صاحب سے مشورہ کیا۔
’’شہید صاحب ہمیں تو فلم کا پورا صفحہ چھاپنا پڑے گا۔‘‘
’’ کیوں ؟ کوئی پابندی ہے ؟‘‘ انہوں نے پوچھا
’’ نہیں بات یہ ہے کہ بہت دلچسپ اور کار آمد میٹر اکٹھا ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’ تو پھر کیا ہوا۔ بس دو تین کالم کافی ہیں۔‘‘
’’ مگر شہید صاحب‘ اس طرح تو مقصد پورا نہیں ہو گا۔ نہ قارئین خوش ہوں گے اور نہ ہی فلمی صنعت کے لوگوں میں ہمارے اخبار کی جگہ بنے گی۔ ‘‘
انہوں نے عینک کے پیچھے سے ہمیں گھورا پھر مسکرائے اور بولے ’’الو کے کان تم ضرور کوئی گڑبڑ کرو گے اور ڈانٹ کھاؤ گے۔ جانتے ہو کہ اوپر والے محدب شیشہ لگا کر دیکھتے ہیں۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’شہید صاحب‘ ایک بار تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ اگر وہ اعتراض کریں گے تو آئندہ احتیاط سے کام لیں گے۔ ‘‘
شہید صاحب نے کہا ’’تم مانو گے تھوڑی۔ اچھا بابا جواب بھی تم خود ہی دینا۔‘‘
شہید صاحب کی طرف سے اجازت ملنے پر ہم نے فلمی صفحے کی تیاری شروع کر دی۔ فلم ہماری دلچسپی اور کمزوری تو ہمیشہ ہی سے رہی تھی مگر پچھلے چند دنوں میں جب فلم والوں سے واسطہ پڑا تو بقول عیسیٰ غزنوی‘ فلمی جراثیم ہم پر پوری طرح حملہ آور ہو گئے۔ ہمارے دل میں پاکستان کی فلمی صنعت کے لئے ایک محبت اور وابستگی پیدا ہو گئی۔ طرح طرح کے مسائل ہمارے سامنے آئے تھے۔ قسم قسم کے لوگوں سے ہماری ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ پاکستان کی فلمی صنعت کن مشکلات سے دو چار ہے اور اسے کس قسم کی امداد کی ضرورت ہے ؟ یہ باتیں بھی ہمارے گوش گزار ہو چکی تھیں۔ پھر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا حب الوطنی کا جذبہ بھی جوش میں آگیا تھا۔ ہم بمبئی کے معیاری فلمی میگزین پڑھنے کے بعد یہ سوچنے لگے تھے کہ آخر ہمارے ملک میں فلمی صنعت اتنی بڑی اور اہم کیوں نہیں ہو سکتی ؟ یہاں اچھی فلمیں کیوں نہیں بن سکتیں ؟ یہاں کے فلم والوں کے پاس دولت کی ریل پیل کیوں نہیں ہو سکتی؟ بھارتی اداکاروں کو چھوڑ کر لوگ پاکستانی فن کاروں کے پرستار کیوں نہیں بن سکتے؟ یہ تو خیر لمبے قصے تھے مگر ہمارے قبضے میں اخباری میڈیا تھا۔ ہمیں یہ احساس ہونے لگا تھا کہ ہم پاکستان کی فلمی صنعت اور فلمی ہستیوں کو اسی انداز میں رنگ آمیزی کے ساتھ لوگوں کے سامنے کیوں نہ پیش کریں کہ پاکستانی قارئین اور فلم بین پاکستانی فلموں کی طرف متوجہ ہوں اور پاکستانی اداکاروں اور ہدایت کاروں کو بھی اہمیت دیں ؟
بظاہر یہ کام بہت مشکل بلکہ نا ممکن نظر آتا تھا۔ بھارتی فلمیں اور فلمی ستارے پاکستانی فلم بینوں کے رگ وپے میں بسے ہوئے تھے۔ ایک دو سال پہلے تک وہی ان کے محبوب تھے اور وہ ان کی ہی فلموں کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ اس لئے بھارتی فلم ستاروں اور فلموں کا سحر سارے ملک پر طاری تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں تو فلمیں ہی برائے نام بنتی تھیں اور وہ بھی انتہائی کم لاگت سے بنائی جاتی ہیں۔ مشہور پرانے اداکار بمبئی چلے گئے تھے جو یہاں رہ گئے تھے۔ وہ گمنام تھے۔ بمبئی سے جو نامور لوگ لاہور آئے تھے وہ ہر قسم کی مشکلات سے دو چار تھے۔ نہ فنکار موجود تھے نہ تکنیک کار نظر آتے تھے اور نہ ہی نگار خانے اور ضرور ساز و سامان تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیسے کی شدید کمی تھی۔ فلم سازی کی سرگرمیوں کا یہ حال تھا کہ جن سرپھروں نے ہمت کر کے فلمیں بنانے کی کوشش کی وہ سر ٹکرا کر رہ گئے۔ 1948ء میںیہاں کی بنی ہوئی صرف چار فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان کے نام یہ تھے تیری یاد‘ ہچکولے‘ شاہدہ اور سچائی۔ تیری یاد کے ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ کاسٹ میں آشا پو سلے‘ ناصر خان (دلیپ کمار کے بھائی ) شعلہ اور غلام محمد شامل تھے۔ بھارت کے دلیپ کمار‘ راج کپور، دیو آنند‘ مدھوبالا‘ نرگس اور مینا کماری کے مقابلے میں ان کی کیا حیثیت تھی؟
’’ہچکولے‘‘ کے ہدایت کار بھی داؤد چاند تھے۔ ماسٹر عنایت حسین نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور بے سروسامانی کے عالم میں اتنی اچھی دھنیں بنائی تھیں کہ اس فلم کے کئی گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ اس فلم میں سدھیر نے کام کیا تھا مگر سدھیر کو اس وقت جانتا کون تھا ؟ بھارت سے آنے والی ہیروئن نجمہ ان کے ساتھ ہیروئن تھیں۔ یہ ہندوستان میں بھی ہیروئن تھیں۔ پاکستان آکر چند فلموں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے ملک باری سے شادی کر لی‘ فلم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ نجمہ بہت حاضر جواب اور ذہین اداکار تھیں۔ بمبئی میں رہ کر سمجھ بوجھ بھی ہو گئی تھی۔ خوب صورت بھی تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار ان سے انٹرویو لیا تو بہت دیر تک ادب پر باتیں کرتیں رہیں۔ سعادت حسن منٹو کی وہ بہت مداح تھیں۔ خود بھی امر تسرکی رہنے والی۔ ہم نے پوچھا ’’منٹو صاحب کی تحریروں میں آپ کو کیا بات پسند آئی ؟‘‘
جواب دیا ’’سچائی اور بے باکی۔ منٹو کی کہانیوں میں امر تسر نظر آتا ہے۔ ‘‘ اور بھی بہت سی دلچسپ باتیں ہوئیں۔
ہم نے پوچھا ’’آپ پاکستان کیوں آگئیں۔ یہاں تو فلمی صنعت ہی نہیں ہے۔ بمبئی میں کھلا میدان تھا۔ ؟‘‘
کہنے لگیں ’’پاکستان میرا اپنا ملک ہے۔ یہاں بھی کھلا میدان ہو جائے گا۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری کو بھی تو یہیں کے لوگوں نے بنایا تھا تو پھر ہم اپنے ملک کی انڈسٹری کو کیوں نہیں بنائیں گے ؟‘‘
نجمہ کے اس جذبے نے ہمارا دل خوش کر دیا۔ ان کا انٹرویو بھی ہمارے فلمی صفحے میں شائع ہوا اور موضوع بحث بنا رہا۔
’’شاہدہ ‘‘ کے ہدایت کار لقمان صاحب تھے۔ اب ان کا انتقال ہو چکا ہے مگر آخر دم تک ان کا یہی دعویٰ تھا کہ ’’شاہدہ ‘‘ پاکستان میں شروع ہونے والی پہلی فلم تھی۔ وہ یہ باور کرانے کے لئے بہت سے کاغذات بھی اپنے ساتھ لئے پھرتے تھے۔ ہماری بعد میں ان سے بہت دوستی ہو گئی تھی جو آخر وقت تک قائم رہی۔
ایک دن ہم نے کہا ’’لقمان صاحب ‘ آپ اس بات پر اتنا جھگڑا کیوں کرتے ہیں، کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘
بولے ’’واہ فرق کیوں نہیں پڑتا ؟ جب پاکستان کی فلمی تاریخ لکھی جائے گی تو میں چاہتا ہوں کہ اس میں یہ درج ہو کہ پاکستان کی پہلی فلم لقمان نے بنائی تھی۔ یار تم نہیں جانتے کہ تاریخ میں نام آنے کا کیا مطلب ہے ؟‘‘
ہم لاجواب ہو گئے۔ وہ بے چارے اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر یہ تنازع آج تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ پاکستان کی پہلی فلم کون سی تھی؟
’’شاہدہ‘‘ میں بھی ناصر خان ہیرو تھے۔ یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ وہ دلیپ کمار کے بھائی تھے اور ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب وہ ان کے مقابلے میں بڑے اداکار سمجھے جاتے تھے حالانکہ دلیپ کے چھوٹے بھائی تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آ گئے تھے اور لکشمی چوک کے ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ ان کا اور دلیپ کمار کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا جیسا کہ سنتوش کمار اور درپن کا تھا۔ درپن چھوٹے بھائی تھے مگر سنتوش سے پہلے پاکستان میں ہیروبن گئے تھے۔ ان کا نام عشرت تھا۔ پاکستان سے شکستہ دل ہو کر بمبئی گئے تو وہاں فلموں میں کام کرنے کے لئے درپن بن گئے اور پھر پاکستان واپس آنے کے بعد بھی درپن ہی رہے۔ وہ بمبئی کیوں گئے تھے‘ وہاں کیا گل کھلاتے رہے او ر واپس کیوں آئے ؟ یہ داستان بھی مناسب وقت پر سنائیں گے۔
عشرت کے ساتھ ہیروئن شمیم تھیں۔ یہ بھی بمبئی سے آئی تھیں۔ وہاں انہوں نے چند فلموں میں کام کیا تھا جن میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ’’سیندور‘‘ تھی۔ شمیم وہاں کی اچھی خاصی ہیروئن تھیں۔ کم از کم منور سلطانہ سے تو بڑی ہیروئن تھیں جو قیام پاکستان کے بعد دلیپ کمار کے ساتھ ہیروئن آئی تھیں۔ شمیم ایک دلکش شخصیت کی مالک تھیں مگر ہماری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی چند فلموں کے بعد ہی انور کمال پاشا صاحب نے ان سے شادی کر لی تھی اور وہ پردہ نشین ہو کر بیٹھ گئی تھیں۔
’’سچائی‘‘ اداکار و ہدایت کار نذیر صاحب کی فلم تھی جس کے موسیقی کار جی اے چشتی تھے۔ بمبئی میں نذیر صاحب لیلیٰ مجنوں‘ وامق عذرا اور یادگار جیسی ہٹ فلمیں بنا چکے تھے۔ غصے کے بہت تیز تھے۔ سارا بمبئی ان کے غصے سے ڈرتا تھا۔ کہ آصف ان کے بھانجے تھے جو آصف دھانسو کے نام سے بمبئی کی فلمی دنیا میں مشہور ہوئے۔ مگر نذیر صاحب اپنے زمانے میں خود بھی بڑے دھانسو تھے۔ بڑے بڑے ان کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ پنجاب سے فلم کے شوق میں جو بھی نوجوان بمبئی جاتا تھا وہ سب سے پہلے نذیر صاحب کے پاس پہنچتا تھا۔ وہ حسب مقدور سب کی مدد کرتے تھے۔ ان کے رہنے سہنے کا بندوبست کر دیتے تھے ار مستحق لوگوں کو کام بھی دلوادیا کرتے تھے۔ یہ سب زور آور پنجابی نذیر صاحب کے جاں نثار اور مداح بن جاتے تھے۔ بمبئی کے پارسی ماحول میں یہ ہتھ چھٹ اور اونچے لمبے نوجوان خوف کی علامت تھے۔ ان ہی کے بل بوتے پر نذیر صاحب بڑے بڑوں کو جھاڑ پلا دیتے تھے۔ ان کی فلمیں بھی کامیاب ہو رہی تھیں۔ ڈرامائی اداکار بھی بہت اچھے تھے۔ اس لئے بڑی اہمیت کے حامل تھے۔
’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ میں نذیر صاحب کی ہیروئن سورن لتا بنیں اور پھر دونوں میں ایسا پیار ہوا کہ سچ مچ دونوں ہیرو ہیروئن بن گئے حالانکہ دونوں شادی شدہ تھے۔ سورن لتا نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی جب کہ نذیر صاحب کی خاندانی اور گھریلو بیوی لاہور میں رہا کرتی تھی۔ ان سے نذیر صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی مگر سورن لتا کے ساتھ گھر بسایا اور نیا خاندان بنایا تو پرانوں سے بے تعلق ہو کر رہ گئے تھے۔ سورن لتا بہت سلیقے اور قرینے کی خاتون تھیں۔ انہوں نے نذیر صاحب کو مکمل طور پر اپنا بنا لیا تھا۔ وہ بنارس کی رہنے والی تھیں۔ ہندوستان کی مقبول ترین فلم ’’رتن‘‘ کی ہیروئن بھی یہی سورن لتا تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اور نذیر صاحب کی دیکھ بھال بہت اچھی طرح کی۔ ایک بار ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے فلموں کے حوالے سے بہت معقول باتیں کیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ کافی عرصے تک نذیر صاحب کی فلموں میں ہیروئن بننے پر اصرار کیا کرتی تھیں۔ پاکستان آنے کے بعد پہلے نذیر صاحب اور سورن لتا نے کئی فلموں میں بطور ہیرو ہیروئن کام کیا۔ بعد میں نذیر صاحب کیریکٹر ایکٹر بن گئے مگر میڈم سورن لتا نوجوانوں کے مقابلے میں بھی ہیروئن بنا کرتی تھیں مگر صرف نذیر صاحب کی فلموں میں۔ باہر کی فلموں میں انہوں نے بہت کم کام کیا مگر بطور ہیروئن نہیں۔
’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ 1945ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم کہلاتی تھی مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کی کافی شوٹنگ لاہور میں بھی کی گئی تھی۔ ملک باری نے فلمی تقسیم کاری کا آغاز لاہور میں نذیر صاحب کی فلم’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ کو ریلیز کر کے ہی کیا تھا بعد میں ’’دامق عذرا‘‘ بھی انہوں نے ہی ریلیز کی تھی۔ وہ ایک غریب گھرانے کے نوجوان تھے۔ اور رشتے میں نذیر صاحب کے بھانجے تھے۔ مگر حسن و جمال میں یکتا۔ نذیر صاحب کی نظر میں آئے تو وہ ملک باری پر مہربان ہو گئے۔ اس مہربانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نذیر صاحب اپنی پہلی بیوی سے جنم لینے والی بیٹی ثریا کی شادی ملک باری سے کرنے کے خواہش مند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی نذیر صاحب کی فلمیں ملک باری ہی ریلیز کرتے رہے اور صحیح معنوں میں ملک باری کو غربت سے نکال کر دولت مندوں کی صف میں شامل کرنے والے نذیر صاحب ہی تھے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ثریا کی شادی ملک باری سے نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے بعد ثریا نے ناصر خان سے شادی کر لی تھی اور بمبئی چلی گئی تھیں لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی تھی۔ ناصر خان نے کچھ عرصے بعد بیگم پارہ سے شادی کر لی تھی جو آج بھی زندہ ہیں اگرچہ ناصر خان کافی عرصے پہلے انتقال کر چکے ہیں۔ بیگم پارہ عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کی سالی بھی ہیں۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)