فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 259

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 259
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 259

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’آدمی‘‘ کی تکمیل کے زمانے میں ہمارے اعتماد میں مزید اضافہ ہو گیا۔ سعادت حسن منٹو اور ڈبلیو زیڈ احمد جیسے ہنرمندوں سے بھی ہم نے سکرپٹ لکھنے کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ حاصل کیا تھا۔ لقمان صاحب کی صحبت میں عملی طور پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور ہم سنجیدگی سے کہانی نویسی کا پیشہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ مگر اخبار کی مصروفیات راہ میں حائل تھیں۔ معمول یہ تھا کہ ہم ’’آفاق‘‘ کے کاموں سے فراغت پا کر سیدھے فلم سٹوڈیو کا رخ کرتے تھے اور رات گئے تک فلمی مصروفیات میں مشغول رہتے تھے۔ ہماری جان پہچان اور بے تکلفی قریب قریب سبھی کے ساتھ ہو چکی تھی اور ہم نے سبھی سے کچھ نہ کچھ فیض بھی حاصل کیا تھا۔ یہ وہ پس منظر تھا جب ہم ’’آفاق‘‘ کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔
ہر ایک نے ہمیں سمجھایا کہ بھائی کیوں بے کار ضد کرتے ہو۔ واپس آ جاؤ مگر ہم نے کافی غوروخوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ صحافت کا میدان اب ہمارے لئے تنگ ہو چکا ہے۔ اس لئے نئی جولان گاہوں کی طرف نکل جانا چاہئیے۔ فلم کا اعزاز ہمیں صحافت کا نعم البدل نظر آیا اور ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب فلمی صنعت میں قسمت آزمائی کریں گے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 258 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فلم کا پیشہ اختیار کرنا بھی اس زمانے میں کچھ آسان نہ تھا۔ فلم سازی بہت ہو رہی تھی۔ سرمائے اور وسائل کی کمی تھی۔ کہانی لکھنے والوں کو بہت کم معاوضے دئیے جاتے تھے بلکہ اکثر و بیشتر تو انہیں سرے سے معاوضہ ہی نہیں دیا جاتا تھا۔ جس فلم ساز کی جتنی توفیق تھی اور داؤ چلتا تھا وہ کہانی نویس کی اتنی ہی رقم ہضم کر لیا تھا اور وہ غریب منہ تکتا رہ جاتا تھا۔ دوسری پرابلم یہ تھی کہ اخبار کی ملازمت میں تو ہمیں ہر ماہ ایک مقررہ رقم مل جاتی تھی۔ کہانی نویس بننے کے بعد ماہ بہ ماہ باقاعدہ آمدنی کا حصول ممکن نہ تھا۔ پھر یہ کہ ہمیں معاوضہ طلب کرنے کی عادت نہ تھی۔ تقاضا تو دور کی بات ہے۔ مگر صحافت چھوڑنے کے بعد فلمی صنعت کے سوا ہمارے پاس سر چھپانے کی کوئی دوسری جگہ نہ تھی۔
ہمارے ’’آفاق‘‘ سے مستعٰفی ہونے کی خبر سب کو معلوم ہو چکی تھی۔ فلم سازوں‘ ہدایتکاروں اور اداکاروں کے ساتھ ہم پہلے بھی گھوما کرتے تھے۔ اب اس کے لئے زیادہ وقت اور فراغت میسر تھی۔ ہمارے صحافی دوست ہمیں جب بھی دیکھتے تھے ہم انہیں کسی کار سے برآمد ہوتے یا اس میں سوار ہوتے ہی نظر آتے تھے۔ یا پھر فلمی نگار خانوں‘ شاندار ریستورانوں اور اعلٰی پیمانے کے ہوٹلوں میں نظر آتے تھے۔ خوش لباسی ہماری عادت تھی اس پر یہ شان و شوکت‘ نتیجہ یہ کہ آغاز میں کچھ دن تو ہمارے صحافی دوست ہم سے اظہار ہمدردی کرتے رہے اور مشورہ دیتے رہے کہ واپس آ جاؤ مگر جب ہمارا ٹھاٹ باٹ دیکھا تو ہم پر رشک کرنے لگے۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہنا شروع کر دیا کہ ’’بھائی آفاقی کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ خوب پیسے کما رہا ہے۔‘‘ جب ان خیالات کا انہوں نے ہمارے سامنے اظہار کیا تو ہمارا یہ ارادہ عزم میں تبدیل ہو گیا کہ اب عزت کا سوال پیدا ہو گیا ہے اور ہمیں چاہئیے کہ فلموں کی دنیا میں قسمت آزمائی کریں۔ لیکن ہزاروں اندیشے ہمیں سہمانے کے لئے آن موجود ہوتے تھے۔ پھر بھی ہم مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس فیصلے پر ڈٹ گئے اور تہیّہ کر لیا کہ چاہے کچھ ہو جائے۔ اب اس وقت تک صحافت کے کوچے کا رخ نہیں کریں گے جب تک فلمی دنیا میں کچھ کر کے نہ دکھا دیں۔
اُدھرمشکل یہ تھی کہ ہم فلم والوں کو اپنی زبان سے یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ ہم نے صحافت ترک کر دی ہے اور آپ لوگ ہمیں کام دیں۔ گویا عجیب بے سروسامانی کا عالم تھا۔ بعض جریدوں میں مضامین لکھ کر جو تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی تھی وہ ہمارے ماہانہ اخراجات کے لئے ناکافی تھی۔ ہر مہینے ہم اماں کو ایک مقررہ رقم گھریلو اخراجات کے لئے باقاعدگی سے دیا کرتے تھے جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن اب ہمیں یہ فکر پڑ گئی کہ اگر معقول اور باقاعدہ آمدنی نہیں ہوئی تو ہم اپنے ذمّے داری کس طرح پوری کریں گے؟ اسی دوران میں ہمیں کراچی اور لاہور کے بعد جرائد میں لکھنے کی پیش کی گئی۔ کچھ رقم ہم نے پس انداز کر رکھی تھی۔ اس طرح ہمیں کم از کم یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ہم دو تین ماہ تک اپنے ذمے داریاں پوری کر سکیں گے۔ مستقبل کے لئے مال و متاع جمع کرنے کا ہمیں کبھی شوق نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی آمدنی ہوتی تھی اسے ہم بے دریغ خرچ کر دیتے تھے اور آئندہ کے لئے یہ سوچتے تھے کہ بھئی ہماری محدود سی تو ضرورتیں ہیں، اﷲ دے گا اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ اﷲ تعالی نے کبھی ہمیں مایوس نہیں کیا اور ہماری مطلوبہ ضروریات پوری ہوتی رہیں اور آج تک ہو رہی ہیں۔
کہانی نویسی کے سلسلے میں ہم کو کن مشکلات اور مسائل سے دوچار ہونا پڑا وہ ایک علیحدہ داستان ہے جس کا بیان پھر کبھی ہو گا۔ قصہ مختصر یہ کہ دو تین سال میں ہم باقاعدہ کہانیاں اور مکالمے لکھنے والوں کی صف میں شامل ہو ئے۔ معاوضہ وصول کرنے اور تقاضا کرنے کا ڈھنگ ہمیں کبھی نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی نویس اور بعد میں فلم ساز کی حیثیت سے بہت سے لوگوں نے حسب استطاعت ہمارے پیسے مار لئے۔ ہم وضع داری نبھاتے رہے اور آج تک نبھا رہے ہیں۔ ان لوگوں سے آج بھی ہمارا میل جول ہے۔ فلمی صنعت میں حالات خاصے دگرگوں تھے۔ فلمیں بننا تو شروع ہو گئی تھیں مگر بہت کم بجٹ میں بنائی جاتی تھیں اس لئے سپر سٹارز کے سوا دوسرے سبھی لوگوں کے معاوضے بہت کم تھے۔ خاص طور پر کہانی نویس کو اس معاملے میں سب سے کم اہمیت دی جاتی تھی۔ آج بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ کہانی نویسوں کے لئے نہ پہلے کبھی معاوضے کا معیار مقرر تھا اور نہ ہی آج ہے۔ ہر کہانی لکھنے والا اپنی قابلیت ،ہمّت اور اہمیت کے لحاظ سے معاوضہ وصول کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فلم ساز گفتگو کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ جی کہانی ہی فلم کی بنیاد ہوتی ہے۔
ہم بہت آہستہ روی سے اس میدان میں گامزن ہوئے تھے لیکن اتنے گرے پڑے بھی نہیں تھے کہ بہت کم معاوضہ قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
معاوضے سے زیادہ ہمیں عزت نفس کا پاس تھا جو خدا کا شکر ہے کہ ہم نے کبھی نہیں گنوائی۔ ہماری لکھی ہوئی بعض فلموں نے اوسط درجے کی کامیابی حاصل کی‘ کچھ ناکام رہیں جس میں سراسر ہمارا ہی قصور نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ فلمی صنعت میں ہمارے متعلق یہ رائے قائم کر لی گئی کہ ہم کامیڈی اور ہلکے پھلکے رومانی سین ہی اچھے لکھتے ہیں جبکہ ڈرامائی مناظر میں اتنے کامیاب نہیں ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہماری فلموں میں تھیٹریکل انداز کے مکالمے لکھنے کا انداز بہت مقبول تھا جن میں نفس مضمون سے زیادہ پُرشوکت الفاظ اور غیر ضروری لفاظی پر زور دیا جاتا تھا۔ سٹیج کا یہ انداز ہمیں پسند نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ مکالمے کہانی کے کردار کے مطابق لکھے جائیں‘ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ ہر کردار خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو‘ ایک ہی جیسی زبان بولتا نظر آئے۔
پاکستانی فلموں میں بھاری بھرکم پُرشوکت و پُرشکوہ مکالمے بہت پسند کئے جاتے تھے۔ انور کمال پاشا اپنے مکالموں کی وجہ سے بے حد مقبول تھے اور ان کی فلموں میں مکالموں پر تماشائی باقاعدہ واہ واہ کرتے یا تالیاں بجا کر داد دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد ریاض شاہد نے الفاظ کی جادوگری دکھائی اور بے حد مقبولیت اور عروج حاصل کیا۔ ریاض شاہد کا انداز تحریر اس قدر مقبول ہو گیا کہ پاکستان کے سبھی لکھنے والوں نے وہی انداز اپنا لیا۔ فلم ساز اور ہدایتکار بھی اسی طرز کے مکالموں کو ترجیح دیا کرتے تھے اور لکھنے والوں سے فرمائش کرتے تھے کہ اسی طرح کے مکالمے لکھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی سے لاہور تک ہر لکھنے والے نے کم و بیش وہی انداز اپنا لیا۔ لیکن ریاض شاہد جیسے پُر معنی اور پُرمغز مکالمے لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ بہرحال سب اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ صرف ڈھاکا کی فلمیں اس سے محفوظ تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ ڈھاکا کے بنگالی فن کاروں کو اردو پر دسترس حاصل نہیں تھی۔ اکثر تو صحیح اردو بول ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ان کے لئے سادہ اور آسان مکالمے لکھنے پڑتے تھے۔ وہاں کے لکھنے والے بھی اعلی تعلیم یافتہ ادیب تھے۔ وہ تھیٹر اور سٹیج سے متاثر نہیں تھے اس لئے ڈھاکا میں تیار ہونے والی فلموں کے مکالموں کا انداز مغربی پاکستان کی فلموں سے یکسر مختلف تھا۔
ہم سے بھی کچھ فلم سازوں نے ریاض شاہد کے انداز میں مکالمے لکھنے کی فرمائش کی لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ کوشش کے باوجود ہم ایسے مکالمے لکھنے سے قاصر رہے۔ ہمارا عام فہم‘ برجستہ اور سادہ انداز بھی لوگوں کو قدرے مختلف لگا تو پسند آنے لگا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب فلم ساز اور ہدایتکار ہمارے پاس یہ فرمائش لے کر آتے تھے کہ فلم کا سکرپٹ آپ لکھ دیجئیے مگر ڈرامائی مکالمے ریاض شاہد سے لکھوائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی۔ ریاض شاہد سے ہماری گہری دوستی تھی۔ ہنسی مذاق بھی تھا۔ ہدایتکار حسن طارق ہم دونوں کے مشترکہ دوست تھے۔ ریاض شاہد سے ان کی دوستی زیادہ پرانی تھی۔ ان کی کچھ فلموں میں ایسا ضرور ہوا کہ کچھ حصّے انہوں نے ہم سے لکھوائے اور کچھ ریاض شاہد سے لکھوائے۔ طارق صاحب کا معاملہ ایسا تھا کہ ان سے نہ تو ہم دونوں لڑ سکتے تھے اور نہ ہی ان کے لئے کام کرنے سے انکار کر سکتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ ہم نے کہانی اور مکالمہ نویس کے طور پر فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنالی اور اپنے روشن مستقبل کے بارے میں کچھ پُرامید نظر آنے لگے۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 260 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں