فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ اڑتالیسویں قسط

فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ اڑتالیسویں قسط
فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ اڑتالیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک رات ہم میکلوڈ روڈ کے چوک پر بس کے انتظار میں ٹہل رہے تھے جس کا وقت گزر چکا تھا۔ مگر کبھی کبھی کوئی بس لیٹ بھی ہو جاتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ایک اور صاحب بھی بس کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ہم دونوں کے سوا سڑک پر کوئی تیسرا فرد بشر نظر نہیں آ رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ ہلکی سی دھند ہو چکی تھی۔ اوور کوٹ اور دوسرے لوازمات کے باوجود ہم سردی میں ٹھٹھر رہے تھے۔ لاہور کی بیشتر آبادی اس وقت تک سو چکی تھی۔ ہم فلم دیکھنے کے چکر میں اپنی آخری بس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بھاگم بھاگ سنیما سے اسٹاپ پر پہنچے تو وہاں ان ایک صاحب کے سوا کوئی دوسرا مسافر نظر نہ آیا جس سے یہ شک گزرا کہ غالباً آخری بس بچے کھچے چند مہم جو مسافروں کو لے کر رخصت ہوچکی ہے۔ مگر ایک امید موہوم کے سہارے ہم اپنے جسم کو گرم رکھنے کے لئے بس کے انتظار میں ٹہلتے رہے۔ سوا دس بج گئے تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اب بس کے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتفاق سے ایک تانگا بھی آگیا اور تانگے والے نے ہمارے پاس رک کر بڑے اخلاق سے دریافت کیا ’’بابو جی‘ کہاں جانا ہے ؟‘‘

فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ سنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے مادل ٹاؤن کا نام لیا تو وہ سوچ میں پڑ گیا پھربولا ’’ میں اچھرہ واپس جا رہا ہوں‘ آپ کہیں تووہاں تک لے چلوں ؟‘‘
ہم نے پوچھا ’’اور وہاں سے آگے ہم کیسے جائیں گے ؟‘‘
وہ سوچ میں پڑ گیا پھر بولا ’’کوئی بات نہیں۔ آپ کو ماڈل ٹاؤن چھوڑ دوں گا مگر کرایہ دو روپے ہو گا۔‘‘
حالات اور وقت کے اعتبار سے اس کا مطالبہ معقول تھا۔ ہم بھی ٹہل ٹہل کر اور منہ سے بھاپ نکال نکال کر تھک گئے تھے۔ اس لئے فوراً ہامی بھر لی اور تانگے میں سوار ہو گئے۔ تانگے والے نے پیار سے گھوڑے کو چمکارا اور چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ اسٹاپ پر موجود صاحب بڑی حسرت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں‘ سوچا انہیں بھی ساتھ بٹھا لیں۔ یہ بھی شاید اسی منزل کے مسافر ہیں۔ تانگے سے اتر کر ان کے پاس گئے۔ اور پوچھا ’’کہاں جائیں گے ؟‘‘
کہا ’’جی مجھے مسلم ٹاؤن جانا ہے۔‘‘
’’ تو پھر آجائیے۔ آپ کو چھوڑ دیں گے۔ ہم ماڈل ٹاؤن جا رہے ہیں۔‘‘
وہ پہلے تو تکلف کرتے رہے مگر پھر ہمارے اصرار پر رضا مند ہو گئے۔ تانگا چل پڑا ہم دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ پھر ہم نے انہیں بتایا کہ ہماری بس کیوں مس ہو گئی۔
وہ مسکرائے اور بولے۔ ’’یورپ میںیہ کہاوت مشہور ہے کہ اگر لڑکی یابس مس ہو جائے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ دوسری آتی ہی ہو گی۔‘‘
ہم نے کہا ’’ٹھیک فرمایا آپ نے مگر یہاں دوسری بس دوسرے دن ہی نظر آتی ہے۔ رہا سوال لڑکی کا تو وہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔‘‘
اس طرح بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ لمبا سفر آرام سے کٹ گیا۔ انہیں ادب اور شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ کئی اشعار انہوں نے سنائے۔ پھر فلموں کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ہم نے ان کا چہرہ کئی بار غور سے دیکھا تھا مگر کوئی شناسائی نظر نہیں آئی تھی۔ وہ نوجوان‘ صحت مند اور خوش شکل آدمی تھے۔ دھیمی آواز میں اور بڑے شائستہ لہجے میں بولتے تھے۔ باتوں باتوں میں تعارف ہوا تو ہم نے اپنا نام بتایا‘ وہ بولے ’’میرا نام علاؤ الدین ہے۔‘‘
علاؤالدین کہتے ہوئے انہوں نے عین کے نیچے زیر لگا دیا کہ یہ پنجاب کا دستور ہے۔
ہم نے کسی تاثر کا اظہار نہیں کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ادا کار ہیں۔ بمبئی میں بھی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔
پوچھنے لگے ’’آپ نے دلیپ کمار اور نرگس کی فلم ’’ میلہ ‘‘ تو دیکھی ہو گی ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جی نہیں ‘‘
’’ اس فلم میں‘ میں نے نرگس کے باپ کا کردار کیا ہے۔‘‘
ہمیں ہنسی آ گئی کہ اتنی کم عمری میں وہ ہیروئن کے والد بزرگوار بن بیٹھے۔
بولے ’’ اچھی فلم تھی۔کردار بھی اچھا تھا اس لیے کر لیا۔ وہاں رہتا تو کافی مواقع تھے مگر میں پاکستان آ گیا۔‘‘
اس وقت تک ہم پاکستان کی فلمی صنعت سے بالکل ناآشنا تھے اس لیے نہ جان سکے کہ مستقل کا ایک عظیم فن کار ہمارا ہم سفر تھا۔
مسلم ٹاؤن کے پل پر پہنچ کر انہوں نے کہا ’’ مجھے یہاں اتار دیجئے۔ آپ کا بہت شکریہ ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے جیب سے چار آنے نکال کر ہمیں پیش کر دیے اور بولے ’’معافی چاہتا ہوں کہ سر دست یہی پیش کر سکتا ہوں۔‘‘
ہم نے کہا ’’ آپ یہ رکھ لیجئے ہمیں تو ماڈل ٹاؤن جانا ہی تھا۔ آپ نہ ہوتے پھر بھی کرایہ تو اد اکرنا ہی پڑتا۔‘‘
وہ بہت اصرار کرتے رہے اور ہم انکار۔آخر انہوں نے مجبور ہو کر چونی واپس جیب میں رکھ لی اور بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
علاؤالدین صاحب سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی مگر افسوس کہ ہم اس وقت تک ان کے نام تک سے واقف نہ تھے۔ بعد میں جب ’’ آفاق ‘‘ میں فلمی صفحہ شروع ہوا تو دوسرے اداکاروں کے ساتھ علاؤالدین سے بھی ملاقات ہونے لگی جو بڑھ کر پر خلوص دوستی کے رشتے میں تبدیل ہو گئی۔علاؤالدین نے بعد میں بہت ترقی کی۔ بہت اچھے دن دیکھے۔ ان کے پاس شاندار اور قیمتی کار بھی تھی۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔شہرت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ فلموں میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہیرو آخر میں کریکٹر ایکٹر بن جاتے ہیں۔ مگر علاؤالدین کے ساتھ بالکل الٹا معاملہ پیش آیا۔ وہ پہلے کریکٹر ایکٹر تھے پھر ویلن بنے اور اس کے بعد ہیرو بن گئے۔ اور تینوں حیثیت میں بہت کامیاب رہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب فلم ساز علاؤالدین کے بغیر فلم بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
علاؤالدین بہت دلچسپ‘ با مروت اور خلیق ہمدرد آدمی تھے۔ ان کے بارے میں واقعات آتے رہیں گے کیونکہ ان کے کے ساتھ ہم نے کافی وقت گزرارا ہے۔ ایک زمانے میں ہفتے میں دو تین بار ان سے شام کو ملاقات ضروری تھی۔ بات یہ تھی کہ مسلم ٹاؤن میں اس زمانے میں فلم والوں کا جمگھٹا تھا۔ سنتوش کمار اور ان کا خاندان۔ علاؤالدین‘ تنویر نقوی۔ لقمان اور بہت سے لوگ وہاں رہتے تھے۔ تنویر نقوی‘ لقمان اور علاؤ الدین کی کوٹھیاں تو بالکل متصل تھیں۔ ہم لقمان صاحب کے ساتھ اکثر ان کے گھر چلے جاتے تھے اور پھر ان تین گھروں میں کسی ایک گھر میں محفل آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسرے لوگ بھی وہیں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ علاؤالدین کھلے دل کے انسان تھے۔ اپنے سارے خاندان کو انہوں نے بہت عیش و آرام سے رکھا۔ والد کے تو وہ تابعدار تھے۔ جو کمایا وہ گھروالوں پر خرچ کر دیا۔ اﷲ نے انہیں پیسہ بھی بہت دیا اور نام بھی۔ لیکن زندگی کے آخری سالوں میں حالات بگڑ گئے تھے۔ اس کا بڑا سبب ان کے نوجوان بیٹے کی اچانک وفات تھی۔ وہ گھر سے کار لے کر شاپنگ کے لئے نکلا اور کچھ دیر بعد اس کی لاش واپس آئی تو علاؤالدین اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھے۔ دراصل کئی بیٹیوں کے بعد بڑی دعاؤں اور نذر نیاز کے بعد اﷲ نے انہیں یہ بیٹا عطا کیا تھا اور اس کی پیدائش پر انہوں نے ایسا جشن منایا تھا کہ ساری فلمی صنعت کو مدعو کر لیا تھا۔ ساری رات خوردونوش کا سلسلہ جاری رہا۔ علاؤ الدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ مگر سترہ اٹھارہ سال کی عمر میںیہ بیٹا اچانک ایک حادثے کی نذر ہو گیا۔ یوں تو سارے خاندان کے لئے یہ صدمہ بہت بڑا تھا مگر علاؤالدین کو اس بیٹے سے عشق تھا۔ اس کی اچانک موت نے انہیں کہیں کانہ رکھا۔ کئی ہفتے تک وہ ساکت و خاموش رہے۔ کوئی اصرار کر کے کھلا دیتا تو کھا لیتے ورنہ بیٹھے آسمان کو تکتے رہتے۔ اتنا دلچسپ‘ شگفتہ اور باتونی انسان بولنا تک بھول گیا تھا۔ کئی ماہ کے بعد وہ رفتہ رفتہ قدرے نارمل ہوئے مگر مسکراہٹ ان کے چہرے پر نہ آتی۔ دوستوں اور مداحوں کے اصرار پر انہوں نے فلم میں کام کرنا شروع کر دیا مگر وہ پہلے والی باغ و بہار شخصیت ناپید ہو چکی تھی۔ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھے رہتے۔ کوئی مخاطب کرتا تو آہ بھر کر جواب دے دیتے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ کئی کئی صفحات پر مشتمل مکالمے ایک ہی وقت میں ادا کر دیا کرتے تھے بعد میں چھوٹے چھوٹے فقرے بھی بھولنے لگے تھے۔ اور جب ری ٹیک ہوتی تو بہت شرمندہ ہوتے تھے۔ بیٹے کی موت کے بعد وہ جیتے جی مرگئے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن سچ مچ مر گئے۔ وہ بہت دلچسپ اور رنگا رنگ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی داستانیں بے شمار ہیں۔ دلچسپ واقعات‘ لطیفے اور اشعار انہیں ازبر تھے۔ سنانے کا انداز بھی بہت دلکش تھا۔ بہت سریلی آواز کے مالک تھے اور بہت اچھا گاتے تھے۔ طبلہ‘ ہار مونیم بھی بہت اچھا بجا لیتے تھے۔ دراصل وہ گھر سے گلوکار بننے کے ارادے سے نکلے تھے مگر تقدیر نے اداکار بنا دیا اور اداکار بھی ایسا کہ جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ابھی تو یہ داستان جاری ہے اور اس میں علاؤ الدین کا تذکرہ بھی بارہا آئے گا۔

جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)