فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 289
شیون صاحب سے بے تکلفی ہوئی تو انہوں نے پرانے زمانے کی کہانیاں بھی سنائیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک عجیب واقعہ بھی سنایا تھا۔ وہ ہمیں پوری طرح تو یاد نہیں ہے مگر جتنا یاد ہے وہ یہ تھا کہ ایک بار ریلوے سٹیشن پر وہ اپنے بیوی بچّوں سے بچھڑ گئے اور کافی عرصے تک کوئی خبر نہ ملی۔ پھر انہوں نے ایک اور شادی کر لی۔ دوسری شادی کے کچھ عرصے بعد انہیں پہلی بیوی کا پتہ نشان بھی مل گیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ہم نے اس کہانی کی تصحیح اور تصدیق کرنے کیلئے کچھ اور لوگوں سے بھی استفسار کیا مگر کوئی نہ بتا سکا۔ یہ کہانی انہوں نے ہمارے دوست اور پارٹنر رشید جاوید صاحب کے دفتر میں ان کی موجودگی میں سنائی تھی۔ اب جاوید صاحب بھی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کے پرانے دوست ناشاد صاحب بھی رخصت ہو چکے ہیں۔ غرضیکہ ان کے ساتھ کا کوئی رفیق و ہم راز باقی نہیں رہا۔ تصدیق کریں تو کس سے؟
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 288
شیون صاحب بذات خود بہت چھوئی موئی سے آدمی تھے۔ انکسار طبعیت میں اتنا تھا کہ خود اپنے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔
ایک دن شیون صاحب ایورنیو سٹوڈیو میں ملے تو فوراً ہاتھ پکڑ کر ہمارے دفتر میں لے گئے۔ انہوں نے یہ خوشخبری سنائی کہ وہ فلم ساز بن گئے ہیں۔ اپنی فلم کی ہدایت کاری بھی خود ہی کریں گے مصنّف اور نغمہ نگار بھی خود ہی ہوں گے۔
’’کیوں حضور۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘ انہوں نے ہم سے پوچھا۔
ہم نے عرض کیا ’’حضور جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟‘‘
’’فرمائے فرمائے‘‘
’’حضور یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے۔ کہانی تو آپ لکھ لیں گے، گانے لکھنا آپ کیلئے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ مگر فلم سازی اور ہدایت کاری بے حد مشکل اور جھگڑے والا کام ہے اور آپ بہت شریف آدمی ہیں۔‘‘
’’بولے ’’کیا آپ شریف نہیں ہیں؟‘‘
ہمار ے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ہیں تو‘‘
بولے ’’آپ بھی تو فلم ساز اور ہدایت کار ہیں‘‘
ہم نے کہا ’’شیون صاحب‘ اب ہم اتنے شریف بھی نہیں ہیں۔ وقت پڑنے پر غصّہ بھی کرلیتے ہیں۔ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ آپ یہ سب کام نہیں کرتے۔ آپ کو تو ہم نے کبھی غصّے میں دیکھا ہی نہیں۔ پھر کیسے کام چلے گا؟‘‘
بولے ’’اللہ مالک ہے‘‘
’’مگر پیسے کہاں سے لائیں گے اور فلم کی ڈسٹری بیوشن کا مسئلہ کیسے حل کریں گے۔‘‘
وہ اپنے منہ کے سامنے مٹھی رکھ کر بولے ’’جگدیش صاحب نے فلم خرید لی ہے۔ وہی قسطوں میں پیسے دیں گے اور وہی تقسیم کار ہوں گے۔‘‘
اب ہم کیا بولتے۔ چُپ ہو رہے مگر دل ہی دل میں دعا کرتے رہے کہ اللہ اس شریف آدمی کی عزّت رکھ لے۔
کسی نے بھی شیون صاحب کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ ایورنیو سٹوڈیو میں اپنی فلم کے سلسلے میں چپ چاپ مصروف رہتے تھے۔ شوٹنگ بھی ہو رہی تھی۔ فلم کا نام انہوں نے اپنے ایک مقبول گانے سے لیا تھا۔ ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ اس فلم کی موسیقی بنانے کے لئے انہوں نے نثار بزمی صاحب کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سنگیتا‘ صاعقہ‘ رنگیلا اور اسلم پرویز اس میں اہم اداکار تھے۔ فلم کی کہانی بھی ہلکی پھلکی سی تھی۔ کامیڈی فلموں کا زمانہ تھا۔ موسیقی بہت اچھی تھی پھر بھی کسی کو شیون رضوی صاحب سے بحیثیت ہدایت کار و مصنّف زیادہ توقعات نہ تھیں۔
فلم ریلیز ہوئی اور ہٹ ہوگئی۔ سب حیران رہ گئے۔ سوائے شیون رضوی صاحب کے۔ انہیں خود پر بلا کا اعتماد تھا۔ اس فلم نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس کے نغمات اور موسیقی بہت عمدہ تھی۔ مہدی حسن کا گایا ہوا ایک گانا تو زبان زد خاص و عام ہوگیا تھا۔
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
خدا جانے اس فلم کی کامیابی سے شیون رضوی صاحب کو کچھ مالی فائدہ بھی حاصل ہوا یا نہیں اس لئے کہ بظاہر ان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ویسا ہی سادہ لباس‘ یعنی کوٹ پتلون‘ پتلون قمیض یا سفید کُرتہ اور چوڑی موری کا پاجامہ‘ ذاتی کار تک نظر نہ آئی۔ مگر اس کامیابی کے بعد شیون صاحب کے بارے میں لوگ سنجیدہ ہوگئے تھے۔ خود شیون صاحب بھی اپنے بارے میں کچھ اور سنجیدہ ہوگئے اور ایک نئی فلم بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
دوسری فلم کا نام بھی انہوں نے شاعرانہ رکھا۔ ’’بات پہنچی تیری جوانی تک‘‘
مگر یہ جوانی شیون صاحب کو راس نہ آئی۔ فلم بنانے کی ترکیب آئی تو فلم فلاپ ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود ایک چکّر میں پڑ گئے۔ تیسری فلم بنانے کیلئے انہوں نے بہت کوشش کی۔ بھاگ دوڑ کی‘ سکیمیں بنائیں۔ اس کا نام تھا’’ نغمات کی رات‘‘ مگر کوئی اس کے بار ے میں سنجیدہ نہ تھا۔ یہ فلم ادھوری ہی رہی مکّمل نہ ہو سکی۔
شیون صاحب کچھ دن تو پریشان اور افسردہ نظر آئے مگر پھر نارمل ہوگئے اور وہی معمولات جاری ہوگئے۔ سٹوڈیو کی سیر‘ دوستوں کے گھروں میں جانے کا دستور‘ دوستوں سے مختلف موضوعات پر گپ شپ اور آئندہ فلم بنانے کے منصوبے‘ فلم سازی اور ہدایت کاری میں وہ اتنے الجھ گئے تھے کہ کئی فلموں کے گیت لکھنے سے معذرت کرلی۔ پھر جب فلمی دنیا پر بُرا وقت آیا تو بے کاری اور بے روزگاری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شیون صاحب بھی اس کی زد میں آگئے مگر ان کے معمول اور رکھ رکھاؤ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ ان کے مالی حالات کے بار ے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ کم از کم ہم تو نہیں جانتے تھے۔
وہ کہاں جاتے ہیں‘ کہاں رہتے ہیں‘ کیسے رہتے ہیں۔ نہ انہوں نے کبھی بتایا نہ ہم نے پوچھا۔ بس ان سے سٹوڈیو‘ دفتروں ریستورانوں اور سڑکوں پر ہی ملاقات ہوا کرتی تھی۔
کچھ عرصے تک شیون صاحب نظر نہیں آئے تو ہمیں کچھ کرید سی ہوئی۔ کچھ لوگوں سے پوچھا مگر کوئی جانتا تو بتاتا۔ وہ ایک پُراسرار قسم کی شخصیت تھے۔ ان کی ذات کے بارے میں حالات پر پردہ ہی پڑا ہوا تھا۔
ایک دن معلوم ہوا کہ شیون صاحب اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد چلے گئے ہیں۔ یہ بیٹا ایک معزز سرکاری افسر تھا۔ اس کے بعد اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ شیون رضوی پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ انتقال کر گئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
وہ جس طرح لاہور میں اچانک‘ چپکے سے نمودار ہوئے تھے‘ اسی طرح ایک دن اچانک‘ چپکے سے غائب ہو گئے۔ ان سے ملاقات بہت زیادہ نہیں رہی مگر پھر بھی اکثر یاد آتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے اہل خاندان اور اولاد سے کسی کا رابطہ نہ تھا۔ انہوں نے اپنا کلام کس حال میں اور کس کے پاس چھوڑا۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ ایک صاحب طرز‘ غزل گو شاعر تھے۔ کم از کم ایک مجموعہ کلام تو ہوتا۔ وہ تو اتنی تیزی سے لکھتے تھے کہ ان کے پاس کلام کی کوئی کمی نہ تھی۔ پھر بھی نہ کوئی مجموعہ‘ نہ کوئی دیوان‘ انہوں نے فلمی نغموں کے سوا کچھ بھی نہیں چھوڑا۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 290 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)