فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 174

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 174
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 174

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس زمانے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تقسیم کار اسماعیل نور صاحب بھی تھے۔ بہت پڑھے لکھے اور ذہین آدمی تھے۔ وہ دراصل اے آر کاردار صاحب کے بہنوئی تھے اور لاہور میں رہتے تھے۔ ہندوستان سے کاردار صاحب کی جو فلمیں پاکستان میں درآمد ہوتی تھیں وہ سب اسماعیل نور صاحب ہی ریلیز کرتے تھے۔ اس ادارے کا نام بھی کاردار پکچرز تھا۔ اسماعیل نور ایک روشن خیال اور فہمیدہ آدمی تھے۔ رکھ رکھاؤ‘ لباس‘ شخصیت ہر اعتبار سے متاثر کن تھے۔ اے آر کاردار کی تمام ہٹ فلمیں ان ہی کے تقسیم کار آفس سے ریلیز ہوتی تھیں اسلئے پیسے کی بھی فراوانی تھی۔ اس وقت ان کا شمار پاکستان کے ممتاز ترین تقسیم کاروں میں ہوتا تھا۔ بیرونی ملکوں کے دوروں پر بھیجے جانے والے فلمی وفود میں وہ لازماً شامل ہوتے تھے۔ کئی بار انہوں نے فلمی وفد کی قیادت بھی کی۔ جب مصنف و ہدایتکار نذیر اجمیری صاحب بمبئی سے پاکستان آئے تو اسماعیل نور صاحب نے ان سے ایک فلم ’’قسمت‘‘ بنوائی تھی جس میں مرکزی کردار صبیحہ‘ سنتوش اور ایم اسماعیل صاحب نے سرانجام دیئے تھے۔ اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔ یہ فلم بہت کامیاب رہی تھی۔ کاردار صاحب کی درآمد شدہ فلموں سے بھی کروڑوں کی آمدنی تھی۔ کاردار صاحب کا پروگرام یہ تھا کہ پاکستان میں جمع شدہ اس پیسے کو یہیں فلم سازی اور دوسرے کاموں پر صرف کریں گے مگر اسماعیل نور صاحب نے انہیں ایک پیسہ بھی نہ دیا جس کی وجہ سے کاردار صاحب کی مالی پریشانیوں میں اور اضافہ ہو گیا۔ کافی عرصہ قبل اسماعیل نور صاحب فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے انتقال کی خبر آئی تو بہت سے نووارد فلم والے تو ان کے نام سے واقف نہ تھے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے سالہا سال پاکستان کی فلمی صنعت اور تجارت پر حکمرانی کی تھی۔ ان کا دفتر بہت شاندار تھا۔ آرام دہ کرسیوں پر مخمل لگی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی خوش پوش اور بہت خوش گفتار آدمی تھے۔ انگریزی بہت اچھی بولتے اور لکھتے تھے اسی لئے فلمی برادری کی نمائندگی میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے کاردار صاحب کی فلموں سے بے شمار دولت کمائی لیکن افسوس کہ وہ کاردار صاحب کے کام نہ آئی۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 173 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اے آر کاردار برصغیر کے نام ور اور بے حد کامیاب فلم ساز و ہدایتکار تھے۔ انہوں نے فلمی زندگی کا آغاز لاہور سے کیا تھا۔ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پہلا فلم سٹوڈیو بھی انہوں نے ہی ایم اسماعیل صاحب کے تعاون سے قائم کیا تھا۔ ایم اسماعیل ان کے بچپن کے دوست اور پینٹر تھے۔ بعد میں بہت اچھے اداکار بھی بنے۔ کاردار صاحب لاہور سے کلکتہ جا کر پنجابی فلمیں بنانے لگے۔ لاہور میں پہلی بولتی ہوئی پنجابی فلم بنانے کا اعزاز بھی کاردار صاحب ہی کو حاصل ہے۔ کلکتہ میں بھی کاردار صاحب کی فلموں کو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ بمبئی چلے گئے جہاں کامیابیاں اور کامرانیاں ان کے قدم چومنے کی منتظر تھیں۔ ایک زمانے میں وہ انڈیا کے عظیم ترین فلم سازوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ وہ فلم ساز و ہدایت کار محبوب خاں کے ہم زلف بھی تھے۔ سردار اختر اور بہار اختر دو بہنیں تھیں۔ سردار اختر نے محبوب صاحب کی فلموں میں ہیروئن کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ بعد میں وہ محبوب صاحب کی بیگم بن گئیں۔ ان کی بہن بہار اختر کی کاردار صاحب سے شادی ہو گئی۔ اس طرح یہ دونوں ہم زلف عرصہ دراز تک بمبئی کی فلمی صنعت کے روح رواں رہے اور ان کی بیگمات نے بھی شہزادیوں جیسی زندگی بسر کی۔ لیکن سردار اختر اور بہار اختر دونوں ہی بے اولاد تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ محبوب صاحب اور کاردار صاحب کی پہلی بیویوں کی اولاد نے ان کی جانشینی سنبھالی۔
اے آر کاردار کی وجہ سے یہ خاندان برّصغیر میں کافی نمایاں ہو گیا تھا۔ کاردار صاحب کے والد لاہور کے رہنے والے تھے اور ان کی تین بیگمات تھیں۔ ایک بیوی کی اولاد میں سے اے آر کاردار کی ایک بیٹی تھیں جو فلم ساز و ہدایت کار اشفاق ملک کی والدہ تھیں۔ اس طرح اشفاق ملک‘ اے آر کاردار کے نواسے تھے۔ دوسری بیگم کی اولاد میں اکرم کاردار تھے۔ جو ان دنوں فلمی حلقوں میں خوب جانے پہچانے جاتے تھے۔ تیسری بیگم کی اولاد میں سے بیٹانصرت کاردار اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک بیٹی سے اسماعیل نور صاحب کی شادی ہوئی تھی۔ اے جے کاردار جنہوں نے ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ بنا کر عالمی شہرت حاصل کی تھی‘ کاردار صاحب کے بھانجے تھے۔ اب یہ خاندان فلمی دنیا سے غائب ہو چکا ہے۔ کسی زمانے میں ہندوستان اور پاکستان میں ان کا طوطی بولتا تھا۔
نصرت کاردار تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ بہت خوش مذاق اور شائستہ آدمی تھے۔ بمبئی گئے تو اے آر کاردار نے انہیں اپنی فلم ’’درد‘‘ میں ہیرو بنایا۔ کاردار صاحب کی اُس زمانے میں سبھی فلمیں ہٹ ہو جاتی تھیں۔ ’’درد‘‘ سپرہٹ فلم تھی مگر نصرت کاردار کو فلم بینوں نے پسند نہیں کیا اور وہ لاہور چلے آئے۔ یہاں آ کر بھی انہوں نے کئی فلموں میں ویلن اور دوسرے سائیڈ کیریکٹر کئے مگر مقبول نہ ہو سکے۔ یوں تو وہ بہت زندہ دل اور باتونی تھے مگر کیمرے کے سامنے پہنچ کر لکڑی کے مجسمے کی طرح بن جاتے تھے۔ یعنی اکڑے ہوئے اور ہر طرح کے تاثر سے عاری۔ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور فلم کرکٹ ٹیم میں انہیں ہمیشہ نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ ہم سے بھی ان کی خاصی یاد اللہ اور بے تکلفی رہی۔ خوش لباس اور خوش بیان تھے۔ جس محفل میں پہنچ جاتے اس میں جان ڈال دیا کرتے تھے مگر افسوس کہ اداکار کے طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں زمانے اور پاکستان کی فلمی صنعت سے بہت شکوہ رہا کہ انہوں نے نصرت کاردار کی قدر نہیں کی۔ ہم سے کہا کرتے تھے کہ آفاقی‘ تم دیکھ لینا۔ اچھا رول مل گیا تو ایک دن میں بہت بڑا ہیرو بن جاؤں گا۔
ہم نے کہا ’’نصرت بھائی۔ وہ دن کب آئے گا۔ جوانی ڈھل چکی‘ ہیرو کیسے بنیں گے؟‘‘
بولے ’’جاہلوں جیسی باتیں مت کرو۔ ہالی وڈ کی فلموں میں نہیں دیکھتے کہ بڑی عمر کے اداکاروں ہی کو فوقیت حاصل ہے۔ وہ پچاس پچپن کی عمر میں بھی مقبول ہیرو ہیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’مگر وہ بڑھاپے میں تو مقبول نہیں ہوئے ہیں۔ وہ تو ابتدا ہی سے مقبول ہیں۔‘‘
ہنس کر کہنے لگے ’’میں ایک نیا ریکارڈ قائم کروں گا۔‘‘
بہت سمجھ دار آدمی تھے مگر اس معاملے میں انہیں واقعی یقین تھا کہ ایک روز وہ بہت مقبول ہیرو بن جائیں گے۔ ان کے بارے میں بھی فلمی دنیا میں ان کے دوستوں نے یہ لطیفہ بنایا تھا کہ نصرت کاردار بھی عجیب ہیں۔ اگر ساکت تصویر بنائی جائے تو حرکت کرنے لگتے ہیں اور مووی فلم کے کیمرے کے سامنے ساکت ہو جاتے ہیں۔
آغا سلیم رضا نے ایک بار ان سے کہا ’’نصرت۔ میری مانو تو تم کیمرے بدل لو۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ مووی کیمرے سے سٹل تصویر بنوایا کرو اور سٹل کیمرے مووی کیلئے استعمال کیا کرو۔‘‘
یوں تو ہمایوں مرزا بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فلم ساز و ہدایت کار تھے۔ انہوں نے آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور پھر شوق انہیں فلمی کوچے میں لے آیا۔ انہوں نے فلم سازی کا آغاز کراچی سے کیا تھا اور ان کی پہلی فلم ’’انتخاب‘‘ تھی۔ اس فلم میں انہوں نے نیّر سلطانہ کو پہلی بار متعارف کرایا تھا۔ یہ ایک بہت بڑے سرمایہ دار ادارے کی فلم تھی۔ حسین بیگ محمد اس وقت کراچی کے عمارتیں تعمیر کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ فہمیدہ اور پڑھے لکھے آدمی تھے مگر فلم سازی میں مار کھا گئے۔ ہمایوں مرزا نے بعد میں اس ناکامی کی تلافی کر دی اور ’’راز‘‘ ’’ڈاکو کی لڑکی‘‘ اور ’’آگ کا دریا‘‘ جیسی عمدہ اور کامیاب فلمیں بنائی تھیں۔
لاہور میں اس زمانے میں بڑے بڑے ہُنرمند‘ فن کار موجود تھے اور ان میں ہر ایک مخصوص خوبیوں کا حامل تھا۔ ایسے ہی ایک بزرگ اختر نواز بھی تھے۔ اختر نواز صاحب کو ہم نے پہلی بار نشاط سینما کے منیجر کی حیثیت میں دیکھا تھا۔ سرخ و سفید رنگت‘ دراز قد‘ متناسب جسم‘ بڑی بڑی آنکھیں۔ ان کے چہرے پر سب سے نمایاں چیز ان کی ناک تھی۔
ہم نے ایک دوست سے تذکرہ کیا تو بولے ’’ہونی بھی چاہئے۔ تم کو معلوم نہیں کہ اختر نواز صاحب بڑی اونچی ناک والے ہیں۔‘‘
بعد میں ان کے بارے میں تفصیلات کا علم ہوا تو اس دوست کے تبصرے کی صداقت پر حرف بحرف ایمان لانا پڑا۔ ایک تو ہوتے ہیں حسّاس لوگ لیکن اختر نواز صاحب حد سے زیادہ حسّاس اور غیرت مند تھے۔ اردو محاورے کے مطابق وہ واقعی ناک پر مکھّی تک نہیں بیٹھنے دیتے تھے حالانکہ کافی بڑی ناک تھی۔ ایک آدھ مکھّی کے بیٹھنے سے کیا فرق پڑ سکتا تھا۔
اختر نواز صاحب خوش لباس اور جامہ زیب آدمی تھے۔ گرمیوں میں ان کا لباس سفید پتلون اور قمیض یا سفید قمیض شلوار تھا۔ سردیوں میں سوٹ بوٹ میں نظر آتے تھے۔ ٹائی بہت کم استعمال کرتے تھے۔ لاہور کے کسی اچھے سینما کا منیجر ہونا اس زمانے میں بڑے افتخار کی بات تھی اور شہر کے بڑے بڑے لوگوں اور اعلیٰ افسروں تک سینما منیجر کی رسائی ہوتی تھی۔ اختر نواز صاحب یوں تو خالص اور ’’انتہائی‘‘ پٹھان آدمی تھے لیکن حسن اخلاق اور آؤ بھگت کے معاملے میں لکھنؤ والے لگتے تھے۔ اردو کھڑی بولتے تھے۔ انگریزی پر انہیں عبور حاصل تھا۔ ہم تو انہیں ایک خوش اخلاق اور خوش پوش سینما منیجر ہی سمجھتے تھے مگر رفتہ رفتہ جب ان کی شخصیت ہم پر کھلی تو ہم ان کے معتقد ہو گئے۔ بعد میں بھی ان سے اکثر واسطہ پڑتا رہا۔ وہ ہمارے گہرے‘ بے تکلف‘ دوست‘ فلم ساز و ہدایت کار ثنا اللہ گنڈا پور کے خُسر بن گئے تھے۔ ثنا اللہ گنڈا پور ابتدا میں ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کے اسسٹنٹ تھے اور وہیں ہماری ان سے یاد اللہ اور پھر دوستی ہوئی تھی۔ وہ بھی خالص پٹھان ہیں۔ اونچے‘ گورے چِٹّے‘ بے تکلف اور پٹھانوں کی طرح مخلص مگر انتہا سے زیادہ حسّاس‘ مکھّی وہ بھی اپنی ناک پر نہیں بیٹھنے دیتے اور اس معاملے میں اپنے خُسر (اب وہ مرحوم ہو چکے ہیں) کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ ثنا اللہ خاں نے فلموں کی ہدایت کاری بھی کی اور پھر نیف ڈیک کا ادارہ وجود میں آیا تو اس سے وابستہ ہو گئے۔ وہ لاہور آفس کے انچارج تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 175 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)