فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 238

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 238
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 238

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حمایت صاحب اپنی علمی و ادبی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ بے نیاز اور قناعت پسند آدمی ہیں۔بس اپنی دنیا میں مگن رہنے کے عادی‘ مگر ایک دن موسیقار خلیل احمد ان کے پاس جا پہنچے۔ حمایت صاحب کی ایک نظم ان کی نگاہ سے گزری تھی۔ وہ کراچی کے ایک فلم ساز فرید صاحب کے لئے فلم ’’آنچل‘‘ کی موسیقی بنا رہے تھے۔ یہ نظم انہیں بہت پسند آئی۔ ڈھونڈتے ہوئے حمایت علی شاعر تک پہنچ گئے اور کہا کہ آپ کی ایک نظم فلم ’’آنچل‘‘ میں استعمال کرنا چاہتا ہوں۔
’’کون سی نظم‘‘
’’تجھ کو معلوم نہیں‘ تجھ کو بھلا کیا معلوم‘‘
’’اوہ۔ مگر آپ کی فلموں میں تو گانوں کی مخصوص سچویشن ہوتی ہے جس پر خصوصی طور پر گانا لکھوایا جاتا ہے‘‘

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 237  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خلیل نے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعض غزلیں اور نظمیں فلموں کی سچویشن کے مطابق ہوتی ہیں تو انہیں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
حمایت صاحب بولے ’’مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے سوائے اس کے کہ فلمی ضرورتوں کے تحت میری نظم کا حلیہ نہ بگاڑا جائے۔‘‘
خلیل ہنسنے لگے۔ کہا ’’آپ آئیے میں اس کی جو طرز بناؤں گا وہ خود بھی سنئے اور پسند کیجئے‘‘
اس طرح حمایت صاحب کا فلمی دنیا سے واسطہ پڑا۔ اتفاق سے ان کا پہلا واسطہ ہی معقول اور پڑھے لکھے لوگوں سے پڑا تھا۔ پھر خلیل نے اس نظم کی جو سادہ مگر پُر اثر دھن بنائی تھی وہ بھی انہیں پسند آگئی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں نظم کو جس فیاضی سے خلیل احمد نے فلموں میں رواج دیا اور حمایت صاحب نے جو خوب صورت نظمیں فلموں کیلئے عطا کیں وہ ایک نئی روایت کی بنیاد بن گیا۔ بھارت میں ساحر لدھیانوی یہی تجربہ کر چکے تھے۔ ان کی بعض مطبوعہ نظمیں بھی بہت اچھے فلمی گانوں میں ڈھل گئیں۔ اسی طرح پاکستان میں خلیل اور حمایت صاحب کی ٹیم نے اس تجربے کو رواج دیا اور بھی شعرا کے مطبوعہ کلام کو فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ سیف الدین سیف‘ قتیل شفائی‘ حبیب جالب‘ منیر نیازی اور فیض صاحب کی نظمیں اور غزلیں نہایت خوب صورتی سے فلموں میں استعمال کی گئیں اور غیر فانی فلمی نغموں کے طور پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ مگر حمایت علی شاعر نے اس کے بعد بھی فلموں کے لئے نظموں ہی کو زیادہ آزمایا۔ انہوں نے فلموں کے لئے نغمات بھی لکھے ادبی اور شاعرانہ کسوٹی پر بھی کھرے اترتے ہیں۔ حمایت کی یہ نظم احمد رشدی نے گائی تھی اور خوب گائی تھی۔ شاید ہم یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ احمد رشدی کو فلمی گلوکار کی حیثیت سے سب سے پہلے خلیل احمد ہی نے دریافت کیا تھا۔ احمد رشدی کا گایا ہوا گانا۔
کھٹّی کڑھی میں مکھّی پڑی
ہائے میری میّا
حمایت علی شاعر ہی کا لکھا ہوا ہے۔ حیدرآباد دکن کا مخصوص کھٹ مٹھا پن اس گانے میں نمایاں ہے۔
فلم ’’آنچل‘‘ نے اوسط درجے کی کامیابی حاصل کی تھی مگر اس نے خلیل احمد اور حمایت علی شاعر کی ٹیم کو جنم دیا اور اس کے بعد بھی یہ دونوں ساتھ کام کرتے رہے۔ اس طرح حمایت صاحب فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے اور لگ بھگ دس سال یہ تعلق نبھایا۔ اس دوران میں انہوں نے گیت بھی لکھے ،فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے فلم سازی بھی کی یہاں تک کہ ہدایت کاری کا مزہ بھی چکھ لیا۔
حمایت علی شاعر کے پہلے ہی نغمے کو اس سال کا بہترین فلمی نغمہ قرار دے کر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نگار ایوارڈ پاکستان کی فلمی دنیا کا ایک معتبر اور معروف ایوارڈ تھا اس گیت کے بول تھے۔
کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
یہ نظم پہلے گلوکار سلیم رضا نے گائی تھی مگر فلم ’’آنچل‘‘ کے لئے احمد رشدی کی آواز میں صدا بندی کی گئی۔ دونوں گلوکاروں نے اپنا اپنا حق ادا کر دیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سلیم رضا اور احمد رشدی جیسی میٹھی اور سریلی آوازیں فلمی دنیا میں بہت کم سننے میں آئی ہیں۔
اس طرح حمایت علی شاعر ’’فلمی‘‘ ہوگئے۔ سنتوش کمار نے اپنی فلم ’’دامن‘‘ کا آغاز کیا تو موسیقار خلیل احمد اور نغمہ نگار حمایت علی شاعر کی ٹیم کو استعمال کیا اور اس فلم کے گانے بھی بہت پسند کئے گئے۔ میڈم نورجہاں کا گایا ہوا گانا۔
نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جا سکو گے
اس سال کا بہترین فلمی نغمہ قرار پایا۔ حمایت علی کو ایک اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں فلموں کی موسیقی خلیل احمد نے مرتب کی تھی اور دونوں ہی مرتبہ وہ خود ایوارڈ سے محروم رہے۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔
حمایت صاحب ’’دامن‘‘ کے گانے لکھنے کے سلسلے میں لاہور آئے تو ہم سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہ بہت باذوق اور دلچسپ انسان ہیں۔ حس مزاح بھی ہے مگر زیادہ تر سنتے ہیں۔ بولنے میں فضول خرچی سے پرہیز کرتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی علمی و ادبی موضوع زیر بحث ہو۔ اس زمانے میں ہم نے ’’کنیز‘‘ کی منصوبہ بندی کی تھی اور خلیل احمد موسیقار تھے۔ پھر حمایت علی شاعر کیوں نہ نغمہ نگار ہوتے؟ حمایت علی شاعر نے جن فلموں کے لئے نغمات لکھے ان میں آنچل‘ کنیز‘ دامن‘ میرے محبوب‘ خاموش رہو اور لوری قابل ذکر ہیں۔ فلم ’’نائلہ‘‘ کے لئے انہوں نے صرف ایک ہی نغمہ تحریر کیا تھا جس کے بول یہ ہیں۔ یہ گانا مسعود رانا اور مالا کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔
کوئی پروانہ ادھر آ ئے تو کچھ بات بنے
اس فلم کے باقی تمام نغمات قتیل شفائی صاحب کے لکھے ہوئے ہیں۔
حمایت علی شاعر کو فلمی دنیا میں شہرت بھی ملی اور عزت بھی۔ معاوضہ بھی معقول تھا۔ لوگ بھی ہم مذاق اور ان کے مطلب کے تھے۔ فلم والوں سے بہت جلد گھل مل گئے۔ اداکار محمدعلی کا اس زمانے میں بہت عروج تھا۔ محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد صاحب حمایت صاحب کے دوست تھے۔ اس حوالے سے محمد علی انہیں بہت تعظیم دیا کرتے تھے۔
فلموں اور فلم والوں سے وہ ایسے شیرو شکر ہوئے کہ فلم سازی پر کمر باندھ لی ’’لوری‘‘ ان کی پہلی فلم تھی جس کے ہدایت کار ایس سلیمان اور مرکزی اداکار محمد علی اور زیبا تھے۔ اس فلم کا سکرپٹ بھی خود ان ہی کا لکھا ہوا تھا اور یہ پاکستان کی معیاری اور کامیاب فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ جب پہلی ہی فلم سے کامیابی اور واہ واہ ملی تو حمایت علی شاعر نے ’’گڑیا‘‘ کا آغاز کر دیا۔ لیکن کوشش اور محنت کے باوجود ان کی یہ فلم مکمل ہو کر ریلیز نہ ہو سکی۔ انہوں نے ’’کہاں ہے منزل تیری‘‘ کے نام سے بھی ایک فلم شروع کی تھی مگر وہ بھی نامکّمل رہی حالانکہ ’’گڑیا‘‘ کے تو ریکارڈ بھی ریلیز کر دئیے گئے تھے اور بہت پسند کئے گئے تھے۔ جب ابتدائی کامیابیوں اور کامرانیوں کا نشہ اترا اور فلمی دنیا کی تلخ حقیقتوں سے پالا پڑا تو حمایت صاحب گھبرا گئے۔ رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ فلمی دنیا ان کی منزل نہیں ہو سکتی۔ اس طرح انہوں نے بوریا بستر سمیٹا اور لاہور سے کراچی روانہ ہوگئے۔ پھر وہی علم و ادب تھا اور حمایت علی شاعر۔ فلم سے کنارہ کش ہوئے تو ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ تدریسی شعبہ بھی اپنا لیا۔ شاعری تو اوڑھنا بچھونا تھا ہی۔ اس طرح فلمی دنیا ایک باصلاحیت‘ ذہین‘ تعلیم یافتہ اور خوبصورت شاعر سے محروم ہوگئی۔ مگر ادب کا دامن بھر گیا۔ ان کے کلام کے مجموعے شائع ہوئے۔ طویل نظموں پر مبنی کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کی کئی نثری کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ منظوم ڈرامے لکھے اور شاعری میں نت نئے تجربے کئے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’آگ میں پھول‘‘ تھا جس پر 1959ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 1984ء میں ان کی ایک اور تصنیف ’’مٹی کا قرض‘‘ پر انہیں رائٹرز گلڈ کا ادبی انعام پیش کیا گیا تھا۔ (جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 239 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں