فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 57

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 57
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 57

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سبطین فضلی صاحب بذات خود بہت خوش اطوار‘ خوش گفتار اور رومان پرست آدمی تھے۔ آزاد خیال بھی تھے۔ اور اپنے خیالات کا بلا جھجک اظہار کر دیتے تھے۔ بہت دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ بڑے اطمینان سے رئیسانہ انداز میں کام کرنے کے عادی تھے۔ جن دنوں ان کی فلم بن رہی ہوتی وہ ہر چیز کو فراموش کر کے باتیں کرنے میں مصروف ہو جاتے۔ باتیں بہت دلکش انداز میں اور آہستہ آہستہ کرتے تھے۔ ہنستے ہوئے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے اور ہنستے اور ٹہلتے ہوئے باتیں شروع کر دیتے۔ اگر کندھے پر انہوں نے ہاتھ رکھ دیا تو سمجھ لیجئے کہ ایک گھنٹے سے پہلے نہ وہ ہاتھ اٹھائیں گے، نہ باتوں کا سلسلہ ختم کریں گے۔ اس زمانے میںیہ منظر عام تھا کہ سیٹ پر شوٹنگ کی تیاری مکمل ہوتی تھی مگر فضلی صاحب باتوں اور گپ شپ میں مصروف رہتے۔ اسسٹنٹ بار بار آکر دبی زبان میں بتاتا ’’سر۔ شاٹ تیار ہے، آرٹسٹ بھی ریڈی ہیں۔‘‘

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فضلی صاحب بڑے اطمینان سے کہتے۔ ’’اچھا اچھا بھئی۔ جلدی کس بات کی ہے۔ شاٹ بھی لے لیں گے۔ ‘‘ مگر سارا وقت نکل جاتا اور شاٹ نہ ہوتا۔ فضلی صاحب مسکرا کر کہتے ’’کوئی بات نہیں کل شاٹ لے لیں گے۔‘‘
یہ رئیسانہ ٹھاٹ باٹ پاکستان کی مختصر سی بے سروسامان فلمی صنعت میں نہیں چل سکتا تھا۔ نہ ہی پاکستان میں بنائی جانے والی فلموں کے طریقہ کار کو سبطین فضلی صاحب اپنا سکتے تھے۔ اس لئے بھی وہ فلم سازی نہ کر سکے۔ نئی نسل کے ہدایت کاروں کو تیزی اور برق رفتاری سے مشکلات کے باوجود کام کرتے ہوئے دیکھتے تو کہتے ’’بھئی آپ لوگ پتا نہیں ایسے حالات میں اتنی اچھی فلمیں کیسے بنا لیتے ہیں؟‘‘
دوسروں کی خوبیوں کی داد دینے میں ذرا بھی نجل سے کام نہیں لیتے تھے۔ ان دنوں محفل آرائیاں بھی خوب ہواکرتی تھی اور بہت رونق رہتی تھی۔
فضلی صاحب نے دوسری فلم سدھیر کے اشتراک سے بنائی تھی۔ اس کا نام ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ تھا اور یہ بھی بہت معیاری فلم تھی اس فلم کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس میں پاکستان کی دو صف اول کی ہیروئنوں نے ایک ساتھ کام کیا تھا۔ صبیحہ خانم اور مسرت نذیر کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی محفل میں ان میں سے ایک موجود ہوتی تو دوسری ہیروئن اس محفل میں قدم نہیں رکھتی تھی مگر سدھیر صاحب نے خدا جانے کیا جادو پڑھ کر پھونکا کہ وہ دونوں ایک ہی فلم میں کام کرنے پر آمادہ ہو گئیں اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسرت نذیر نے اس فلم میں جوانی سے بڑھاپے تک کا کردار کیا تھا حالانکہ وہ اس زمانے میں بہت مقبول ہیروئن تھیں۔ یہ بہت معیاری فلم تھی اور بہت پسند کی گئی تھی۔
فضلی صاحب کی آخری فلم ’’تصویر‘‘ تھی جو کسی اعتبار سے بھی ان کے معیار۔۔۔۔۔۔ کی نہ تھی۔ فضلی صاحب نے اس کے بعد کوئی فلم نہیں بنائی بلکہ دل برداشتہ ہو کر فلم بنانے سے ہی تائب ہو گئے۔ غم روزگار سے آزاد تھے۔ قناعت پسند بھی تھے۔ بس جو بھی اﷲ نے دے رکھا تھا اسی پر مطمئن تھے اور آرام سے زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بہت فن کارانہ مزاج کے مالک تھے۔ اپنی فلموں کا اسکرین پلے بھی خود ہی لکھتے تھے اور اس کام میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ اگر وہ پاکستان میں فلمیں بناتے تو بہت سے نئے ہدایت کار جنم لے سکتے تھے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے‘ شوکت حسین رضوی نے اور ڈبلیو زیڈ احمد جیسے ہنر مندوں نے پاکستان آکر اپنا کام ہی چھوڑ دیا تھا ورنہ یہ لوگ پاکستان کی فلمی صنعت کا حلیہ اور انداز بدل کر رکھ سکتے تھے۔
فضلی صاحب کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ بہت خراب حا لات میں بنی تھی۔ اس وقت تو پاکستان کی فلمی صنعت کے پاس کچھ بھی نہیں تھا مگر فضلی صاحب نے اتنی اعلیٰ معیار کی فلم بنائی کہ بھارت کے فلم سازوں کو بھی حیران اور پریشان کر دیا۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے ہنر مند ہدایت کار تھے۔ اداکاروں سے کام لینے اور مناظر میں جان ڈالنے کا فن جانتے تھے۔
انہوں نے ہیرو کا نام اجے کمار رکھا تو ہم نے ان سے پوچھا۔ ’’فضلی صاحب۔ آپ نے ایک مسلمان کا ہندوانہ نام کیوں رکھ دیا ؟‘‘
وہ کچھ پریشان ہو گئے‘ کہنے لگے۔ ’’بھئی کیا کریں‘ بس ایسا ہی رواج ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’یہ تو بھارت کا رواج ہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔‘‘
ہنس کر کہنے لگے۔ ’’اب تو خیر ہو گیا۔ اگلی بار خیال رکھیں گے۔‘‘
نام رکھنا بھی فلمی دنیا میں بھیڑ چال کے ضمن میں آتا ہے۔ پاکستان بن گیا مگر شاہ زمان نے اپنا نام سدھیر رکھ لیا۔ موسیٰ رضا‘ سنتوش کمار بن گئے۔ عشرت حسین‘ درپن کہلائے۔ حالانکہ یہ سب کٹر پاکستانی تھے مگر بس بھیڑ چال۔
ایک بار ہم نے اسی زمانے میں سنتوش کمار صاحب سے کہا۔ ’’سنتوش صاحب‘ اچھا بھلا نام ’’موسیٰ‘’ چھوڑ کر آپ سنتوش کمار کیوں بن گئے ؟‘‘
بولے۔ ’’مولانا (یہ ان کی عادت تھی ) دراصل بمبئی میں کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے سنتوش کمار نام رکھ دیا۔‘‘
ہم نے کہا ’’تو کیا پاکستان آنے کے بعد نام بدلنے پر پابندی تھی‘ آپ نے ان لوگوں کو ’’وچن‘‘ دے رکھا تھا؟‘‘
ہنسنے لگے۔ بولے ’’یار اب رہنے دو۔ کیوں شرمندہ کرتے ہو۔ اب تو اس نام کو بہت دن ہو گئے ہیں۔ یہی چلنے دو۔‘‘
مگر درپن صاحب نے یہ جرات دکھائی کہ اپنا اصلی نام عشرت اپنایا مگر کچھ عرصے بعد بمبئی سے واپس آئے تو ’’درپن‘‘ بن کر آئے۔ اس زمانے میںیہ تصور عام تھا کہ ہندوانے نام لوگ زیادہ پسند کرتے تھے اور یہ خوش نصیبی لاتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمان ایکٹر اور ایکٹریس مصلحتاً بھی ہندوانے نام رکھا کرتے تھے تاکہ ہندو فلم بین تعصب کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ نہ کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوسف خاں دلیپ کمار بن گئے۔ ممتاز نے مدھوبالا کا نام اختیار کر لیا۔ مختار مینا کماری بن گئیں مگر اسی زمانے میں دلیپ کمار کے بھائی ناصر خاں نے اپنا نام ترک نہیں کیا اور بہت مقبول ہیرو بن گئے۔ پاکستان میں بھی اسلامی ناموں کا رواج عام ہو گیا۔ یوسف خاں‘ کمال‘ حبیب‘ وحید مراد سبھی نے مقبولیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ محمد علی بھی اسٹار بن گئے۔
فضلی صاحب کی ایک عادت نرالی تھی۔ وہ کئی گھنٹے غسل خانے میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا غسل خانہ بھی نہایت صاف شفاف اور آراستہ تھا‘ خوشبوؤں سے مہکتا رہتا تھا۔ اسی جگہ وہ اخبار کا مطالعہ کرتے تھے‘ کتابیں پڑھتے تھے‘ اسکرپٹ پر غور کرتے تھے‘ خط و کتابت کرتے تھے۔ ان کاموں میں وقت تو لگتا ہے۔ فضلی صاحب کا مطالعہ بہت گہرا اور وسیع تھا۔ خوش لباس اور خوش گفتار آدمی تھے۔ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔ 1970ء کی دہائی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ شبنم کے گھر ایک پارٹی تھی۔ لاہور کی فلمی دنیا کے سبھی قابل ذکر لوگ موجود تھے۔ شبنم نے ایک نیا کھیل متعارف کرایا تھا۔ یہ میوزیکل چےئر کی قسم کا تھا۔ میوزک بجائی جاتی تھی اور لوگ خالی کرسیوں کے اردگرد چکر لگانے میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اچانک میوزک بند ہونے پر ہر ایک کو کرسی پر بیٹھنا ہوتا تھا۔ ایک کرسی کم ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص بیٹھنے سے رہ جاتا تھا۔ اس شخص کو سب مل کر سزا سناتے تھے۔ مثلاً یہ کہ گانا سناؤ‘ ناچو‘ بلی یا کتے کی آواز نکالو۔ وغیرہ۔ ایک صاحب کو یہ سزا دی گئی کہ اپنی بیگم کے جوتے اپنے رومال سے صاف کرو۔
ایک مرتبہ فضلی صاحب اس کھیل میں بیٹھنے سے رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ انہیں سزا سنائی جاتی انہوں نے کوٹ کی جیب سے ریشمی رومال نکال کر اپنی بیگم کے جوتے صاف کرنے شروع کر دیے۔ سب کا ہنستے ہنستے براحال ہو گیا۔ فضلی صاحب نے سب کو ہنستے ہوئے دیکھا تو معصومیت سے پوچھنے لگے۔ ’’کیا کوئی غلطی ہو گئی؟ کسی اور کے جوتے صاف کرنے تھے ؟‘‘
فضلی صاحب نے تمام زندگی بڑے عیش اور آسائش سے گزاری مگر آخری ایام میں مالی پریشانیوں کا شکار ہو گئے تھے۔ انہوں نے طویل بیماری بھی اٹھائی۔ یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے۔ ان جیسے خوش لباس اور مجلسی شخص کو ایک بستر پر سفید چادر کے نیچے بے بسی سے لیٹے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔ اسی عالم میں وہ انتقال کر گئے۔ ان کی بیگم ثریا نے ان کی بہت خدمت کی۔ ان کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ چوبیس گھنٹے ان کے لئے خود کو وقف کر لیا تھا۔ حالانکہ دونوں میاں بیوی ماڈرن طرز زندگی کے عادی تھے اور محفلوں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ مگر آخری دنوں میں یہ عالم دیکھا کہ فضلی صاحب۔۔۔۔۔۔ سفید چادر اوڑھے بے حس و حرکت لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی بیگم سادہ لباس میں ان کی خدمت کر رہی ہیں یا نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے میں مصروف ہیں۔
فضلی صاحب میں غرور اور بناوٹ نام کو نہ تھا۔ ہر ایک سے بے تکلفی اور خلوص کے ساتھ میل جول بڑھا لیتے تھے۔
ہمارے زمانے کی فلموں کے مکالمے بڑے جاندار ہوتے تھے۔ یہ فلم بینوں کے قلب و ذہن میں رچ بس جاتے اور زندگی بھر یاد رہتے تھے۔ جب ہم چھوٹے تھے اس وقت بھی فلم دیکھنے والوں کو فلموں کے مکالمے یاد ہو جاتے تھے اور وہ انہیں دہراتے رہتے تھے۔ وہ فلمیں اور مکالمے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں لیکن یہ اسی وقت ہوتا تھا جب مکالمے واقعی جان دار‘ با معنی او ر خوبصورت ہوں۔ ہم نے جب فلم ’’سکندر‘‘ دیکھی تو بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ یہ فلم بھی ہمیں ایک بڑی عمر کے کزن کی سفارش پر دیکھنے کو نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم میں شان و شوکت بہت تھی۔ پرتھوی راج کپور یونانی لباس میں سچ مچ یونانی دیوتا معلوم ہوتا تھا۔ سہراب مودی‘ راجہ پورس کے روپ میں خوب سجے تھے۔ سکندر کی یونانی محبوبہ کا کردار و نما لانے ادا کیا تھا۔ ونمالا کا رنگ گورا‘ بال بھورے اور آنکھیں سبز تھیں۔ یہ فلم بلیک اینڈ وائٹ تھی مگر پھر بھی ونما لا ایک غیر ملکی حسینہ نظر آتی تھیں۔ اس فلم میں جنگ کے مناظر بھی بہت شاندار تھے۔ مگر سب سے بڑی خوبی اس کے مکالمے تھے۔ جب شکست کھانے کے بعد راجہ پورس کو سکندر اعظم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو سکندر دریافت کرتا ہے۔ ’’بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟‘‘
راجہ پورس باوقار انداز میں جواب دیتا ہے۔ ’’جو بادشاہ‘ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘
سکندر اتنا متاثر ہوتا ہے کہ راجہ پورس کو آزاد کر کے اپنے برابر کے تخت پر جگہ دیتا ہے۔
اس زمانے میں بے شمار کامیاب فلموں کے مکالمے فلم بینوں کو از بر ہو جاتے تھے۔ ضیا سرحدی کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ کے یہ مکالمے بچے بچے کی زبان پر تھے۔
’’جس دیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار ؟‘‘
’’دیا نہیں‘ دیے کا تیل جلتا ہے۔‘‘
’’اور جب دیے کا تیل ختم ہو جائے ؟‘‘
’’تو پھر صبح ہوجائے گی۔‘‘
ان مکالموں میں خوشگوار مستقبل کا پیغام ہے۔ آس ہے‘ امید ہے او ر امید پر ہی دنیا قائم ہے۔دراصل پرانے زمانے کی فلموں میں با مقصد کہانی ہو تی تھی۔ سوچنے اور غور کرنے کا مواد بھی ہوتا تھا جو کہ اب نا پید ہے۔ بڑی با مقصد اور خوبصورت فلمیں اس زمانے میں بنائی گئیں اور کامیاب بھی ہوئیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اب زمانہ آگے بڑھ رہا ہے مگر فلموں کا معیار پیچھے جا رہا ہے۔ ورنہ یہی عوام تھے جو بہت اچھی اور فن کارانہ فلموں کو بھی پسندکیا کرتے تھے۔ اچھے مکالموں کی داد دیا کرتے تھے۔ خود ہماری فلموں کے مکالمے لوگ ہمیں سنا دیا کرتے تھے۔
ایک بار میاں جاوید قمر نے ہمیں ایک کہانی لکھنے کے سلسلے میں بلایا۔ میاں جاوید قمر فلم تقسیم کار تھے۔ بعد میں فلم ساز بھی ہو گئے تھے۔ فیصل آباد میں ان کا بابر سینما تھا اور فیکٹریاں بھی تھیں۔ یہ وہی میاں جاوید قمر ہیں جنہوں نے ہدایت کار حسن طارق کی وفات کے بعد اداکارہ رانی سے شادی کر لی تھی مگر یہ شادی زیادہ عرصے قائم نہ رہی۔ رانی بیمار پڑ گئیں اور علاج کے لیے لندن جانے لگیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں پھیپھڑے کا کینسر بتایا تھا۔ اس موقعے پر میاں صاحب نے رانی کے ساتھ جانا تو کجا ان سے رابطہ قائم کرنابھی مناسب نہیں سمجھا۔ رانی کا لندن میں آپریشن ہوا تو ان کے شوہر ان کے ساتھ نہ تھے۔ وہاں اسپتال میں کرکٹر سرفراز نواز نے ان کی بہت خدمت اور دیکھ بھال کی۔ رانی تکلیف دہ وقت میں سرفراز نواز کے اس حسن سلوک سے اتنی متاثر ہوئیں کہ میاں جاوید قمر سے طلاق لینے کے بعد سرفراز نواز سے شادی کر لی۔ اگرچہ اس شادی کا انجام بھی زیادہ خوشگوار نہ تھا۔ یہ داستان رانی کی کہانی کے ساتھ بیان کی جائے گی۔

جاری ہے

قسط نمبر 58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

 (علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)