فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر87

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر87
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر87

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس زمانے میں بھی ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ بہت کمزور ہوگئے تھے۔ شراب کی بوتل ان کی ہر وقت کی ساتھی ہوگئی تھی لیکن ہم نے انہیں کبھی مدہوش یا بہکتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب دیکھا شگفتہ اور تازہ دم ہی دیکھا۔ لیکن اندر ہی اندر انہیں گھن لگ چکا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے حالانکہ مرنے کی عمر نہ تھی۔ بعد میں یہی کہانی ان کے چھوٹے بھائی منور ظریف کے ساتھ بھی دہرائی گئی۔ انہوں نے بھی جوانی میں موت کو گلے لگایا حالات اور واقعات میں تھوڑا سا فرق تھا مگر انجام وہی تھا۔
نادرہ کے تجربے نے کمال کو خاصا تجربہ کار بنادیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی لڑکی یا ہیروئن سے دھوکا نہیں کھایا بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہی تھا ’’مجھے آج تک تم ہی جیسی لڑکی کی تلاش تھی، بولو تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘ ان کا پیٹنٹ فقرہ بلکہ ٹریڈ مارک بن کر رہ گیا۔ عام لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا جن اداکاراؤں سے ان کا واسطہ پڑتا تھا وہ اس سے بخوبی واقف تھیں۔ بہت سی ایکٹریسوں کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ کمال نے یہ فقرہ ان سے محض رواداری میں یا عادتاً بولا تھا۔ کئی خواتین پر اس فقرے نے بہت غضب ڈھایا۔ بعد میں تو بہت کچھ ہوا لیکن ان کے ابتدائی دور کے حالات کا ہمیں بھی علم ہے۔ کمال میں ایک خوبی (یا خامی؟) یہ بھی ہے کہ وہ بہت زیادہ حساس نہیں ہیں اور کسی بات کو دل سے نہیں لگاتے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آگے چل کر ان کی زندگی میں بعض ’’معرکے‘‘ بھی پیش آئے لیکن ابتدائی زندگی میں انہوں نے اس پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔ دوستی اور ہنسی مذاق سبھی سے تھا۔ دل لگی کرتے تھے، دل کی لگی سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھا۔
ایک فلم ریلیز ہونے کے بعد دوسرے فلم سازوں نے بھی ان پر توجہ دی۔ حالات کچھ بہتر ہوئے اور پہچان بھی ہوگئی تو وہ وائی ایم سی اے کو چھوڑ کر ایک اور رہائش گاہ میں منتقل ہوگئے اور خاصے عرصے وہیں قیام کیا۔ مین شاہ جمال روڈ پر اس زمانے میں بھی کوٹھیاں تھیں اگرچہ بہت زیادہ نہیں تھیں۔ یہیں ایک کوٹھی کے ایک حصے میں کمال نے ایک پورشن کرائے پر حاصل کرلیا۔ یہ دو کمرے تھے۔ باورچی خانہ اور باتھ روم بھی تھا ایک ڈریسنگ روم بھی تھا کیونکہ یہ ایک کوٹھی کا حصہ تھا اس لیے اس میں داخل ہونے کا راستہ عقب سے تھا۔ گیٹ کے اندر داخل ہونے کے بعد ایک چھوٹا سا لان تھا۔ پھر ایک پتلا سا برآمدہ سمجھ لیجئے۔ اس کے اندر جانے کے لیے دروازہ تھا۔
کمال کے گھر کے سامنے سڑک کے پار ایک بہت بڑی کشادہ کوٹھی تھی۔ اس میں فلم ساز اور ہدایت کار منور ایچ قاسم صاحب رہا کرتے تھے۔ وہ اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو میں حصہ دار بھی تھے۔ غالباً فلم ڈسٹری بیوشن کے کاروبار میں بھی کسی سے ساجھے داری تھی۔ خوش حال، خوش لباس اور خوش گفتار آدمی تھے۔ لاہور کی فلمی دنیا میں ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا بہت شہرہ تھا۔
وہ عام طور پر شاہ جی کہلاتے تھے کیونکہ سادات سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم نے انہیں چند بار دیکھا ضرور تھا اور سرسری ملاقاتی بھی ہوئی تھی مگر زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی انہیں خلیق اور ملنسار ہی پایا۔ بہت نرمی اور شائستگی سے بات کرتے تھے۔ دراز قد اور اچھے ڈیل ڈول کے شان دار آدمی تھے۔ چہرے کے نقش بھی دلکش تھے مختصر یہ کہ وہ سراپا دلکش اور دلفریب شخصیت کے مالک تھے۔ شاعر تنویر نقوی صاحب جو ہمارے بہت بے تکلف دوست تھے عام طور پر کی قابلیت سے مرعوب یا متاثر نہیں ہوتے تھے مگر منور ایچ قاسم صاحب کے بارے میں وہ بھی اچھے خیالات رکھتے تھے، کہا کرتے تھے کہ اتنے پڑھے لکھے لوگ فلمی دنیا میں بہت کم ہیں مگر فلم بنانا ایک الگ چیز ہے۔ وجہ یہ تھی کہ منور صاحب کبھی کوئی اچھی اور کامیاب فلم نہیں بناسکے حالانکہ فلم کی تربیت انہوں نے بمبئی میں حاصل کی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی فلمی صنعت سے وابستہ رہے۔ ان کی ایک فلم ’’آج کل‘‘ جو غالباً ان کی آخری فلم تھی اس میں ہمارا اور ان کا ساتھ رہا تھا۔
بزرگ کہتے ہیں کہ رشتے تو آسمانوں میں طے ہوتے ہیں۔ آپ لاکھ کوشش کرتے رہیے مگر شادی وہیں ہوگی جہاں قدرت کو منظور ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان اپنے طور پر کوشش نہ کرے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ کمال کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ان کی منور ایچ قاسم صاحب کی صاحبزادی سے منگنی ہوئی تھی کافی عرصے تک یہ منگنی برقرار رہی اور دونوں گھرانے بھی ایک دوسرے کے نزدیک ہوگئے لیکن پھر فلک کج رفتار نے اپنی چال دکھائی اور یہ منگنی ٹوٹ گئی۔ کمال کو اگر غیب ہوتا تو وہ آرام سے بیٹھ جاتے اور وقت آنے پر اپنی موجودہ بیگم کے ساتھ شادی رچا لیتے۔ مگر کسی کو کیا علم تھا کہ کمال کی شادی فلاں وقت فلاں جگہ ہوگی۔ خود کمال بھی اس سے بے خبر تھے۔ چنانچہ منگنی ٹوٹنے کے بعد انہوں نے نئی چراگاہیں تلاش کرنی شروع کردیں۔
کمال کے ساتھ قدرت نے بہت فیاضانہ سلوک کیا تھا۔ اچھا خاندان، اچھی تعلیم، اچھا ماحول، فلموں میں ہیروں کے طور پر داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کامیاب ہیروز کی صف میں شامل ہوگئے۔ صورت شکل، بات چیت کا ڈھنگ، عادات و اطوار سبھی پسندیدہ تھے۔ اس پر شہرت اور کامیابی۔ فلموں میں کامیاب ہوئے تو پیسے بھی کمانے لگے۔ گویا ہر لحاظ سے وہ ایک ایسے کنوارے تھے جس پر ہر کوئی جال پھینکنے کو تیار بیٹھا تھا۔ کمال ایک ہیرو کی حیثیت سے تمام ہتھیاروں سے لیس تھے۔ بلکہ ایک عام پاکستانی ہیرو کے مقابلے میں ان کے پاس خاندانی پسِ منظر اور اعلیٰ تعلیم بھی تھی۔ اس لیے گویا کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔
کمال کے ساتھ ہمارا نو عمری سے ساتھ رہا۔ بعد میں تو اتنا زیادہ ساتھ نہیں رہا لیکن پرانے تعلق اور دوستی کے حوالے سے پیار خلوص اور ہمدردی کا رشتہ ہمیشہ کے لیے قائم ہو گیا۔ ایسے رشتوں میں اکثر ملاقات کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ وقتی ناراضگی اور لڑائی جھگڑے بھی زیادہ دیرپا نہیں ہوتے۔ البتہ دوستی اور تعلق دیرپا اور پائیدار ہوتا ہے۔ ہم نے کمال کو ایک سیدھا سادا اور اچھا انسان پایا۔ عموماً اپنے کام سے کام رکھنے والا، دوسروں سے حسد، غیبت یا سازش ان کے مزاج ہی میں نہیں ہے۔ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، دل میں میل اور کینہ نہیں رکھتے۔ آپ کی کسی بات کا برا نہیں مانیں گے۔ پھر آپ سے بھی یہ توقع کریں گے کہ آپ ان کی کسی بات کا، کسی حرکت کا برا نہ مانیں جو کہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر88 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)