فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 270
باری صاحب نے ہمارا خوب صورت دعوت نامہ دیکھا تو سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے خواجہ پرویز سے کہا ’’یار‘ یہ آفاقی تو بہت غلط آدمی نکلا۔‘‘
خواجہ پرویز نے فوراً مشورہ دیا ’’بس تو پھر اس سے منصب اور خطاب چھین لیا جائے۔‘‘
باری صاحب بولے ’’یہ مذاق کی بات نہیں ہے۔ دیکھو اب اس نے فلم شروع کی ہے تو ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم بنا رہا ہے۔ کتنی غلط حرکت ہے‘‘
خواجہ پرویز نے ہمیں فوراً بتا دیا کہ مہابلی سخت برہم ہیں۔ ایسا نہ ہو فوج کشی کر دیں۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ خود ہی چپکے سے ہاتھ باندھ کر دربار میں حاضر ہو جائیں۔
ہم اسی دن باری صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ان کا رنگ ویسے ہی سرخ و سفید تھا۔ کسی بات پر ناراض ہوتے یا غصہ آتا تو چہرہ لال بھبوکا ہو جاتا تھا۔ وہ اپنا غصہ چھپانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ سب سے پہلے تو ان کا چہرہ اور کان سرخ ہو جاتے تھے۔ بہت ضبط کرتے مگر چپ نہ رہ سکتے تو زبانی اظہار ناراضگی شروع کر دیتے۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ وہ غصے کا اظہار کریں۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 269 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے کہا ’’کیا بات ہے باری صاحب۔ ناراض لگتے ہیں؟‘‘ بس پھر کیا تھا۔ باری صاحب تو ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگے۔
کافی دیر شکوہ شکایت کرتے رہے۔ جب سستانے کے لئے رُکے تو ہم نے کہا ’’باری صاحب۔ یہ تو صرف مہورت ہے۔ جب قلم کی شوٹنگ ہو گی تو وہ ناراض ہونے کا موقع ہو گا۔‘‘
ان کا غصہ ایک دم پچاس فیصد رہ گیا ’’قلم میرے اسٹوڈیو میں ہی بناؤ گے نا؟‘‘
ہم نے کہا ’’دراصل آغا صاحب ہمیں بہت سہولتیں اور مراعات دے رہے ہیں جو آپ اپنے فلم سازوں کو نہیں دیتے۔‘‘
کہنے لگے ’’ادھار اسٹوڈیو دے دوں گا۔ کہو گے تو را میٹریل بھی ادھار دے دوں گا۔‘‘
’’کرائے میں بھی رعایت کر دیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ہاں ہاں‘ کردیں گے۔‘‘
’’اور کمیشن کتنا لیں گے۔ سنا ہے آپ بہت منافع لیتے ہیں۔‘‘
’’وہ بات بھی ہو جائے گی۔‘‘
ہم نے کہا ’’بس تو پھر شوٹنگ شروع کرنے سے پہلے آپ سے بات ہو گی۔ مگر یہ بتائیں کہ مہورت پر تو آئیں گے نا؟‘‘
بولے ’’آجاؤں گا آجاؤں گا۔ اگر تم گھٹیا ہو تو کیا میں بھی گھٹیا بن جاؤں گا۔‘‘
شوکت صاحب کے پاس ہم خود مہورت کارڈ لے کر گئے۔
پوچھا ’’کاہے کا دعوت نامہ ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’شوکت صاحب۔ ہماری فلم کا مہورت ہے۔
ایورنیو اسٹوڈیو میں۔‘‘
’’اچھا اچھا‘ مبارک ہو۔‘‘
’’شوکت صاحب‘ آپ کو ضرور آنا ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں میاں آئیں گے۔ تاریخ کون سی ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’کارڈ پر درج ہے اور ہم ایک دن پہلے آپ کو یاد دہانی بھی کرا دیں گے۔‘‘
شوکت صاحب شکایت کا حرف تک زبان پر نہ لائے۔ ممکن ہے شباب صاحب نے ہماری پوزیشن واضح کر دی ہو۔
مہورت کے دن ہم بہت مصروف رہے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ مہمانوں کی آمد شروع ہوئی تو ہال بھر گیا مگر مہمان تھے کہ اُمڈے چلے آ رہے تھے۔ جسے دیکھئے مبارک باد دینے چلا آ رہا ہے۔ سبھی آئے لیکن اگر نہ آئیں تو زیبا۔ کئی ہیروئنوں نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا ’’آفاقی صاحب۔ کیا آپ کی ہیروئن کراچی گئی ہوئی ہیں؟‘‘
رخسانہ نے کہا ’’آفاقی صاحب۔ ہمیں تو آپ نے فلم میں رکھا ہی نہیں پھر بھی آپ کی خوشی میں شریک ہونے کے لئے آ گئے۔ آپ کی ہیروئن نے تو آپ کو لفٹ ہی نہیں دی۔‘‘
زیبا کی غیر موجودگی کو ہم نے بھی محسوس کیا۔ کم و بیش فلمی صنعت کے سبھی لوگ موجود تھے پھر زیبا کیوں غیر حاضر تھیں؟ ہمیں بہت افسوس ہوا اور غصہ بھی آیا۔
مہورت بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ مٹھائی تقسیم ہوئی۔ طارق صاحب کے اسسٹنٹ نے پھولوں اور ہاروں کا بندوبست کیا تھا۔ ہار پہنائے گئے۔ یہ تو خیر ٹھیک تھا مگر پوز بنا کر تصویریں بنانے کا وقت آیا تو ہمیں بہت پریشانی ہوئی مگر کوئی مفر نہ تھا۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ اس موقعہ پر ہمارے ساتھ یادگار تصویر بنوائے۔ چائے کافی کا دور چلتا رہا جس کے لئے ہم نے خصوصی طور پر اہتمام کیا تھا۔ ہمارے سبھی جاننے والے‘ دوست احباب ‘ شناسا‘ واقف کار موجود تھے اور واقعی بہت خوش تھے۔ وہ ایسا ہی زمانہ تھا۔ لوگ خلوص اور محبت سے ملتے تھے۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔ رات گئے تک یہ ہنگامہ رہا۔ خوب رونق اور چہل پہل تھی۔ یہ ہماری زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ گھر پہنچے تو بہت سے ٹیلی فونی پیغامات ہمارے منتظر تھے۔ حیدر آباد سے شیخ صاحب نے بذریعہ تار مبارک باد کا پیغام ارسال کیا تھا اور ہمیں یاددہانی کرائی تھی کہ اپنا وعدہ نہ بھولیں۔
دوسرے دن ہم نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ہماری کل پونجی میں سے سوا تین ہزار روپے خرچ ہو گئے تھے۔ اس میں گلوکارہ کا معاوضہ‘ سازندوں کا معاوضہ۔ دعوت ناموں اور لفافوں کا خرچہ۔ مٹھائی‘ چائے کافی کے اخراجات اور چھوٹے موٹے لوگوں کو ادائیگی کے اخراجات بھی شامل تھے۔ صرف اسٹوڈیو کا کرایہ ادھار تھا۔ باقی سب نقد ادا کر دیا گیا تھا۔
ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ہم نے اگلے روز پریشان ہو کر طارق صاحب سے کہا ’’طارق صاحب۔ ہمارے سوا تین ہزار روپے خرچ ہو گئے ہیں۔ صرف پونے دو ہزار باقی بچے ہیں۔ کیا اتنے سرمائے سے فلم بن جائے گی؟‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’آفاقی صاحب۔ حوصلہ رکھئے۔ مہورت ہو گیا ہے۔ کراچی سے ڈھاکا تک سب کو خبر لگ گئی ہے۔ ڈسٹری بیوٹر آئیں گے تو سرمایہ بھی آ جائے گا۔‘‘
مگر کوئی ڈسٹری بیوٹر نہ آتا۔ معلومات سب نے حاصل کی تھیں مگر شاید اس انتظار میں تھے کہ فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہو گا تو بات چیت کریں گے۔ مگر شوٹنگ کا آغاز کیسے ہو؟ لاکھ سستا زمانہ سہی مگر پونے دو ہزار روپے سے فلم کی شوٹنگ کیسے ہو سکتی تھی؟
دوسرے دن ہمیں زیبا خانم کا ٹیلی فون موصول ہوا۔ بہت مبارک باد دے رہی تھیں۔ ہم غصے کے مارے صرف ہوں ہاں کرتے رہے۔
’’کیا ہوں ہاں لگا رکھی ہے۔ بولتے کیوں نہیں؟‘‘
’’کیا بولیں‘ ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
’’آفاقی‘ کیا تم ناراض ہو؟‘‘ انہوں نے سادگی سے پوچھا۔
ہمارے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ ’’بھئی آپ کو کیا۔ آپ نے تو مہورت میں آنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں فرمائی۔‘‘
’’آفاقی۔ ایمان سے میں مجبور تھی۔ بتاؤں گی تو شکایت دور ہو جائے گی۔‘‘
ہم نے کہا ’’بھئی آپ بہت بڑی ہیروئن بن گئی ہیں۔ ساری انڈسٹری وہاں موجود تھی اگر نہیں تھی تو ہماری فلم کی ہیروئن۔‘‘
ہم نے کافی دیر تک غصے کا اظہار کیا۔ وہ بہت صبر اور تحمل کے ساتھ سنتی رہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید ہماری دلیلوں سے قائل ہو گئی ہیں مگر آخر میں وہ تنگ آ کر بولں ’’تمہارا تو دماغ ہی خراب ہے۔ کسی دوسرے کی بات ہی نہیں سنتے۔‘‘
ہم نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس کے بعد کچھ اور کہنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔
اگلے روز ہم باری اسٹوڈیوز گئے تو باری صاحب نے ہماری خوب ہُوٹنگ کی۔ انہوں نے دور ہی سے ہمیں دیکھ کر پکارا ’’غریب پروڈیوسر آ گیا۔‘‘
ہم نزدیک جا کر بیٹھ گئے۔
وہ کہنے لگے ’’میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ بھائی فلم بنانا غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بتاؤ کہ تم نے زیبا کو ایڈوانس بھی دیا تھا یا نہیں؟‘‘
ہم نے کہا ’’یہ ہمارے کاروباری راز ہیں۔‘‘
کہنے لگے ’’جو کہ ساری دنیا جانتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے زیبا کو ایک روپیہ بھی ایڈوانس یا سائننگ کا نہیں دیا ہے۔ فلموں میں تعلقات سے کام نہیں چلتا۔ پیسہ چلتا ہے‘ پیسہ!‘‘
ہم خاموش رہے‘ وہ کہنے لگے ’’اچھا۔ تم چائے پی کر اپنا غم غلط کرو۔ ویسے مجھے تم سے بہت ہمدردی ہے۔ سرمنڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔‘‘
ہم نے کہا ’’باری صاحب‘ اور سب تو ٹھیک ہے مگر آپ محاورے کا غلط استعمال نہ کیجئے۔‘‘
’’مجھے محاورے مت سکھاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے اسے ہیروئن بنا کر فلم کا مہورت کیا اور وہ پہلے ہی دن غائب ہو گئی۔ میں نے تو سنا ہے کہ وہ تمہاری فلم میں کام ہی نہیں کرے گی۔‘‘
کہاں تک سنتے آخر ہم بھی بول پڑے ’’نہیں کرے گی تو نہ کرے۔ پاکستان میں اور بھی بہت سی ہیروئنیں موجود ہیں۔‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’یار تو تو گرمی کھا گیا۔ خیر خیر‘ بیٹھ کر ٹھنڈا پیو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے دوست‘ ابھی تو ابتدائے عشق ہے اور تم گھبرا گئے ہو۔‘‘
اس روز ہم رات کو دیر تک سوچتے رہے کہ کہیں فلم ساز بن کر ہم نے غلطی تو نہیں کر دی۔ ظاہر ہے کہ سرمائے کے بغیر فلم نہیں بن سکتی۔ ہم اپنے تعلقات کے بارے میں بلاوجہ خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ لوگ سچ کہتے ہیں کہ فلم اور پولیس والے کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ ابھی تو زیبا کا معاملہ ہے۔ آگے چل کر اور خدا جانے کون کون سے صدمے سہنے پڑیں گے۔
ہم ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک فلم کے سیٹ پر گئے تو وہاں زیبا موجود تھیں۔ ہم نظریں بچا کر گزرنے لگے تو انہوں نے کہا ’’آفاقی۔ کیا تم نے مجھے اپنی فلم میں سے کٹ کر کے دوسری ہیروئن سائن کر لی ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’آپ کو ہم نے اپنی فلم میں سائن ہی کب کیا تھا۔ اگر سائن کیا ہوتا اور پیشگی رقم دی ہوتی تو آپ ہمارے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتیں۔‘‘
’’میں نے کیا سلوک کیا‘ کیا کوئی بیمار نہیں ہوتا؟‘‘
ہم نے کہا ’’اگر ہم نے پیشگی رقم دی ہوتی تو بیمار بھی نہ ہوتیں۔ ہم سب سمجھتے ہیں۔‘‘
’’کیا خاک سمجھتے ہیں؟ آپ تو بے وقوف ہیں اوّل نمبر کے۔سمجھتے ہی نہیں عورتیں بیمار پڑ سکتی ہیں ‘‘ انہوں نے جس انداز میں بات کی دوسرے سب کھکھلا کر ہنس دئیے ،ہمارا منہ سرخ ہوگیا۔
اور سنئے‘ ایک تو ہمیں دکھ پہنچایا اوپر سے بھرے سیٹ پر بے وقوف نمبر اوّل کہہ دیا۔ہم نے بڑی شرمندگی محسوس کی ۔ ہم نے اسی وقت دل میں فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اپنی فلم میں ہرگز نہیں رکھیں گے اور نہ ہی اسکو دوسورں کی فلموں میں کاسٹ ہونے دیں گے،ہمارے اندر کا صحافی بھڑک اٹھا ۔جس نے ہمارا ارادہ سنا وہ الٹا خفا ہوا کہ فلمی دنیا میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔تمہیں زیبا سے کوئی انتقام نہیں لینا چاہئے۔ ایک دوست نے ہمیں سمجھایا کہ کیوں بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہو۔ کیا ہوا۔ اگر زیبا مہورت میں نہیں آئی۔ ہزار کام ہو سکتے ہیں۔ تم نے بلاوجہ یہ بات اپنے اعصاب پر سوار کر لی ہے۔ یار فلم بنانے چلے ہو تو حوصلہ بھی پیدا کرو۔ (جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 271 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں