فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 300
ایک ماہ بعد جب ملکہ انگلستان ڈھاکا کے ائرپورٹ پر ہوائی جہاز سے باہر نکلیں اور سلامی وغیرہ لینے کے بعد گورنمنٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئیں تو یہ دو رویہ سڑک بالکل ناک کی سیدھ میں ہوٹل شاہ باغ اور گورنمنٹ ہاؤس تک جاتی تھی۔ اس کے درمیان والی پٹّی پر گھاس اور پھول اُگے ہوئے تھے۔ کوئی بھی نہیں جان سکتا تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے یہ سڑک کس قسم کی تھی۔ جنرل اعظم نے اس معاملے میں بھی جادو کردکھایا تھا۔
ہم ڈھاکا ائرپورٹ پرہوائی جہاز سے باہر نکلے تو جان میں جان آئی۔ راستے میں ائرپوکٹس کی وجہ سے جہاز خوب اُتھل پُتھل ہوتا رہا تھا۔ ہم ضبط کرکے بہادر بنے بیٹھے رہے مگر اندر ہی اندر ڈر کے مارے بُرا حال تھا۔ ڈھاکا ائرپورٹ پر اُترے تو جان میں جان آئی۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 299 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میڈم نور جہاں اور نیلو کے ڈھاکا پہنچنے کی خبر عام نہیں کی گئی تھی۔ محض مخصوص لوگوں تک ہی محدود تھی۔ سکول کی انتظامیہ اور ایف ڈی سی کے چند اعلیٰ حکّام کے سوا دوسرے اس سے بے خبر ہی تھے۔ مگر خیر الکبیر صاحب کا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوگیا۔ جب ڈھاکا ائرپورٹ پر لوگوں کا ایک ہجوم استقبال کے لیے موجودپایا۔ ان میں فلمی صنعت کے ممتاز لوگ، صحافی، تاجر، صنعتکار اور موسیقی سے تعلق رکھنے والے دوسرے حضرات بھی شامل تھے۔ خیرالکبیر، نذیر احمد اور حمید صاحب اس بے پناہ ہجوم کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ مگر وہاں مجمع کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس بھی موجود تھی۔ ائرپورٹ پر ہوائی جہاز سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلے تو ائرپورٹ کے عملے سے واسطہ پڑا۔ یہ سب خواتین و حضرات اپنے فرائض کو بھول کر فن کاروں کو دیکھنے اور ان سے آٹو گراف حاصل کرنے کے چکر میں لگ گئے۔ آٹو گراف بُک تو بہت کم لوگوں کے پاس تھی۔ کچھ لوگوں نے کپڑوں پر، رومالوں پر، کاغذات پر، نوٹوں پر اور ٹکٹوں پر بھی آٹوگراف حاصل کرلیے۔ جس کے پاس کچھ بھی نہ تھا وہ قلم سنبھالے، ہاتھ پھیلائے سامنے کھڑا تھا کہ میڈم جی۔ میرے ہاتھ پر آٹوگراف دے دیں۔ دیوانگی اور والہانہ پن کا ایک عجیب مظاہرہ تھا۔ پولیس اور سکیورٹی والے بڑی مشکل سے ہم لوگوں کو لیکر ائرپورٹ کے باہر پہنچے جہاں بے شمار کاریں قطار اندر قطار کھڑی ہوئی تھیں۔ ہر کار والا بڑے خلوص اور اعتماد سے دعوت دے رہا تھا کہ اس کار میں بیٹھ جائیے مگر نذیر احمد صاحب بلند آواز میں شور مچاتے پھر رہے تھے کہ کسی کار میں نہ بیٹھنا۔ آپ لوگوں کے لیے کاریں دوسری جانب کھڑی ہیں۔ ہم سب یکجا کھڑے تھے مگر ہجوم کا ایک ریلا آیا اور ہم سب بکھر کررہ گئے۔ زیادہ پریشانی فن کاروں کی طرف سے تھی۔ عباس اجمیری صاحب اپنے بیٹے رتن کمار کی انگلی پکڑے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں صرف رتن کی انگوٹھی رہ گئی۔رتن کمار اپنے سالم ہاتھ اور اپنے پورے جسم سمیت غائب ہوچکا تھا۔ خیرالکبیر صاحب فوراً بھاگے، کچھ کارندے بھی دوڑائے۔ کچھ فاصلے پر ایک کار میں رتن کمار صاحب بڑے مزے سے کار میں ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ انہیں زبردستی کار سے اتارا گیا۔ کار والا کہہ رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ جائیں گے۔ خود ان ہی سے پوچھ لو۔ اُدھر خیرالکبیر صاحب ان کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ رتن کمار کی تلاش میں ہاہا کار مچ گئی تھی مگر بے چارے عباس اجمیری کا کسی کو خیال نہ تھا۔ کافی دیر کے بعد وہ ایک سٹیشن ویگن میں بیٹھے پائے گئے جو مسافروں کو شہر کے ٹرمینل لے جانے پر مامور تھی۔
نورجہاں اور اعجازبہت مضبوطی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی محبت کا اس زمانے میں یہی انداز تھا کہ جہاں کہیں بیٹھتے، ایک دوسرے کے بازو میں بازو ڈال کر یا ہاتھ تھام کر بیٹھتے تھے۔ گھر ہو، سٹوڈیو ہو یا کوئی اور جگہ، ان کا یہ انداز کبھی نہیں بدلتا تھا۔ یار لوگ کہتے تھے ’’میڈم نے مضبوطی سے پکڑرکھا ہے کہ کہیں بھاگ نہ جائے۔‘‘
لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس زمانے میں ان دونوں کی محبت دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈم نور جہاں جب اعجاز کی طرف دیکھتی تھیں تو ان کی آنکھوں سے اُلفت اور پیار اُبلتا ہوا نظر آتا تھا۔ ان کے دیکھنے ہی سے ان کے دلی جذبات کا اظہار ہوجاتا تھا۔ یہ بھی مبالغہ نہیں ہے کہ وقتی طور پر میڈم نور جہاں نے ممکن ہے، زندگی کے مختلف مراحل میں بعض لوگوں کو پسند کیا ہو۔ ان سے محبت بھی کی ہو۔ مگر جہاں تک اعجاز کا تعلق ہے، ہمارے خیال میں انہوں نے اعجاز سے عشق کیا تھا ۔وہ اس کی بات مانتیں اور جس حد تک اس کی خواہشات کا احترام کرتیں، یہ سب اعجاز سے ان کے عشق کا ثبوت تھا۔ غالباً انہوں نے زندگی میں پہلی بار عشق کیا تھا۔ جو اُن کا پہلا اور آخری عشق تھا۔ اس عشق نے انہیں بہت ستایا۔ رسوا کیا۔ اپنے وقار اورآن کو قربان کرنے پر مجبور کیا۔ اس عشق سے پھر انہیں زندگی بھر چھٹکارا نہیں مل سکا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میڈم نور جہاں نے زندگی میں کبھی کسی کی منّت سماجت نہیں کی۔ کسی کی من مانی تسلیم نہیں کی۔ اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات تسلیم نہیں کی بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ اعجاز کے معاملے میں ان کے تمام اصول دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تمام دفاعی حصار ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے۔ انہوں نے ادکارہ فردوس کے ساتھ اعجاز کا کھلے عام رومان دیکھا اور برداشت کیا۔ اعجاز نے ان کی مرضی کے آگے سرجھکانے سے انکار کردیاتھا۔ جب اعجاز نے پنجابی فلم ’ہیررانجھا‘‘ بنائی تو میڈم نور جہاں یہ اعلان کرچکی تھیں کہ وہ کسی ایسی فلم کے لیے گانا نہیں گائیں گی۔ ان کے اس فیصلے سے فلمی دنیا میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ فردوس اس زمانے میں پنجابی فلموں کی چوٹی کی اداکارہ تھیں اور نور جہاں کی آواز کے بغیر کسی پنجابی فلم کی موسیقی مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔
فردوس واحد اداکارہ ہے جس نے نور جہاں کی ناراضگی، قہر، نفرت، بائیکاٹ، سبھی کچھ سہہ لیا اور پھر بھی فلمی دنیا میں چٹان کی طرح اپنے مقام پر جمی رہی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ وہ غضب کی فن کارہ اور پنجابی فلموں کے تماشائیوں کی راج دلاری تھی۔ دوسرا سبب غالباً یہ تھا کہ اسے اس پیار کی جنگ میں اعجاز کی حمایت حاصل تھی جو ہر حالت میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرچکا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو میڈم کے قہر و غضب کا نشانہ بن کر خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا۔ مگر وہ اعجاز تھا۔ جس کے لیے نور جہاں کے دل میں عشق کا گوشہ موجود تھا۔ ساری فلمی تاریخ میں فردوس کی مثال ایک واحد مثال ہے جو نور جہاں کی نفرت اور مخالفت کے باوجود فلموں میں کام کرتی رہی اور مقبول رہی۔ ورنہ بڑے بڑے فنکار، سٹوڈیو اونر اور موسیقار نور جہاں کی خفگی کی نظر دیکھ کر ہی لرز جاتے تھے۔ نور جہاں نے کتنے ہی لوگوں کے مقّدر اور مستقبل کا فیصلہ کردیا تھا مگر فردوس کے آگے نور جہاں نے ہار مان لی۔
نورجہاں اعلان کرچکی تھیں کہ وہ فردوس کے لیے کسی فلم میں اپنی آواز مستعار نہیں دیں گی۔ ’’ہیر رانجھا‘‘ کی ہیروئن فردوس تھی جو نور جہاں کے شوہر اور دلبر اعجاز کے ساتھ ہیروئن کا کردار کررہی تھی۔ اعجاز کو نور جہاں کی ضدّی طبیعت کا علم تھا اس لیے ’’ہیر رانجھا‘‘ کے گانوں کی صدابندی کے لیے مالا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ معاملہ ایسا تھا جس میں اعجاز اور نورجہاں کے قریب ترین دوست احباب بھی مداخلت نہیں کرسکتے تھے۔ یہ ان دونوں کا انتہائی ذاتی اور جذباتی مسئلہ تھا۔ اس لیے کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس موضوع پر نور جہاں سے بات کرتا۔
اعجاز نے مالا کو گلوکاری کے لیے طلب کیا تو وہ غریب کانپ کر رہ گئی۔ سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کون مول لے سکتا ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں رہنے والی کوئی ہستی نور جہاں کے غیظ وغضب کی تاب کہاں لاسکتی تھی۔ مالا نے لرزہ براندام ہوکر معافی چاہی مگر دوسری طرف اعجاز فلم ساز تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خواجہ خورشید انور اس فلم کے موسیقار تھے۔ ان کے بلاوے پر نہ حاضر ہونے کی جرأت اور گستاخی بھلا کون کرسکتا تھا۔ ؟(جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 301 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں