مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر89

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر89
مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر89

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کمال کی زندگی میں سب سے زیادہ عرصے تک قیام کرنے والی ہستی رانی تھیں۔ ان دونوں نے اس بات کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ ابتدائی زمانے میں تو پردہ ڈالتے رہے لیکن بعد میں فلمی صنعت کے لوگوں کو یہی انتظار رہاکہ ان دونوں کی شادی کب ہوگی؟ زبانی طور پر دونوں ہی اس کی تردید کرتے رہے لیکن فلم دنیا میں ایسی تردید ایک بے کار اور بے معنی چیز ہوتی ہے۔ دونوں کے قریبی دوستوں کو اس حقیقت کا علم تھا۔ وہ دونوں فارغ وقت ساتھ ہی گزارتے تھے ایک زمانے میں کمال اور رانی گلبرگ میں ایک دوسرے کے پڑوسی بھی رہے۔ ایک دوسرے کے گھر میں ان کی آزادانہ آمد و رفت تھی۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر88 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کمال کی فلم ’’جوکر‘‘ کئی سال میں مکمل ہوئی تھی۔ سال کے سال اس فلم کی شوٹنگ ہوا کرتی تھی اور کمال کی سالگرہ کے موقع پر تو نہ صرف شوٹنگ ضرور کی جاتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی گرم ہو جاتی تھیں کہ اس موقع پر وہ دونوں شادی کا اعلان کردیں گے لیکن ؂

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہماری کمال اور رانی دونوں سے دوستی اور بے تکلفی تھی اس لیے بلا روک ٹوک دونوں کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس زمانے میں کمال رانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مصروف اور مقبول تھے اور شوٹنگ کے سلسلے میں اکثر لاہور سے باہر جاتے رہتے تھے۔ واپسی پر ان دونوں کی چپقلش ضرور ہوتی تھی۔ ایک ایسی ہی جھڑپ کا حال سنئے۔
ایک بار کمال کراچی سے واپس آئے تو ہم اس شام رانی کی کوٹھی میں موجود تھے کہ کمال بھی ٹہلتے ہوئے آگئے۔ رانی کی کوٹھی ان کی کوٹھی کے عقب میں تھی۔ درمیان میں صرف ایک گلی نما راستہ حائل تھا۔ کمال نے ایک مختصر سی کوٹھی کرائے پر حاصل کرلی تھی اور اسے سلیقے سے سجایا تھا۔ ان دنوں گرد و نواح میں کچھ اور فلم والے بھی رہائش پذیر تھے۔ مثلاً فلم ساز راشد مختار، موسیقار مصلح الدین احمد (گلوکارہ ناہید نیازی سے مصلح الدین کی شادی کے بعد ناہید نیازی اسی کوٹھی میں دلہن بن کر آئی تھیں۔) تھوڑے فاصلے پر لیبارٹری انچارج پیارے خان صاحب کی رہائش تھی۔ ہمیں یہ آسانی تھی کہ جب اس طرف جاتے تھے تو کئی لوگوں سے ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔
ہم رانی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ کمال بھی ٹہلتے ہوئے آگئے مگر بے نیازی کا اندازہ نمایاں تھا۔ کچھ ناراض سے نظر آ رہے تھے۔ رانی انہیں دیکھ کر مسکرائیں۔ ہمارے دریافت کرنے پر بتایا کہ خفا ہیں۔
’’کیا بات ہوگئی؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
رانی نے کہا ’’دیکھئے آفاقی صاحب میں بھی فلموں میں کام کرتی ہوں۔ اکثر اپنی گاڑی استعمال کرتی ہوں لیکن بعض اوقات فلم ساز یا ہدایت کار بھی مجھے ڈراپ کرنے یا لینے آجاتے ہیں۔ بس اس بات پر یہ بگڑے ہوئے ہیں‘‘۔
کمال نے کہا۔ ’’شوٹنگ پر جانا اور بات ہے۔ مگر دوسری تقریبات میں کسی کے ساتھ کیوں جاتی ہو؟‘‘
رانی بولیں۔ ’’اول تو میں زیادہ تر گھر ہی میں رہتی ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں بھی گھر بیٹھے بیٹھے بور ہو جاتی ہوںَ ظاہر ہے کہ میں کسی پارٹی میں یا فلم دیکھنے اکیلی تو نہیں جا سکتی۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے‘‘۔
ہم نے ان کی تائید میں بیان جاری کردیا کہ واقعی نہایت معقول بات ہے۔
کمال بولے ’’ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ گھومنے سے شہرت خراب ہوجاتی ہے۔ آئندہ اگر تمہیں کہیں جانا ہو تو آفاقی کے ساتھ چلی جاؤ‘‘۔
ہم بہتیرا، مگر اگر کرتے رہے مگر یہ فیصلہ ہوگیا کہ کمال کی غیر موجودگی میں رانی ہمارے ساتھ جایا کریں گی۔
چند روز کے بعد رانی کا فون آگیا۔ ’’آفاقی صاحب، ریگل سنیما میں بہت اچھی فلم لگی ہوئی ہے آپ نے دیکھی ہے؟‘‘
’’نہیں۔ مگر سوچ رہے ہیں‘‘۔
’’تو پھر آج رات آخری شو میں چلئے‘‘۔
چھڑے چھانٹ ہونے کی وجہ سے ہم بالکل آزاد تھے۔ فوراً ہامی بھرلی۔ طے یہ پایا کہ پہلے چینی ڈنر کھائیں گے، پھر فلم دیکھیں گے۔
ہم نے سنیما فون کرکے ایک باکس ریزرو کروانے کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ کوئی باکس خالی نہیں ہے۔ مگر مینجر نے مہربانی فرمائی اور پروپرائٹر کا باکس ہمارے نام کردیا۔
سخت سردی کا موسم تھا جب ہم ٹھٹھرتے ہوئے ٹیکسی میں رانی کے گھر پہنچے۔ ان دنوں لاہور میں چینی ریستوران کی بھرمار نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی لوگوں کو یہ کھانا زیادہ پسند تھا۔ بہت کم لوگ ان ریستورانوں میں جاتے تھے۔ جن میں اکثریت فلم سے تعلق رکھنے والوں کی تھی اس لیے ریستورانوں کے مالک اور عملہ ہمیں اچھی طرح پہچانتا تھا۔
پہلے رانی کے گھر چائے پی گئی۔ پھر ان کی کار میں بیٹھ کر چینی ریستوران پہنچے۔ رانی کے سوتیلے والد اور ان کے مینجر حق صاحب ڈرائیونگ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ حق صاحب ایک ناقابلِ فراموش کردار تھے۔ جن کا تذکرہ رانی کے ضمن میں بیان ہوگا۔ یوں تو انہیں کسی چیز کا شوق نہیں تھا مگر رانی کا ہر شوق پورا کرنا وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے تھے۔ انہیں نہ چینی کھانا پسند تھا اور نہ ہی انگریزی فلمیں۔ مگر رانی کی دلجوئی کے خیال سے وہ ہمارے ساتھ تھے۔
ریستوران کا مالک حسبِ معمول ہماری راہ میں آنکھیں بچھا رہا تھا۔ عملہ بھی دوڑ دوڑ کر ہماری فرمائشیں پوری کر رہا تھا۔ ہم دونوں نے اپنی پسندیدہ ڈشز منگائیں۔ بے چارے حق صاحب کا تو وہی معاملہ تھا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ جو چیز رانی کو پسند تھی وہ انہیں بھی پسند تھی۔ ہم دونوں کھاتے رہے، وہ محض چکھتے رہے۔
بل بمشکل اٹھارہ انیس روپے تھا۔ اس زمانے میں ایک پلیٹ ڈیڑھ سے سوا دو روپے تک کی ہوتی تھی۔ گویا گرین ٹی اور بیروں کو ٹپ دینے کے بعد کل رقم بیس بائیس روپے سے زیادہ نہیں بنی۔ ذرا سوچئے۔ وہ بھی کیسا زمانہ تھا!
سنیما میں پہنچے تو بہت بڑا باکس ہمارا منتظر تھا۔
ہم دونوں اگلے صوفے پر بیٹھ ئے جس پر پانچ افراد بڑی آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔ حق صاحب نے پچھلے صوفے پر نشست جمائی۔ جب تک فلم کا آغاز ہوتا ہم دونوں فلموں کی باتیں کرتے رہے۔فلم خاصی دلچسپ تھی لیکن ہوٹنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ جس طرح لوگ پاکستانی فلموں اور ہیروئنوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اس طرح رانی ہالی ووڈ کی ہیروئن کو نشانہ بنا رہی تھیں۔
ہم نے کہا ’’بھئی آپ اس سے اتنی جیلس کیوں ہیں۔ اس کے یہاں آنے اور پاکستانی فلموں میں کام کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘۔
رانی بولیں۔ ’’آفاقی صاحب کچھ پتا نہیں ہے۔ فلم والوں پر برا وقت پڑتا ہے تو وہ سب کچھ کرلیتے ہیں۔ اس کی دو چار فلمیں فلاپ ہوگئیں تو ہوسکتا ہے یہ بھی شباب صاحب کی فلموں میں کام کرنے لاہور آجائے‘‘۔
انٹرول میں ہم نے پلٹ کر دیکھا تو حق صاحب غائب تھے۔
ہم نے حیران ہوکر پوچھا ’’یہ حق صاحب کہاں چلے گئے‘‘۔
رانی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’وہ گاڑی میں جاکر سو گئے ہوں گے‘‘۔
’’مگر گاڑی میں کیوں یہیں سو جاتے‘‘۔
بولیں ’’فلم کی وجہ سے ان کی نیند اور ان کے خراٹوں سے ہماری فلم خراب ہوجاتی، اس لیے وہ گاڑی میں جاکر سو جاتے ہیں‘‘۔
فلم ختم ہوئی تو رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ کڑاکے کی سردی، اس پر لاہور کی بالکل سنسان سڑکیں۔ گاڑی شبنم میں بھیگی ہوئی تھی اور اس کے شیشوں پر کہر اس طرح پڑی ہوئی تھی جیسے کہ برف پڑی ہو۔ ہم نے شیشے پر دستک دی تو حق صاحب کی محتاط آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘
ہم نے شیشے پر سے کہر صاف کی تو انہیں ہمارا چہرہ نظر آیا اور وہ فوراً ہوشیار ہوگئے۔ پہلے انہوں نے ہمیں ماڈل ٹاؤن چھوڑا اور پھر گلبرگ روانہ ہوئے۔ جب تک دوسرے دن رانی کا فون نہیں آگیا۔ہم ان لوگوں کی طرف سے فکر مند رہے۔ جرائم کا اس زمانے میں لاہور میں نام و نشان تک نہ تھا مگر لاہور کی سنسان، کہر زدہ سڑکوں پر آدھی رات کے وقت کار کے ذریعے سفر کرنا بجائے خود ایک تشویشناک بات تھی۔
اس طرح جب کمال لاہور میں موجود نہ ہوتے تو ہم رانی بیگم کو کمپنی دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات ہم کسی مجبوری یا مصروفیت کے باعث عذر کرتے تو وہ ہمیں ٹوک دیا کرتی تھیں۔ ’’آفاقی صاحب! آپ نے کمال صاحب سے وعدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزنی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
اور ہم چپ چاپ سر جھکا دیتے۔(جاری ہے)

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر90 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)