فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 241

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 241
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 241

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم نے دوسرے دن ڈھاکا کے لئے ٹرنک کال ملائی۔ وہاں چند جاننے والوں سے رابطہ قائم کیا اور شبنم کا ٹیلی فون نمبر دریافت کیا۔ ہمارے پرانے کرم فرما اور دوست اے مجید صاحب بھی ان دنوں ڈھاکا میں بزنس کرتے تھے اور عطاء اللہ شاہ ہاشمی صاحب بھی ڈھاکا گئے ہوئے تھے۔ مجید صاحب لاہور پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ شبنم کا فون نمبر دستیاب نہیں ہے۔ وہ مغربی پاکستان کی فلموں میں کام کرنے کے لئے تیار بھی نہیں ہو گی۔ اگر آپ لوگ جانا چاہتے ہیں تو جا کر قسمت آزمائی کر لیجئے ۔ان کا دفتر ڈھاکا کے ایک خوب صورت کاروباری علاقے میں تھا۔ انہوں نے یہ پیشکش کر دی کہ آپ وہاں میرے دفتر میں قیام بھی کر سکتے ہیں۔ مجید صاحب خود بھی جب ڈھاکا جاتے تھے تو اسی دفتر میں قیام کرتے تھے۔
ہم نے طارق صاحب کے ساتھ ڈھاکا جانے کا پروگرام بنا لیا۔ میاں خادم حسین بھی ہمارے ساتھ جانے کے خواہش مند تھے۔ چنانچہ ڈھاکا کے لئے تین فضائی ٹکٹ بک کر لئے گئے اور ایک روز ہم تینوں ڈھاکا روانہ ہو گئے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 240 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم اس سے پہلے بھی ایک بار ڈھاکا جا چکے تھے۔ طارق صاحب کے ساتھ یہ ہمارا دوسرا دورہ تھا۔ پہلی مرتبہ فلم اسٹار کرکٹ میچ کے سلسلے میں ہم مغربی پاکستان کے سب ہی ممتاز فن کاروں کی معیّت میں گروپ منیجر بن کر ڈھاکا گئے تھے۔ پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے صدر عطاء اللہ شاہ ہاشمی صاحب اور سیکرٹری عزیز احمد صاحب ہمراہ تھے۔ عزیز صاحب عمر میں ہم سے بڑے تھے مگر بے حد بے تکلّف دوست تھے ۔ہر ایک سے شفقت کا برتاؤ کرتے تھے اور ہم پر بھی مہربان تھے ۔ان دنوں لاہور اور کراچی میں جتنے بھی قابل ذکر فن کار تھے وہ سب اس کرکٹ میچ میں شریک ہونے کی غرض سے ڈھاکا گئے تھے۔ مشرقی پاکستان سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ڈھاکا اور چٹا گانگ میں یہ فلم اسٹار کرکٹ میچ کھیلے گئے تھے اور بہت کامیاب رہے تھے ۔ ڈھاکا والوں نے مغربی پاکستان کے مقبول فن کاروں کو پہلی بار دیکھا تھا اور ہوائی اڈّے پر مشتاقانِ دید کا اتنا ہجوم تھا کہ عمارت کے شیشے ٹوٹ گئے اور چھت بیٹھ جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ یہ روداد ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔
طارق صاحب نے کافی ہوائی سفر کئے مگر ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے ہمیشہ ڈرتے رہے۔ اداکار نذر اور موسیقار روبن گھوش کی طرح وہ اتنا بھی نہیں ڈرتے تھے کہ ہوش و حواس ہی اڑ جائیں مگر تمام سفر کے دوران میں پریشان رہتے تھے ۔اس کا علاج انہوں نے یہ دریافت کیا تھا کہ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی سونے کا بندوبست کر لیتے تھے۔ اس روز میاں خادم بھی ہمراہ تھے اس لئے ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ وقت گزارنے کے لئے تاش کھیلا جائے۔ ان دونوں نے تاش سنبھالے اور ہم نے میگزینوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ عملے نے چائے کافی سے مدارت شروع کر دی۔ پرواز بہت ہموار تھی اس لئے کچھ دیر بعد ہی ان دونوں کا ڈر دور ہو گیا۔
میاں خادم بولے ’’لوگ خواہ مخواہ ڈرتے ہیں، ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کیا ہو جاتا ہے؟ کچھ بھی تونہیں ہوا، اب خود ہی دیکھ لیجئے۔ کہیں محسوس بھی ہو رہا ہے کہ ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں؟ یوں لگ رہا ہے جیسے گھر میں آرام سے بیٹھے ہیں۔‘‘
طارق صاحب نے کہا ’’میاں، یہ ہوائی جہازہے اس کی چال کبھی بے ڈھنگی بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
وہ بولے ’’ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہوائی جہاز کوئی آفت تو نہیں ہے۔ ساری دنیا ہوائی جہاز میں سفر کرتی ہے کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘
’’اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔‘‘ طارق صاحب نے کہا ’’اب ذرا چال کی طرف دھیان دو۔‘‘
کچھ دیر بعد کھانا آ گیا ۔ابھی ائر ہوسٹس مسافروں کے سامنے کھانا رکھنے میں مصروف ہی تھی کہ ہوائی جہاز میں ہلکی سی لرزش محسوس ہوئی۔
طارق صاحب نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’یہ کیا ہو رہا ہے‘‘؟
میاں بولے ’’طارق صاحب۔ ہوائی جہاز ہے۔ چل رہا ہے۔ کوئی کھڑا ہوا تو نہیں ہے تھوڑی بہت حرکت تو کرے گا۔‘‘
چند لمحے بعد یہ حرکت کچھ زیادہ ہو گئی، ہوائی جہاز نے کانپنا شروع کر دیا اور پھر اوپر نیچے ہونے لگا اب تو میاں خادم بھی گھبرا گئے۔
’’یہ کیا ہونے لگا؟‘‘
دراصل ہوائی جہاز ائر پاکٹ میں آ گیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے جھٹکے بڑھ گئے۔ ہوائی جہاز کبھی نیچے کو جاتا کبھی اوپر کی طرف جاتا۔ یکایک ہوائی جہاز ٹیڑھا ہو گیا سامان اور مسافر سب الٹ پلٹ ہو گئے۔ چیخوں، آہوں، دعاؤں اور قرآن کریم کی آیتوں کی آوازوں سے سارا ہوائی جہاز گونجنے لگا۔ بچّوں نے رونا اور عورتوں نے فریاد کرنا شروع کر دیا۔ سبھی گھبرائے ہوئے تھے ہم بھی خوفزدہ اور سہمے بیٹھے تھے۔
ہماری سامنے والی سیٹ پر ایک موٹے تازے صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔کچھ دیر پہلے ائرہوسٹس ان سے درخواست کر چکی تھی کہ جناب سیٹ بلٹ باندھ لیجئے احتیاطاً مگر انہوں نے کوئی پروا نہ کی۔ وہ چلی گئی تو ہم سے بولے ’’خواہ مخواہ رعب جماتی ہیں۔ سیٹ بیلٹ باندھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے بلاوجہ کی پابندی ہے۔‘‘
ہوائی جہاز نے بمپنگ کا آغاز کیا تو اعلان ہوا کہ اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے اور سگریٹ نوشی بند کردیجئے۔
ہمارے سامنے والے مسافر نے پھر بھی سیٹ بیلٹ باندھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ دراصل بعض لوگوں کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہر اصول، ضابطے اور ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان کی پابندی کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ جب ہوائی جہاز نے دو چار بڑے بڑے غوطے لگائے اور پھر ایک دم الٹ پلٹ ہوا تو یہ صاحب اپنی سیٹ سے نکل کر پہلے تو سیٹوں کے درمیان میں پھنس گئے اور پھر لڑھکتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ ہوائی جہاز میں حشر کا سا سماں تھا۔ اوپر سے کچھ سامان بھی مسافروں پر گرا تھا اور نیچے رکھا ہوا سامان بھی جھٹکوں اور ہچکولوں کی وجہ سے ادھر سے ادھر لڑھکتا پھر رہا تھا۔ سبھی مسافر سہمے ہوئے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے یہاں تک کہ عملے کے ارکان بھی سیٹ بیلٹس باندھ کر بیٹھ گئے تھے۔ اب ان صاحب کو سہارا دیتا تو کون؟ سب چپ چاپ اپنی نشستوں پر بیٹھے ان کے لڑھکنے کا تماشا دیکھتے رہے۔
خود ان کا یہ حال تھا کہ کوشش کے باوجود سنبھل نہیں سکتے تھے۔ ان کے منہ سے کوئی آواز بھی برآمد نہیں ہو رہی تھی۔
کچھ دیر بعد جب ہوائی جہاز قابو میں آیا اور اس کی حرکت میں کمی پیدا ہوئی تو عملے کے ارکان نے بڑھ کر ان صاحب کو اٹھا کر ان کی سیٹ پر بٹھایا۔ ان کی سانس پھولی ہوئی تھی چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جب حالات معمول پر آئے تو انہیں طبّی امداد فراہم کی گئی۔ ویسے تو وہ بھلے چنگے تھے مگر سہمے ہوئے تھے۔ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ ہوائی جہاز کے سفر کے دوران میں سیٹ بیلٹ باندھنا کیوں ضروری ہے۔
طارق صاحب اور میاں خادم کا بھی بُرا حال تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بیٹھے تھے ۔ہم نے اپنی سیٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔ اس مختصر سے عرصے میں مسافروں پر کیا بیت گئی یہ وہی جانتے ہیں۔
میاں خادم بولے ’’ میں تو اب کبھی ہوائی جہاز میں نہیں بیٹھوں گا، اسی طرح تو ہوائی جہاز گر جاتے ہیں۔‘‘
’’پھر واپس کیسے جائیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’یا وہیں آباد ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘
کہنے لگے ’’ٹرین کے راستے واپس جاؤں گا، ورنہ آپ ڈھاکا میں پہنچتے ہی پانی کے جہاز سے میری سیٹ بک کرادیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’میاں ہوائی جہاز کی گڑ بڑ تو کچھ دیر ہی رہتی ہے لیکن بحری جہاز میں کئی دن تک مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے سوچ لو۔‘‘
انہوں نے سوچا اور اپنا ارادہ بدل دیا۔
ڈھاکا ائرپورٹ سے ٹیکسی میں سوار ہوئے اور مجید صاحب کے دفتر پہنچ گئے۔ یہ کئی منزلہ عمارت تھی جس کی چھت پر چند کمرے بنے ہوئے تھے باقی صحن خالی تھا۔ مجید صاحب کے بنگالی ملازم نے ہمارا خیر مقدم کیا ۔وہ کافی اچھی اردو بولتا تھا۔ موٹے موٹے کتابی الفاظ استعمال کرنے کا بہت زیادہ شوقین تھا۔ مثلاً اس نے چائے پیش کرتے ہوئے ہم سے کہا ’’ آپ نے امیر خانے پہ قدم رنجہ کیا۔ آپ کا بڑا مہربانی ہے صاحب! ‘‘ اس سے آپ اس کی مہارت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ڈھاکا میں چند بنگالی کرم فرما تھے مگر ہر ایک کو اس معاملے میں ملّوث نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے ایک نہایت معتمد دوست کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہ بنگلہ اخبار میں صحافی تھے اور فلمی دنیا سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔
’’آپ کیسے آیا لوگ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے انہیں صورت حال بتائی۔ وہ پہلے ایک بار لاہور اور کراچی کا دورہ کر چکے تھے اور اسی زمانے میں ہماری ان سے شناسائی ہوئی تھی۔
انہوں نے ہماری ساری کتھا سنی پھر جواب میں کہا ’’ ہم آپ کو ادھر سوبنم کے پاس برابر لے جائے گا ،وہ کیا بولے گا یہ آپ کا قسمت!‘‘
اس طرح انہوں نے خود کو بری الذّمہ کر لیا اور ساری ذُمّہ داری ہماری قسمت پر تھوپ دی۔ وہ چائے پینے کے بعد رُخصت ہو گئے۔ کافی دیر کے بعد ان کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ سوبنم سے ان کی بات ہو گئی ہے وہ بالکل ’’ایگری‘‘ نہیں ہے مگر شام کو آپ میرے ساتھ اُدھر چلیں گا۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 242 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں