فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 181
وہ بالکل نئے اداکار تھے اور نئے اداکاروں کے ساتھ فلمی دنیا کافی بے اعتنائی برتتی ہے۔ مگر ہم نے ہر موقع پر ان کا ساتھ دیا تھا۔ پھروہ کامیاب ہیرو بن گئے اور اس کے بعد فلم ساز۔ وہ بہت بااخلاق آدمی ہیں۔ باتیں بھی بہت میٹھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو کمال نے کیا تھا۔ بولے ’’آفاقی صاحب۔ آپ سے میں کاروبار تو نہیں کروں گا۔ آپ جو مناسب سمجھیں دے دیجئے گا۔‘‘
’’پھر بھی۔ رقم کا فیصلہ ہو جائے تو بہتر ہے۔‘‘
وہ ہنسنے لگے’’جلدی کیا ہے۔ جب فلم شروع ہوگی تو وہ بھی ہو جائے گا۔ مگر آپ اسے مسئلہ نہ بنائیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’ہم ایڈوانس رقم نہیں دیں گے اور معاوضہ فلم مکمل ہونے پر ادا کریں گے۔‘‘
’’فکر کیوں کرتے ہیں۔ مجھے آپ پر بھروسا ہے۔‘‘
اداکار حبیب کے اس رویّے نے ہمیں بہت متاثر کیا۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 180 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حسن طارق صاحب حبیب کے انتخاب سے زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ دراصل ہمیں بھی یہ انتخاب زیادہ موزوں نہیں لگا تھا مگر دوسرے دستیاب ہیرو بالکل ہی ناموزو ں تھے۔ مثلاً سنتوش کمار، درپن، سدھیر، یوسف خاں ان کرداروں کیلئے عمر کے اعتبار سے مناسب نہیں تھے۔ لے دے کے کمال اور حبیب ہی نظر آتے تھے حالانکہ ہمارے خیال میں وہ بھی کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تھے۔ مگر کوئی اور چارہ نہ تھا۔
**
یاسمین سے ہماری پرانی ملاقات اور بے تکلفی تھی۔ انہوں نے لقمان صاحب کی فلموں میں بھی کام کیا تھا جن سے ہم بھی وابستہ رہے اور اس زمانے میں فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں ہمارا کافی وقت ساتھ گزرتا تھا۔ وہ ادب دوست، خوش گفتار اور خوش مزاج خاتون ہیں۔ مزاح کا ذوق بھی ہے۔ شعر و ادب سے آگاہی رکھتی ہیں اس لئے ان سے گاڑھی چھنتی تھی۔
ہماری یاسمین سے اس وقت سے ملاقات تھی جب وہ کیمرا مین جعفر شاہ بخاری کی بیگم تھیں۔ جعفر شاہ پاکستان کے بہترین کیمرا مینوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ بعد میں وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی بنے اور بہت اچھی فلمیں بنائیں فلم ’’بھروسا‘‘ کے فلم ساز اور ہدایت کا جعفر شاہ ہی تھے۔ اس فلم سے ریاض شاہد کہانی نویس اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے نمایاں ہو کر سامنے آئے اور پھر انہوں نے پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا۔اس اعتبار سے ریاض شاہد کو فلمی صنعت کے سامنے پیش کرنے کا کریڈٹ جعفر شاہ بخاری کو جاتا ہے ان دونوں کی اولاد میں ایک بیٹا ناصر بخاری ہیں جو آج کل انگلستان میں ہیں۔ وہاں انہوں نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کی۔ چار بچوں کے باپ بنے اور پھر میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔
جعفر شاہ بخاری کے ساتھ یاسمین کا ساتھ کافی طویل رہا مگر پھر انہوں نے جعفر شاہ بخاری سے طلّاق حاصل کرلی اور کچھ عرصے بعد سیّد شوکت حسین رضوی سے شادی کرلی۔ وہ اب دو بیٹوں کی ماں ہیں۔ یہ دونوں اب شاہ نور اسٹوڈیو میں شوکت صاحب کے حصّے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔
یاسمین کا نام پہلے زرینہ ریشماں تھا۔ وہ بمبئی میں بھی کچھ عرصے فلمی صنعت سے وابستہ رہیں۔ پھر پاکستان آنے کے بعد کئی فلموں میں اداکاری کی۔ پہلے وہ معاون اداکاروں کے طور پر کام کرتی رہیں۔ پھر ہیروئن بن گئیں۔ ہیروئن کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم پنجابی میں تھی۔ اس کا نام ’’جبرو‘‘ تھا اور اس میں ہیرو کے طور پر پہلی بار اکمل کو پیش کیا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم میں سبھی اہم لوگ پہلی بار ذمّے داریاں نبھا رہے تھے۔ اس کے ہدایت کار مظفر طاہر تھے۔ مصنّف سکّے دار تھے۔ ہیرو اکمل اور ہیروئن یاسمین تھیں۔ ویلن اور کامیڈین کے روپ میں طالش کو پیش کیا گیا تھا۔ اس کے فلم ساز فقیر صلاح الدین کا تعلق لاہور کی معروف فقیر فیملی سے تھا۔ ’’جبرو‘‘ بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ اس طرح یونٹ کے سبھی لوگوں نے شہرت اور مرتبہ حاصل کیا۔
یاسمین کا قد چھوٹا تھا مگر چہرے مہرے اور جسم کی ساخت کے اعتبار سے ان کا شمار بہت معیاری ایکٹریسوں میں کیا گیا لیکن وہ صفِ اوّل میں نمایاں نہ ہوسکیں۔ حقیقی زندگی میں وہ بہت سنجیدہ اور ہنسنے ہنسانے سے پرہیز کرنے والی ہستی نظر آتی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ بہت زندہ دل اور ہنس مکھ ہیں۔ اچھے اور شائستہ مذاق اور شعر و شاعری کو پسند کرتی ہیں۔ لیکن آغاز ہی سے ان پر المیہ اداکارہ کا ٹھپا لگ گیا اس لئے وہ فلمی روایات کے مطابق ایسے ہی کرداروں کیلئے وقف ہو کر رہ گئیں۔ حالانکہ وہ ہر طرح کے کردار یکساں مہارت سے ادا کرسکتی ہیں۔
ہم یاسمین سے ملے اور انہیں یہ اطلاع دی کہ ہم فلم ساز بننے والے ہیں۔ انہوں نے ہمیں نہ صرف مبارک باد دی بلکہ فوراً ہمارا منہ بھی میٹھا کرادیا۔ہم انہیں کہانی کے بارے میں بتاتے رہے جوانہیں بہت پسند آئی۔ انہوں نے کسی شرط کے بغیر ہی ہمیں فلم کیلئے تاریخیں دینے کا وعدہ کرلیا۔ معاوضہ وغیرہ کی بات وہ گول ہی کر گئیں اور کہا کہ آپ کی پہلی فلم ہے۔ معاوضے کا کیا ہے، وہ تو آپ دے ہی دیں گے۔ ان کے اس رویّے سے ہماری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس فلم میں ایک اہم کردار ان کے شوہر کا بھی تھا جو شادی کے دو سال بعد ہی حادثے میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس کردار کیلئے ہم مناسب اداکار کی تلاش میں تھے۔ پھر سوچا کہ یہ ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کسی بھی بڑے اور مقبول اداکار کو مہمان اداکار کے طور پر کاسٹ کرلیں گے۔فلم میں ایک اور اہم کردار نوخیز ہیروئن کا بھی تھا۔ اس لڑکی میں کہانی کے دونوں ہیرو دلچسپی رکھتے تھے۔ زیبا اس زمانے میں اُبھرتی ہوئی اداکارہ تھیں۔
فضل کریم فضلی صاحب نے کراچی میں اپنی پہلی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ بنائی تو اس میں خود فضلی صاحب سمیت سبھی قابل ذکر لوگ نئے تھے۔ فضلی صاحب سبطین فضلی صاحب کے سب سے بڑے بھائی تھے۔ ادیب، شاعر اور بہت سینئر آئی سی ایس افسر تھے۔ بہت اعلیٰ اور ذمے دار عہدوں پر فائزرہ چکے تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں یکایک فلم بنانے کی سوجھی اور انہوں نے ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کا آغاز کردیا۔ اس فلم کی کہانی اور نغمے ان ہی کے تحریر کردہ تھے۔ فلم ساز اور ہدایت کار بھی وہی تھے۔ ان کی خود اعتمادی دیکھئے کہ انہوں نے الف سے یے تک سبھی نئے لوگ اپنے یونٹ میں شامل کئے حالانکہ خود بھی اس میدان میں نووارد تھے۔ زیبا، دیبا، محمد علی اور کمال ایرانی کے علاوہ کئی دوسرے اداکاروں نے اس فلم میں پہلی بار کام کیا تھا ۔
’’چراغ جلتا رہا‘‘ ایک مقصدی اور اصلاحی فلم تھی۔ کراچی میں تو یہ بہت کامیاب ہوئی لیکن پنجاب میں اسے وہ پذیرائی نہ مل سکی۔ پھر بھی اسے کامیاب ہی کہا جاسکتا ہے۔ حکومت نے اس فلم کا تفریحی ٹیکس بھی معاف کردیا تھا اور فضلی صاحب کو ایک صاف ستھری فلم بنانے پر بہت سراہا گیا تھا۔ اس فلم میں ایک دبلی پتلی، نازک، دھان پان سی نو عمر خوبصورت لڑکی کو انہوں نے ہیروئن کے طور پرمنتخب کیاتھا جس کا نام شاہین تھا مگر فضلی صاحب نے فلم کیلئے اسے زیبا کا نام دیا۔ زیبا نے اس فلم کے بعد فلمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا اورصف اوّل کی ہیروئن بن گئی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان عارف کو ہیرو کے طور پرمتعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس فلم کے بعد فلمی اُفق سے غائب ہوگئے حالانکہ ان کے دوسرے رفیقوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اس میں ان کی شخصیت اور اداکارانہ عدم صلاحیت کا بھی دخل تھا۔ دیبا کو بھی اس فلم میں پہلی بار ایک اہم کردار سونپا گیا۔ آگے چل کر وہ بھی ایک کامیاب اور مقبول ہیروئن بن گئیں۔ محمد علی اس فلم کے ویلن تھے مگر اپنی وجاہت اور کارکردگی کی بناء پر بے حد پسند کئے گئے۔ ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے بعد وہ چند فلموں میں ویلن کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ پھر انہیں ایکشن ہیرو بنایا گیا۔ اس روپ میں بھی فلم بینوں نے انہیں بہت پسند کیا۔ پھر وہ باقاعدہ رومانی ہیرو بھی بن گئے اور عرصۂ دراز تک پاکستان کی فلمی صنعت پر راج کرتے رہے۔ جب ہم نے ’’مجبور‘‘ کا آغاز کیا تو محمد علی کراچی میں ہی مقیم تھے۔
محمد علی کا تعلق بھارت کی ریاست رامپور سے ہے جہاں ان کا خاندان مدت سے آباد تھا اور علم و فضل کی دولت سے مالا مال تھا۔ ان کے والد بھی ایک عالم اور مذہبی شخصیت تھے۔ پاکستان آنے کے بعد اس خاندان نے حیدرآباد سندھ کو اپنا دوسرا وطن بنایا اور محمد علی نے اسی شہر میں پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی۔ نقل وطن کے بعد مالی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں تھی اس لئے ایک متوّسط طبقے کے فرزند کے طور پر انہوں نے پرورش حاصل کی۔ حالات کی گردش نے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہی رکھا اور وہ ریڈیو میں آڈیشن دینے کیلئے پہنچ گئے۔ محمد علی کی آواز ہمیشہ ان کا سب سے قیمتی اثاثہ رہی ہے۔ بھرپور‘ متاثر کن اور دل کی گہرائی میں اُتر جانے والی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت جلد ریڈیو کے اچھے فنکاروں میں شمار ہونے لگے۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات حمایت علی شاعر سے ہوئی جو ان کے بڑے بھائی ارشاد علی کے د وست تھے۔ قدیم وضع داری کے دستور کے مطابق محمد علی نے بہت بڑا اداکار بن جانے کے بعد بھی رشتوں اور تعلقات کا پوری طرح بھرم رکھا۔ حمایت علی شاعر کو وہ ایک بڑے بھائی کی طرح ہی احترام دیتے رہے۔ حمایت صاحب نے ان کی فلموں کے لئے گیت بھی لکھے اور جب انہوں نے اپنی ذاتی فلم بنائی تو محمد علی اور زیبا نے اس میں کام کیا اور ان کے ساتھ ہر طرح تعاون کیا۔ مصنف ذاکر حسین سے بھی محمد علی کی ریڈیو ہی کے زمانے سے شناسائی تھی اور ان کا بھی وہ ہمیشہ احترام کرتے رہے۔ حیدرآباد ہی میں ان کی ملاقات مصطفیٰ قریشی سے بھی ہوئی تھی۔ مصطفیٰ قریشی کی بیگم روبینہ قریشی سے بھی محمدعلی اسی زمانے سے واقف تھے بلکہ انہوں نے روبینہ قریشی کو منہ بولی بہن بنایا ہوا تھا۔ اس طرح اس زمانے کے سبھی لکھنے والوں‘ شاعروں اور فنکاروں سے محمد علی کی شناسائی پیدا ہوئی جو کبھی زمانے کے نشیب و فراز سے متاثر نہ ہو سکی۔
محمد علی کی ابتدائی زندگی ایک معمولی نوجوان کی طرح گزری ہے۔ بعد میں جب وہ سُپر سٹار بن گئے تب بھی اپنے پرانے ملنے والوں سے اسی خلوص ا ور اپنائیت سے ملتے رہے جس طرح بے سروسامانی کے دنوں میں ملا کرتے تھے۔ حیدرآباد کی سڑکوں پر پیدل گھومنا یا بسوں میں سفر کرنا ان کیلئے کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے بڑا اور مشہور معروف آدمی بننے کے بعد وہ پردہ پوشی کرنے کی ضرورت سمجھتے ۔ اداکار بننے کے بعد ابتدائی زمانے میں وہ اپنے ماضی کے بارے میں مہر بہ لب رہے لیکن پھر جب اعتماد کی دولت سے مالا مال ہوئے تو انہوں نے اس کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی حالانکہ مفلسی کے وہ دن ان کیلئے محض ڈراونا خواب ہی بن کر رہ گئے تھے۔ ان کے والد محترم کی دعاؤں کا ثمر تھا یا خود ان کی خوبیوں اور نیکیوں کا صلہ کہ جب ایک بار انہوں نے دولت و شہرت اور مقبولیت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر آخری سیڑھی پر پہنچ کر ہی دم لیا اور خوش حالی‘ شہرت اور مقبولیت سے اللہ نے انہیں پھر کبھی محروم نہ کیا۔
زیڈ اے بخاری (ذوالفقار علی بخاری صاحب) اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے مختار مطلق تھے۔ وہ انتہائی ہُنرمند‘ قابل اور مردم شناس آدمی تھے۔ زبان کے تلفظ اور الفاظ کی نشست و برخاست کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے۔ نہایت خوش مزاج اور حاضر جواب انسان تھے۔ محفلوں کی جان تھے اور اپنی ذات میں خود بھی ایک انجمن تھے۔ بہت اعلیٰ درجے کے شاعر‘ اچھے نثر نگار اور نقاد اور براڈ کاسٹنگ کے حوالے سے تو سارے برصغیر میں انہیں یکتا سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے جن کا نام احمد شاہ بخاری تھا مگر پطرس بخاری کے نام سے ادبی حلقوں میں زندہ جاوید ہوگئے۔ یہ دونوں بھائی آفتاب اور ماہتاب کے مانند تھے۔ پطرس بخاری‘ ماہر تعلیم تھے۔ بھلے دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور جیسے عظیم الشان تعلیمی ادارے کے پرنسپل رہے۔ بعد میں سفارت کاری کی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے بہت سے کارنامے سرانجام دئیے۔ جہاں احمد شاہ پطرس بخاری کی شہرت ختم ہوتی تھی وہاں سے ذوالفقار علی بخاری کی شہرت و عظمت کا آغاز ہوتا تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے مختلف شعبوں میں مختلف حوالوں سے بہت نام پیدا کیا اور جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں نئی روایات قائم کر کے ہی دم لیا۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب کافی عرصے تک ریڈیو پاکستان کے کرتا دھرتا اور حاکم اعلیٰ رہے۔ آواز میں گھن گرج تھی۔ زبان و کلام پر مکمل عبور حاصل تھا۔ حالانکہ اہل زبان نہ تھے مگر اہل زبانوں پر بھاری تھے۔ دراز قد سانولا رنگ‘ ہلکے گھونگھریالے بال‘ کلین شیو‘ ان کے چہرے پر سب سے نمایاں ان کی خلاف معمولی موٹی موٹی بھوئیں تھیں جن کے بارے میں ایک بار شوکت تھانوی صاحب نے کہا تھا ’’آنکھوں کے اوپر مونچھیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نہ جانے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔‘‘
بخاری صاحب ہمہ صفت شخصیت تھے لیکن علم موسیقی زبان و ادب شعر و علم اور تلفظ پر انہیں خاص طور پر مکمل عبور حاصل تھا۔ انتہائی خوب صورت‘ سلیس ‘ شائستہ اور رواں گفتگو کرتے تھے اور بات بات میں مزاح پیدا کرنا ان کی ایک نمایاں خوبی تھی۔ شعر کی ادائیگی کے معاملے میں انہیں کمال حاصل تھا۔ تحت اللّفظ میں مرثیہ انتہائی دلگداز اور پراثر انداز میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری زمانے میں اپنی خودنوشت سوانح بھی شائع کرائی تھی جو اس عہد کی مکمل تاریخ ہے۔ اس کا نام بھی ’’سرگزشت‘‘ ہے۔ اب تو ایسی شخصیات نے جنم لینا ہی بند کر دیا ہے بقول میر تقی میر۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
بخاری صاحب کی محفلیں اور صحبتیں آج بھی نگاہوں اور سماعتوں میں تازہ ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں یہ فخر و اعزاز حاصل ہے کہ ان نادر روزگار ہستیوں کی محفلیں دیکھی ہیں، ان میں شرکت کی ہے اور ان سے فیض اٹھایا ہے۔(جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 182 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)