فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 303

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 303
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 303

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند گیلریوں اور برآمدوں سے گزر کر ہم تینوں ڈائننگ ہال میں پہنچے تو وہاں ایک دم چہل پہل اور زندگی پیدا ہو گئی۔ وہ ہال جو چند لمحے پہلے خالی تھا‘ سنسان اور ویران نظر آ رہا تھا۔ ایک دم وہاں بہت سے لوگ نمودار ہو گئے۔ منیجر صاحب بنفس نفیس موجود تھے۔ آخر میڈم نورجہاں کے لئے ڈنر کا بندوبست کرنا تھا۔ کوئی معمولی بات تو نہیں تھی۔ ویٹرز بھی اچانک حرکت میں آ گئے تھے۔ جن ویٹرز کی ڈیوٹی نہیں تھی وہ بھی آس پاس منڈلا رہے تھے۔ ڈنر کا وقت کافی دیر پہلے ختم ہو چکا تھا پھر بھی سارا ہال سجا ہوا تھا۔ ایک درمیانی میز پرہم لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ کھانے کا آرڈر دیتے ہی پھر سرگرمی پیدا ہو گئی۔ کوئی سلاد لا رہا ہے۔ کوئی پانی کے گلاس اور کوئی نمک دانی لا رہا ہے۔ کوئی رنگین نیپکین لئے چلے آ رہا ہے۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور میڈم نورجہاں کی اس پر نظر پڑ جائے تاکہ وہ انہیں سلام کر کے اپنی دیرینہ آرزو پوری کرے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 302 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


کھانا واقعی بہت لذیذ تھا۔ چِکن‘ کباب اور قورمہ خاص طور پر قابل تعریف تھے۔ میڈم نے بے حد پسندیدگی کا اظہار کیا اور پوچھا ’’یہ کھانا کس نے پکایا ہے؟‘‘
’’ایک بہت پرانا باورچی ہے میڈم۔‘‘
’’انہیں ذرا بلائیں۔ میں ان کی تعریف کروں گی۔‘‘ میڈم نے کہا ۔ایک بار پھر فوراً ہلچل سی پیدا ہو گئی۔ لوگ بھاگے بھاگے گئے۔ منیجر صاحب بذات خود بھی چلے گئے۔کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر‘ دُبلا پتلا سا آدمی میڈم کے حضور میں دانت نکالے کھڑا تھا۔
’’سلام میڈم جی۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ بابا جی آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟‘‘ میڈم نے پوچھا۔
’’میڈم جی میں ادھر ہی ڈھاکا میں پیدا ہوا تھا۔‘‘
’’آپ بہت اچھّا کھانا بناتے ہیں۔ اب ہم جب تک یہاں رہیں گے آپ ہی ہمارے لئے کھانا پکایا کرنا۔‘‘
’’جرور میڈم جی۔ بڑی بڑی مہربانی۔‘‘ بابا جی کی خوشی سے باچھیں کھِل گئیں۔
میڈم نے اپنے پرس میں نے ایک نوٹ نکال کر بابا جی کی نذر کیا۔
’’بابا جی یہ آپ کا انعام ہے۔ آپ بڑے کاریگر ہیں۔‘‘
’’بڑی مہربانی میڈم جی‘‘ بابا جی نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’’میڈم جی آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں؟‘‘
’’ہاں ہاں۔ کہئے کیا بات ہے۔‘‘
’’میڈم جی ،مجھے آپ کے گیت بہت اچھّے لگتے ہیں۔ اللہ کی مہربانی ہے کہ آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ آپ کا گانا سننے کی دل میں بڑی آرزو ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ بھی کل گانا سننے کے لئے وہاں آ جانا۔‘‘
’’ایسا کیسے ہونے سکتا ہے میڈم جی۔ اُدھر تو بہت زیادہ پیسوں کا ٹکٹ ہے۔ ہم تو گریب لوگ ہیں۔ میری گھر والی کو بھی بہت شوق ہے آپ کا گانا سننے کا۔‘‘
میڈم کا دریائے سخاوت اس وقت جوش میں آیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا ’’ٹھیک ہے بابا جی‘ کل رات کو کھانے کے بعد ہم آپ سب کو گانا سنائیں گے۔ آپ سب کے بیوی بچّوں کو بھی۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
بابا جی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ’’آپ ہم سب کو اِدھر گانا سنائیں گے میڈم؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے میڈم جی‘‘ ہال میں موجود عملے کے تمام لوگ جیسے خوابوں کے جزیروں میں پہنچ گئے تھے۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو برآمدے سے گزرتے ہوئے میڈم کو اندازہ ہوا کہ باہر موسم بہت خوشگوار ہے۔ یہ ڈھاکا میں سردی کا موسم تھا لیکن ہم لوگوں کے لئے بے حد خوشگوار تھا۔ ہوا میں ہلکی سی خُنکی تھی اور فضا میں سبزے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
میڈم نے کہا ’’چلو۔ باہر چل کر ٹہلتے ہیں۔‘‘
اعجاز نے گھڑی کی طرف دیکھا ’’کافی رات ہو گئی ہے۔‘‘
’’اچھا ہے نا۔ اس وقت کوئی ہمیں پہچانے گا بھی نہیں۔‘‘
ہم تینوں ہوٹل شاہ باغ کے لان میں اور پھر گیٹ سے باہر نکل کر سڑک پر ٹہلنے لگے۔ دور سے ایک ہاتھ رکشا والے نے ہم لوگوں کو دیکھا تو فوراً رکشہ کھینچتا ہوا بھاگا چلا آیا۔
’’رکشہ میں بیٹھیں؟‘‘ میڈم نے بچّوں کی طرح اعجاز سے پوچھا ۔’’میں کبھی ایسے رکشا میں نہیں بیٹھی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ رکشا میں سیر کریں۔‘‘
’’آئیں۔ آپ بھی آ جائیں‘‘ میڈم نے رکشا میں سوار ہوتے ہوئے اعجاز سے کہا۔
’’ارے نہیں۔ دیکھا نہیں‘ یہ بیچارہ خود ہی رکشا کھینچتا ہے۔‘‘
رکشا والا بول پڑا ’’کوئی بات نہیں ہے صاحب۔ ہم تو بڑے موٹے موٹے آدمیوں کو بھی بٹھا لیتا ہے۔ آپ تو بہت ہلکے ہیں۔ آ جائیے آ جائیے۔‘‘
اعجاز بھی رکشا میں سوار ہو گئے۔
’’کدھر کو چلنا ہے صاب؟‘‘
’’کدھر کو نہیں بس ہمیں آس پاس تھوڑا سا گھما دو‘‘ اعجاز نے کہا تو رکشا والے کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ اتنی سی دیر کے لئے اسے چار چھ آنے سے زیادہ ملنے کی امید نہ تھی۔ مگر وہ فوراً رواں ہو گیا۔
تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد رکشا واپس آ گیا۔ میڈم اور اعجاز رکشا سے اُترے تو ہوٹل کے چوکیداروں اور دوسرے ملازموں کا ایک مجمع لگا ہوا تھا جو ان دونوں کو ہاتھ رکشا میں سوار دیکھ کر حیران ہو رہے تھے مگر خوش بھی تھے۔
رکشا سے اُتر کر اعجاز نے دس روپے کا ایک نوٹ رکشا والے کو دیا تو وہ کہنے لگا ’’اپنے پاس بھان نہیں ہے صاب۔‘‘
’’یہ سب تم رکھ لو‘‘ اعجاز نے کہا اور ہوٹل کے اندر چلے گئے۔ رکشا والا خوشی اور بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہ گیا۔
دوسرے دن صبح ناشتا کرنے کے بعد ہم اپنے کمرے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ رتن کمار چلے آئے۔
انہوں نے کہا ’’خوب رکشا کی سیر ہو رہی ہے آج کل۔‘‘
’’میڈم نور جہاں کو بہت شوق تھا۔‘‘
’’میڈم کو یہاں لوگ بہت پسند کرتے ہیں بلکہ ان سے عقیدت رکھتے ہیں‘ ہوٹل میں صبح ہر بیرے کی زبان پر ان کا ہی چرچا تھا۔‘‘
’کیوں نہ ہو بھائی‘ نورجہاں بار بار تو نہیں پیدا ہوتی‘‘ ہم نے کہا۔
’’اچھّا۔ کافی تو منگائیں‘‘ انہوں نے فرمائش کی۔ ’’کیا تم نے ناشتا نہیں کیا؟‘‘ہم نے پوچھا۔
’’ناشتا تو کیا مگر چائے کے ساتھ۔ کافی کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘
ہم نے فون پر کافی کا آرڈر دے دیا۔
رتن کہنے لگے ’’آفاقی صاحب مجھے اسٹیج پر کیا کرنا ہے۔ مجھے تو ناچ گانا بھی نہیں آتا۔‘‘
ہم نے کہا ’’تو پھر کیوں چلے آئے؟‘‘
’’سمجھا کریں‘‘ وہ مسکرائے ’’یہ فرمائشی پروگرام ہے۔‘‘
ابھی کافی آنے نہیں پائی تھی کہ نیلو بھی آ گئیں۔
’’امیّ اور ڈیڈی پرانے زمانے کی فلموں کی باتیں کر رہے ہیں۔ میں ادھر آ گئی۔‘‘
’’بہت اچھّا کیا‘‘ ہم نے کہا ’’کافی منگائیں؟‘‘
’’اگر آپ دونوں پئیں گے تو میں بھی ضرور پیوں گی۔‘‘ وہ بے تکلّفی سے بولیں۔ ہم نے فون پر ایک اور کافی کا آرڈر دینے کا ارادہ کیا مگر نیلو نے روک دیا ’’کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ہم تینوں اسی میں سے پی لیں گے۔‘‘
کافی پی کر ہم آگے پیچھے ہلنے والی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگے اور وہ دونوں آپس میں باتوں میں لگ گئے۔
رتن نے کہا ’’آفاقی صاحب آپ سمجھ لیجئے ہم لوگ یہاں ہیں ہی نہیں۔ آپ اپنا اخبار پڑھئے‘ ہم اپنی باتیں کریں گے۔‘‘
’’ہم بھی سمجھ لیں گے کہ آپ یہاں نہیں ہیں۔‘‘
کافی پی کر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔
نیلو نے کہا ’’اب ہمیں چلنا چاہئے۔ ان لوگوں کی پرانی فلموں کی باتیں ختم ہونے والی ہوں گی۔‘‘
رتن کمار کے والد عباس اجمیری اداکاری کے بہت شوقین تھے۔ وہ خاموش فلموں کے زمانے میں اسٹیج پر کام بھی کیا کرتے تھے۔ پرانے زمانے کی بہت سی دلچسپ باتیں انہیں یاد تھیں۔ جب کبھی وہ پرانے زمانے کے اسٹیج اور فلموں کے قصے سناتے تو سبھی شوق اور دلچسپی سے سننے میں مصروف ہو جاتے تھے۔


جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)