ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ چوتھی قسط

ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ چوتھی قسط
ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ چوتھی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم ’’پرسوں ‘‘کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے اور عالم تخیل میں بڑے رنگین اور خوبصورت خواب دیکھتے رہے۔فلمی دنیا تو گلیمر اور رنگ و نور کی دنیا کہلاتی ہے۔ہم نے عالم خیال میں شیشے کی طرح چمکتا ہوا اور جگمگاتا ہو ااسٹوڈیو دیکھا۔اداکاروں کے ٹھاٹ باٹھ کا تصور کیا اور کیفے ڈی پھونس کے بارے میں بہت شاندار توقعات وابستہ کر لیں۔ہم تو اس کے نام ہی سے بہت مرعوب ہو گئے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے فرانس کا کوئی ریستوران ہو گا۔خوب صورت ویٹر اور ویٹریسیسں ہوں گی اور ہر طرف طرح دار اداکاروں کا ہجوم ہو گا۔ہم کیفے ڈی پھونس میں جائیں گے تو مینیجر یا ویٹر سے کس زبان میں بات کریں گے پھر سوچا کہ انگریزی میں بات کرنا بہتر ہو گا اس طرح ان لوگوں پر ہمارا بھی رعب پڑ جائے گا۔آخر فلم اسٹوڈیو کا کیفے ہے۔کوئی مذاق تو نہیں ہے۔

ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان ہی خیالات میں کھوئے ہوئے ہم اس روز خوب بن ٹھن کر اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو جانے کے لئے ماڈل ٹاؤن بس میں سوار ہوئے تو خود کو دوسرے مسافروں سے زیادہ اہم اور ممتاز تصور کررہے تھے اس لئے کہ ہم ایک فلم اسٹوڈیو میں شوٹنگ دیکھنے کی غرض سے جا رہے تھے جب کہ باقی لوگ اس سعادت سے محروم ہی تھے۔
اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو سے پہلے مسلم ٹاؤن کا بس اسٹاپ تھا۔ہم وہاں بس سے اتر گئے اور پیدل چلتے ہوئے اسٹوڈیو کی طرف چل پڑے۔سڑک سے اتر کر جو راستہ اسٹوڈیو کی طرف جا رہا تھا وہ کچا تھا۔کچھ دور چلے اور چاروں طرف نظریں دوڑائیں مگر ہمیں کوئی شاندار ریستوران اور کیفے نظر نہیں آیا۔ویسے اسٹوڈیو کی عمارت کا بیرونی حصہ بھی خاصہ بوسیدہ تھا۔پاس سے گزرتے ہوئے ایک لڑکے سے ہم نے پوچھا کہ بھائی کیفے ڈی پھونس کس طرف ہے ؟
اس نے بے نیازی سے ایک طرف کوہاتھ سے اشارہ کیا اور چلتا بنا۔ہم اس سمت چلے تو چند قدم کے بعد ہی ایک تندور نما ہوٹل نظر آیا۔ اس کے سامنے لکڑی کی چند بینچیں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک دو ٹوٹی پھوٹی میزیں بھی تھیں۔یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے آگے پھونس کا ایک چھپر سا لگا ہوا تھا جو اس ریستوران کی وجہ تسمیہ تھی۔ ایک میلے کچیلے سے صاحب سامنے بیٹھے دیگچی میں چائے ابال رہے تھے مٹی کے ایک دو چولھوں پر ایک دوہنڈیاں اور بھی رکھی ہوئی تھیں۔ان صاحب کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی مگر بڑے اسٹائل سے سگریٹ پی رہے تھے اور خالص اشوک کمار کے انداز میں اس کی راکھ بھی جھاڑتے جا رہے تھے جو چائے کے برتنوں پر گر رہی تھی مگر انہیں اس کی مطلق پروا نہیں تھی۔ہمارے تصورات کو ایک شدید دھچکا سا لگا۔یہ کیفے ہمارے تصورات کے خوبصورت ریستوران کے بالکل بر عکس تھا۔نام اتنا شاندار اور حلیہ اس قدر پھٹیچر‘یقین نہیں آیا کہ یہی فلمی دنیا کے ستاروں کی آماجگاہ کیفے ڈی پھونس ہو سکتا ہے۔ہم نے آگے بڑھ کر ان صاحب کو متوجہ کیا ’’سنئے ؟‘‘
’’فرماؤ جی !‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’یہی کیفے ڈی پھونس ہے‘‘۔’’یہاں تک تو آ گئے۔اب اس کے آگے بولو ؟‘‘انہوں نے سگریٹ کا کش لے کر پوچھا۔
’’وہ ایک اسسٹنٹ کیمرہ مین ہیں۔نبی احمد صاحب‘ہمیں ان سے ملنا ہے۔‘‘
’’تو ملو‘ منع کس نے کیا ہے ؟‘‘
’’انہوں نے کہا تھا کہ یہاں کسی سے کہیں گے تووہ ہمیں نبی احمد صاحب کے پاس پہنچا دے گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں بینچ پر تشریف رکھو۔ابھی لڑکا چائے لے کر اندر جائے گا تو تمھیں بھی لے جائے گا۔‘‘
ہم خاموشی سے لکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئے۔
انہوں نے دیگچی میں مٹھی بھرچائے کی پتی جھونک دی پھر سر سے پیر تک ہمارا جائزہ لیا۔تھری پیس سوٹ‘ چمکتا ہوا جوتا‘سر پر ہیٹ‘گلے میں ٹائی۔
پوچھا ’’ایکٹر بننے آئے ہو ؟‘‘
ہم گھبرا گئے ’’ارے نہیں‘بالکل نہیں۔ہم توبس ویسے ہی شوٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔یہاں جو ایکٹر بننے آتا ہے وہ یہی کہتا ہے۔بھائی‘ایکٹر بننا ہے تو شوق سے بنو۔اس میں شرمانے کی کیابات ہے جو بن گئے ہیں وہ کون سے خوش ہیں جو تم ایکٹر بن کر کچھ بن جاؤ گے مگر ہماری کون سنتا ہے جس کے سر پر یہ بھوت سوار ہوتا ہے اسے تو بڑے سے بڑا عامل بھی نہیں اتار سکتا ‘‘پھر پوچھا ’’چائے پیو گے ؟‘‘
’’نہیں‘شکریہ ‘‘
’’چائے پئے بغیر ہی شکریہ۔کمال کے آدمی ہو بھئی ‘‘پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر فلک شگاف نعرہ لگایا ’’چھوٹے‘چھوٹے‘ابے کدھر مر گیا ہے تو؟‘‘
’’ادھر ہوں جی ‘‘ایک نو عمر میلا کچیلا سا لڑکا کہیں سے یکایک نمودار ہوگیا۔
’’لے بھائی‘بیس کپ چائے ہے۔سیٹ پر لے جا۔پرچی لانامت بھولنااور ہاں بابو جی کو بھی ساتھ لے جا۔انہیں نبی احمد صاحب سے ملنا ہے۔‘‘
لڑکے نے گندی سی ایلومونیم کی ٹرے میں چائے دانی اور چھوٹی چھوٹی پیالیاں رکھیں اور چل پڑا ’’میرے پیچھے آ جاؤ جی۔‘‘
ہم اس کے پیچھے چل پڑے‘یہ کیفے‘اسٹوڈیو کی چار دیواری کے باہر تھا‘اسٹوڈیو کے قلعہ نما بڑے سے گیٹ سے گزر کرہم پھر کچھ دور ایک کچی سڑک پر چلے ۔سامنے اسٹوڈیو کی عمارت تھی۔ نچلی منزل پر کمرے اور دفاترتھے۔اوپر کی منزل پر اسٹوڈیو فلور تھا مگر ہمیں اوپرجانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔لڑکا بدستور گنگناتاہو اہمارے آگے آگے چلتا رہا۔عمارت کا چکر کاٹنے کے بعد دوسری طرف پہنچا جہاں لکڑی کی بوسیدہ سی سیڑھیاں اوپر کی طرف جا رہی تھیں۔ان سیڑھیوں میں جگہ جگہ سیڑھیاں غائب تھیں اور خالی جگہ تھی۔اس پر چلو تو سیڑھیاں ہلنے لگتی تھیں۔ہمیں توایسا لگا جیسے سرکس کے رسے پر چل رہے ہیں مگر چھوٹا بڑے اطمینان سے اسی رفتار سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ اب وہ گنگنانے کے بجائے سیٹی بجا رہا تھا۔لکڑی کے اس پُل صراط سے گزر کر ہم ایک برے ہال میں پہنچ گئے۔یہ شوٹنگ فلور تھا۔اس میں داخل ہوتے ہی ہمیں ایک عجیب قسم کی بد بو محسوس ہونے لگی۔ہال میں مصنوعی پہاڑیاں بنائی گئی تھیں۔ایک چھوٹا سا تالاب بھی تھا۔ہر طرف درختوں کے تنے اور ٹہنیاں کاٹ کر مٹی کے سہارے کھڑے کر دیے گئے تھے۔ یہ ایک پر فضا پہاڑی مقام کا سیٹ تھا۔اس زمانے میں پہاڑ اورغار بنانے کے لئے چٹائیاں استعمال کی جاتی تھیں۔بعد میں ان پر سلیٹی رنگ پھیر دیاجاتا تھاکہ وہ سچ مچ کے پٍہاڑ نظر آئیں۔اس سیٹ پر ایک طرف چند مونڈھے اور ایک دو لکڑی کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔کیمرہ مین ایک شاٹ کی تیاری کر رہا تھا۔کیمرے کے سامنے ایک نوجوان‘ایک نوجوان خوب صورت سی لڑکی سے مزاحیہ باتیں کر رہاتھا۔بعد میں پتا چلا کہ یہ کامیڈین ظریف ہیں اور لڑکی کانام اختری ہے جو اس فلم کی ہیروئن ہیں۔
اختری اس سے پہلے بے بی اختری کے نام سے بھی فلموں میں کام کرتی رہی تھیں۔متناسب جسم اور خوش شکل تھیں۔اداکاری میں زیادہ ماہر نہیں تھیں۔ظریف کو ہم نے ’’دو کنارے ‘‘کے سیٹ پر پہلی بار دیکھا۔اختری کو دیکھنے کا بھی پہلا اتفاق تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم ان دونوں کے ناموں سے بھی وقف نہیں تھے۔اس زمانے میں پاکستان میں گنتی کی ہیروئنیں تھیں۔ایک تو یہی اختری تھیں۔دوسری راگنی تھیں جن کے نام سے ہم واقف تھے اور ان کی فلم بھی دیکھ چکے تھے۔ ایک ارشاد تھیں جو بہت جلد شادی کر کے فلمی دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔صبیحہ خانم اس وقت فلمی دنیا میں داخل ہونے کے جتن کررہی تھیں۔
ہندوستان سے آنے والی ہیروئنوں میں سورن لتا تھیں جن کی ایک پاکستانی فلم ’’سچائی ‘‘ریلیزہو چکی تھی۔مگر بہت سے پاکستانیوں کی طرح ہم نے بھی نہیں دیکھی تھی۔یہ فلم نذیر صاحب نے بنائی تھی۔بات یہ ہے کہ اس زمانے میں اچھی بھارتی فلمیں کھلے عام سینماؤں میں دکھائی جاتی تھیں۔مشہور اداکاروں کی فلموں کو چھوڑ کر گمنام ادا کاروں اور اناڑی ہدایت کاروں کی فلمیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔
ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کی بیگم نینا بھی لاہور آ چکی تھیں۔ انہوں نے یہاں جس فلم میں پہلی بار کام کیا اس کا نام ’’اکیلی ‘‘تھا اور یہ سید عطااﷲ ہاشمی نے بنائی تھی۔بمبئی سے شمیم اور نجمہ بھی پاکستان آچکی تھیں۔شمیم نے ’’سیندور ‘‘میں کام کیا تھا اور یہ فلم بہت کامیاب ہوئی تھی۔کچھ عرصہ بعد ہی انور کمال پاشا صاحب نے شمیم سے شادی کر لی اور وہ فلمی دنیا کو چھوڑ کرگھر میں بیٹھ گئیں۔
نجمہ نے بھی بمبئی کی چند فلموں میں کام کیا تھا۔لاہور آکر بھی چند فلموں میں اداکاری کی اس زمانے میں فلمیں ہی کتنی بنتی تھیں۔یہ امر تسر کی رہنے والی تھیں۔ذہین اور ادب ذوق بھی تھیں۔انہوں نے کچھ عرصے بعد ملک باری سے شادی کر کے اداکاری ترک کر دی تھی۔لے دے کر اس وقت پاکستان میں یہی گنتی کی ہیروئنیں تھیں۔
اختری کو ایک نوجوان گندمی رنگ کے ہدایت کار بڑی شائستگی سے سمجھا رہے تھے۔ظریف بے تکان بولے چلے جارہے تھے جس کی وجہ سے اختری اپنے مکالمے بھول جاتی تھیں۔یہ ہدایت کار عاشق بھٹی تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے جس فلم کا آغاز ہوا تھا وہ ’’دو کنارے ‘‘ہی تھی۔یہ اور بات ہے کہ یہ چند فلموں کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔
گورے رنگ کے سفیدپتلون قمیص میں ملبوس چھوٹے قد اور بھاری جسم کے ایک صاحب کیمرہ مین تھے۔یہ نظام ناخدا تھے۔بہت اچھے اور مزے دار آدمی تھے۔پان بہت کھاتے تھے۔ نبی احمد صاحب ان ہی کے معاون تھے اور کیمرے کے آگے پیچھے پھر رہے تھے ہم ایک طرف کو کھڑے ہو گئے۔
چھوٹے نے بھی چائے کی ٹرے آہستگی سے ایک مونڈھے پر رکھ دی اور خاموش کھڑا ہو گیا۔سارے سیٹ پرخاموشی چھائی ہوئی تھی۔ہم تو سمجھے کہ شاید شوٹنگ ہو رہی ہے مگر بعد میں پتا چلا کہ یہ ریہرسل ہے۔شاٹ بعد میں لیا جائے گا۔ریہرسل کے درمیان میں وقفہ آیا تو نبی احمد صاحب کی نظر ہم پر پڑ گئی۔وہ فوراً ہماری طرف آئے۔ہمیں لے جا کر ایک مونڈھے پر بیٹھایا اور کہا کہ شارٹ ختم ہو گا تو ڈائریکٹر اور نظام ناخدا صاحب سے ہمارا تعارف کرا دیں گے۔پھر انہوں نے چھوٹے کو اشارے سے بلایااور ہمیں ایک چائے کی پیالی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
یہ پیالیاں چھوٹے سائز کی تھیں۔اس سے پہلے ہم نے دوسرے تندور نما ہوٹلوں میں بھی ایسی ہی پیالیاں دیکھی تھیں۔چائے خاصی مزے دار تھی۔سیٹ پر موجود ایک اور لڑکے نے دوسرے لوگوں کو بھی چائے پیالیوں میں ڈال کر دی۔ اس اثنا میں ریہرسل بھی ہوتی رہی اور اس کے بعد شارٹ لیا گیا۔
دوسرے شارٹ سے پہلے وقفہ ہوا تو نبی احمد صاحب ہمیں لے کر عاشق بھٹی صاحب کے پاس گئے اور ان سے ملوایا۔نظام نا خدا بھی پان چباتے ہوئے آگئے۔ان لوگوں سے زیادہ بات چیت نہ ہو سکی کیونکہ وہ مصروف تھے مگر کچھ عرصے بعد ہدایت کار عاشق بھٹی اور نظام نا خدا صاحب سے ہماری بہت اچھی واقفیت ہو گئی۔نظام نا خدا صاحب سی اے رؤف صاحب کے غالباً برادر نسبتی تھے۔ان کے لئے ’’لکس ‘‘کی فلمیں بنایا کرتے تھے۔کچھ عرصے بعد رؤف صاحب سے ہماری بہت اچھی ملاقات ہوگئی۔یہ رؤف صاحب وہی ہیں جنہوں نے کراچی میں انٹر نیشنل فلم اسٹوڈیو بنایا ہے۔
کچھ دیر بعد دوسرے شارٹ کی ریہرسل شروع ہوئی۔ظریف تو فرفر اپنے مکالمے بول رہے تھے مگر اختری کو مشکل پیش آرہی تھی۔اس کاایک سبب ظریف بھی تھے۔وہ ہر بار مکالمے میں کوئی تبدیلی کر دیتے تھے اور اختری اپنا مکالمہ بھول جاتی تھیں۔
عاشق بھٹی صاحب ہر بار ظریف سے کہتے ’’یار، زیادہ گڑ بڑ مت کرو۔تم مکالموں میں تبدیلی کر دیتے ہو اور وہ اپنے ڈائیلاگ بھول جاتی ہے۔‘‘
ظریف آئندہ مکالمے تبدیل نہ کرنے کا وعدہ کر لیتے مگر وہ شاید اپنی عادت سے مجبور تھے۔ در اصل وہ بے حد حاضر جواب اور ذہین تھے۔انہیں ہر بار کوئی اچھا سا فقرہ سوجھ جاتا تھا جو وہ مکالموں میں شامل کر لیتے تھے۔آخر اختری بے چاری تنگ آگئی۔اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کہا’’ظریف صاحب‘آپ پہلے اپنے ڈائیلاگ یاد کر لیں اس کے بعدشوٹنگ ہو گی۔‘‘
وہ خاموشی سے ایک مونڈھے پر جا کر بیٹھ گئیں۔عاشق بھٹی صاحب اور نظام ناخدا صاحب نے انہیں سمجھا بجھا کر منایا اورظریف کو بھی مکالمے بدلنے سے منع کیا۔ اس طرح خدا خدا کر کے یہ سین مکمل ہوا۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)