مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر92

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر92
مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر92

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فلم کے بارے میں رانی سے اور میاں جاوید سے چند ملاقاتیں ہوئیں لیکن پھر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ حسن طارق کے بارے میں صرف ایک بار انہوں نے کہا تھا۔ ’’آپ تو جانتے ہیں۔ طارق صاحب کو گھر اور گھر والوں کی عادت نہیں ہے۔ میں نے شادی گھر بنانے کیلئے کی تھی۔ ورنہ کیا فائدہ؟! کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم سر ہلا کر رہ گئے۔ ہمیں احساس تھا کہ اس معاملے میں وہ دونوں ہی تھوڑے تھوڑے صحیح اور تھوڑے تھوڑے غلط تھے۔ مگر قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ ان دونوں سے ہم ملتے رہے لیکن اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ عجیب بات یہ تھی کہ ان دونوں کی زندگی بالکل نارمل تھی۔ غم و افسوس یا پچھتاوے کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے زندگی کے وہ تمام سال جو انہوں نے ایک دوسرے کی رفاقت میں گزارے تھے کبھی تھے ہی نہیں۔

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر91 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میاں جاوید سے ہماری زیادہ بے تکلفی نہیں تھی اس لیے دوبارہ رانی کے گھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اتنا ہمیں علم تھا کہ میاں جاوید اب رانی کے ساتھ اس کی کوٹھی میں رہتے ہیں۔
کافی وقت گزر گیا۔ نہ رانی نے کبھی فون کیا۔ نہ ان سے ملاقات ہوئی۔ رانی کی عادت بھی نرالی تھی۔ کبھی تو سالوں خبر نہیں لیں گی۔ یا پھر فون آئے گا تو ایک سلسلہ ہی شروع ہو جائے گا۔
پھر ایک دن سنا کہ رانی بیمار ہیں۔
ہمارے ایک عزیز میو اسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں زیرِ علاج تھے۔ ایک روز ان کی مزاج پرسی کیلئے گئے تو معلوم ہوا کہ رانی بھی نزدیک ہی ایک کمرے میں زیرِ علاج ہیں۔ سوچا مزاج پرسی کرلیں مگر دروازے پر ’’ڈسٹرب نہ کریں‘‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس لیے واپس لوٹ آئے۔
تیسرے دن ہمارے عزیز کے ایک دوست نے بتایا کہ رانی بہت شدید بیمار ہیں۔ انہیں کینسر ہوگیا ہے۔ ہمارا دل دھک سے رہ گیا۔ ہم نے تو انہیں بالکل تندرست اور ترو تازہ دیکھا تھا۔ پھر اچانک یہ موذی مرض کیسے ہوگیا؟
تیسرے ہی دن رانی لندن روانہ ہوگئیں۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ ان سے ملاقات کی مہلت ہی نہ ملی۔ ان کے گھر یا اسپتال جاتے ہوئے جھجک ہوتی تھی۔ اب وہ ہمارے دوست کی نہیں، میاں جاوید قمر کی بیوی تھیں۔
لندن سے خبر ملی کہ رانی کا آپریشن کامیاب ہوگیا اور وہ رو بہ صحت ہیں۔ کینسر کا آپریشن تو ہوگیا تھا مگر وہ ایک نئے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ جسے ’’عشق روگ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔خود رانی نے ہمیں یہ داستان سنائی تھی۔
رانی کی زندگی میں ایسے واقعے پیش آئے تھے جیسے کہ عموماً فلمی کہانیوں میں رونما ہوتے ہین۔ مختصر یہ کہ جب وہ بیمار ہوئیں تو ان کے بیان کے مطابق میاں جاوید نے ایک آدھ بار رسمی طور پر خبر لینے کے علاوہ کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں تک کہ اسپتال کا رخ تک نہ کیا۔ رانی کیلئے یہ المناک صدمہ تھا۔ ایک طرف کینسر جیسا جان لیوا مرض، دوسری طرف شوہر کی بے اعتنائی بلکہ بے تعلقی اور بے وفائی۔ کوئی اور عورت ہوتی تو ہمت ہار دیتی مگر رانی نے حوصلہ قائم رکھا۔ میاں جاوید نے تو پلٹ کر خبر تک نہیں لی مگر کچھ سہیلیاں کام آئیں۔ سب سے بڑھ کر حق صاحب نے ہمت بندھائی۔ فوری طور پر تمام انتظامات مکمل ہوگئے اور رانی لندن روانہ ہوگئیں۔
فضائی سفر میں رانی کو ایک ہمدرد اور غم گسار مل گیا۔ یہ کرکٹر سرفراز نواز تھے۔ انہوں نے نہ صرف دیکھ بھال کی بلکہ لندن پہنچ کر عملی طور پر بھی مدد کی۔ رانی کو اسپتال میں داخل کرانے میں ہاتھ بٹایا۔ اس کی دلجوئی کرتے رہے۔ جب ان کا آپریشن ہوا تو سرفراز نواز اسپتال میں موجود تھے۔ قدرت مہربان تھی اس لیے رانی تیزی سے روبہ صحت ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئیں۔ سرفراز نواز کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ جب تک رانی لندن میں رہیں سرفراز ان کے ساتھ رہے۔ انہیں سیر و تفریح کراتے رہے۔ جب رانی لندن سے لاہور کیلئے پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوئیں تو سرفراز نواز انہیں الوداع کہنے کیلئے ہیتھرو ائر پورٹ پر موجود تھے۔ لندن جاتے ہوئے وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی تھے۔ غائبانہ طور پر ایک دوسرے سے واقف تھے لیکن پھر بھی ناواقف تھے۔ لیکن جب رانی لاہور کیلئے روانہ ہوئیں تو شادی کے عہد و پیمان ہوچکے تھے۔
رانی نے ہم سے کہا ’’میاں صاحب کو تو یہ امید ہی نہیں تھی کہ میں زندہ بچوں گی۔ ان کے خیال میں تو میں چند روز کی مہمان تھی۔ جب صحت مند ہوکر واپس آئی تو انہوں نے ٹیلی فون کیا مگر میں نے جواب میں صرف ایک بات کہی ’’ہم دونوں اب ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مجھے طلاق چاہیے‘‘۔
میاں صاحب کے پاس یہ مطالبہ مسترد کرنے کیلئے کوئی معقول دلیل نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے چپ چاپ رانی کا مطالبہ مان لیا۔ رانی اور میاں جاوید قمر کے راستے جدا ہوگئے۔ میاں صاحب تو پہلے ہی ایک گھریلو بیوی کے شوہر تھے۔ ان کے بچے بڑے ہو رہے تھے اور ان کے کاروبار میں شریک ہوکر ان کا ہاتھ بھی بٹا رہے تھے۔ مگر رانی ایک بار پھر تنہا ہوگئی۔
رانی لندن سے واپس لوٹیں تو انہیں فون کیا۔ دوسری جانب وہ کھنکتی ہوئی خوش و خرم آواز سنائی دے رہی تھی ’’آفاقی صاحب اللہ نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔ میں نے دوسرا جنم لیا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’پہلے جنم کے لوگوں کو پہچانتی ہو؟‘‘
وہ ہنسنے لگیں ’’خوب اچھی طرح۔ آپ ابھی آجائیے‘‘۔
رانی کی کوٹھی پر وہی پرانا عملہ موجود تھا۔ اندر وہ خوش رنگ شلوار قمیص میں ملبوس، خوشبو میں مہکی ہوئی مسکرا رہی تھیں۔
’’کیوں، یقین نہیںآیا کہ میں زندہ ہوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’بالکل آگیا۔ کیونکہ کوئی روح کم از کم میک اپ تو نہیں کرسکتی‘‘۔
رانی نے اپنی بیماری اور علاج کے قصے سنانے شروع کردیئے۔ میاں صاحب سے وہ بہت شاکی تھی ’’آفاقی صاحب! کتنے افسوس کی بات ہے، اس شخص نے تو لندن ایک فون تک نہیں کیا۔ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ بس یہ اللہ کو پیاری ہوگئی‘‘۔
ہم نے پوچھا ’’مگر یہ سرفراز نواز کی کیا خبریں ہیں؟‘‘
وہ ہنسنے لگیں ’’میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ سرفراز نے میری کتنی مدد کی ہے۔ کتنی خدمت کی ہے۔ اگر سرفراز وہاں نہ ہوتے تو شاید میں آج آپ کے سامنے نہ ہوتی‘‘۔
ہم رانی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ ہستی کینسر جیسے موذی اور خطرناک مرض کو شکست دے کر آئی ہے۔ اور تو اور ان کے چہرے پر بیماری یا کمزوری کے آثار بھی نہیں تھے۔ جسم ان کا ہمیشہ کی طرح دبلا پتلا اور متناسب تھا۔
’’کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ رانی نے چائے بناتے ہوئے پوچھا۔
ہم نے کہا ’’یقین نہیں آتا کہ آپ بیمار تھیں۔ مجھے تو یہ سب ڈراما ہی لگتا ہے‘‘۔
’’کس بات کا؟‘‘
’’میاں صاحب سے علیحدہ ہوکر سرفراز سے شادی کرنے کا ڈراما‘‘۔
’’آپ بہت چالاک ہیں‘‘ وہ حسبِ معمول مسکراتی رہیں۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، ان کا فلموں میں اداکاری کا ارادہ بھی تھا۔
’’مگر میں اوٹ پٹانگ پنجابی فلموں میں تو کام نہیں کروں گی۔ کوئی اچھا سا کردار ملا تو ضرور کروں گی‘‘۔
کچھ دن بعد سرفراز نواز لاہور آگئے۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کی اور رانی کی شادی ہوگئی ہے ارو وہ رانی ہی کی کوٹھی میں رہتے ہیں۔ مگر دوسری کوٹھی میں۔ رانی نے پہلی کوٹھی سے کچھ فاصلے پر، وحدت رود پر ایک نہایت شاندار کوٹھی تعمیر کرالی تھی۔ اس کی آرائش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ پیسہ اور ذوق رانی کا تھا اور نگرانی اور تجربہ حق صاحب کا۔(جاری ہے)

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر93 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)