فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 244
ایک بار مغرب کے وقت ہم لوگ بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ہر گزرنے والی کار کو روکنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ ایک بڑی سی کار میں یو پی کے چیف منسٹر گزرے۔ انہیں روک لیا گیا۔ ڈرائیور نے کار روک لی تو معلوم ہوا کہ یہ تو جھنڈے والی کار ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم لوگوں کو چیف منسٹر کی شکل بھی نظر آگئی۔
ڈرائیور نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘
کوئی اور بات نہ سوجھی تو کہا۔’’آپ کے پاس ماچس ہوگی؟‘‘ اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
چیف منسٹر نے بھی اس حرکت کو لڑکوں کی شرارت سمجھ کر ٹال دیا ورنہ کافی گڑ بڑ ہوجاتی۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 243 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس قسم کی حرکتیں نادر علی بلڈنگ کے نوجوانوں کا گروہ اکثر کرتا رہتاتھا۔ کبھی ڈرامے ہو رہے ہیں تو کبھی ادبی محفلوں کے پروگرام بنائے جا رہے ہیں۔ فیض عام کالج کے نزدیک ہی ایک ’’تاڑی خانہ‘‘تھا۔ تاڑی ایک سستا نشہ ہوتا ہے اس لئے غریبوں اور مزدور پیشہ لوگوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔ اس میں بدبو کافی ہوتی ہے لیکن پینے والوں کیلئے تو وہی عطر اور مُشک ہے۔ البتہ دوسرے لوگوں کیلئے اسے برداشت کرنا کارِ دارد ہے۔ تاڑی خانے میں عام طور پر مسلمان مزدور ہی زیادہ تعداد میں جایا کرتے تھے۔ ان محنت کش لوگوں کو پلّے دار کہا جاتا تھا۔ پلّے داروں کا یہ دستورتھا کہ اپنی آمدنی کا بیشتر حصّہ تاڑی کی نذر کر دیا کرتے تھے۔ بعض لوگ تو جو کچھ کماتے تھے تاڑی خانے میں لے کر حاضر ہو جاتے تھے۔
صباحت یار خاں کو ایک دن کیا سوجھی کہ تاڑی خانے کے دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے ’’آگ آگ‘‘ کا نعرہ مار دیا۔ اس کے بعد تو جس کسی نے بھی سنا وہ ’’آگ آگ‘‘ چلاتا ہوا جدھر کو منہ اٹھا اس طرف دوڑ پڑا۔ بھگدڑ مچ گئی اور تاڑی خانہ ویران ہوگیا۔ بعد میں پتا چلا کہ آگ واگ کچھ نہیں تھی۔ بس یوں ہی ایک شرارت تھی۔
پلّے دار پکے مسلمان اور کٹّرپاکستانی تھے۔ ان میں سے اکثر کو تو پاکستان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا سوائے اس کے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جس میں مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔ ان بے چاروں نے کبھی پاکستان آنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہوگا اور نہ ہی پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اس طرف کا رخ کیا۔ ان کا جذبہ اور خلوص بے لوث تھا۔ پاکستان کے نام پر وہ مارنے مرنے پرآمادہ ہوجاتے تھے اور ہندوؤں کے ساتھ بحث مباحثے میں اکثر سرپھٹول تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔
امروز‘ پاکستان ٹائمز اور دوسرے اخبارات و جرائد میں ہم مضامین لکھتے رہتے تھے کیونکہ بطور صحافی ہماری پہچان ہو گئی تھی۔ مگر مستقل ملازمت کوئی نہ تھی۔ اسی زمانے میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘ پر پابندی لگ گئی اور اس کے مالک و مدیر مولانا اختر علی خان قید کر دیئے گئے تو ان کے بڑے صاحبزادے منصور علی خان نے ’’آثار‘‘ کے نام سے ایک نیا روزنامہ جاری کیا اور ہم ’’آثار‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ گزرا تھا کہ مولانا اختر علی خان رہا ہو کر آ گئے اور انہوں نے اخبار کے معاملات سنبھال لئے۔ ’’زمیندار‘‘ کا ڈیکلریشن بھی بحال ہونے والا تھا۔ ولی عہد یعنی منصور علی خان نے جو کہ عارضی جانشین تھے تخت و تاج اپنے والد کے حوالے کر دیا تو ہمارا وہاں گزارا نہ ہو سکا اور نوکری چھوڑ دی۔
بے کاری کا تھوڑا ہی عرصہ گزارا تھا کہ میاں شفیع (م ش) اور ممتاز احمد خان نے اپنے ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ کی ادارت ہمیں سونپ دی۔ ہم نے م ش کی زیرنگرانی بڑے زور و شور سے کام کیا۔ کچھ عرصے بعد پنجاب میں قادیانی تحریک چل نکلی۔ ’’اقدام‘‘ نے حکومت کو کھری کھری سنانا شروع کر دیں جس کا نتیجہ ’’اقدام‘‘ پر بندش کی صورت میں برآمد ہوا۔ ہم ایک مرتبہ پھر بے کار ہو گئے۔
اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ میاں ممتاز دولتانہ کو ایک بار پھر اخبار نکالنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کے ایک پیروکار کی (جو صنعت کار بھی تھے) سرپرستی میں ایک کمپنی قائم کی گئی۔ چودھری صاحب (غالباً ان کا نام محمد حسین تھا) اس کے چیئرمین تھے۔ روزنامہ ’’آفاق‘‘ دوبارہ اس ادارے کے تحت جاری کیا گیا تو سابقہ ’’آفاق‘‘ کے قریب قریب سبھی لوگ اس سے وابستہ ہو گئے۔ میر نور احمد صاحب بدستور منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ ایڈیٹر کے طور پر مولانا غلام رسول مہر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عملے کے باقی ماندہ ارکان کم و بیش پہلے والے ہی تھے۔ مثلاً ظہور عالم شہید (نیوز ایڈیٹر) سردار فضلی (چیف رپورٹر) سید حبیب اللہ اوج (اسسٹنٹ ایڈیٹر) بشیر احمد ارشد (اسسٹنٹ ایڈیٹر) میاں محمد شفیع (م ش) اس دور میں بھی کالم نویس اور چیف رپورٹر تھے۔ اس بار خورشید صاحب بھی رپورٹر کے طور پر ’’آفاق‘‘ سے وابستہ تھے۔ یہ لاہور میں ’’ڈان‘‘ کراچی کے نمائندہ تھے اور بہت تیز و طرار‘ خطرناک قسم کے رپورٹر سمجھے جاتے تھے۔ یہ لاہور میں بمبئی کے انگریزی فلمی پرچے ’’فلم فیئر‘‘ کے بھی نمائندے تھے مگر فلموں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اسلئے ہم ہی ان کے کام آتے تھے۔ یہ واقعات ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
’’آفاق‘‘ کا یہ دور بھی ہمارے لئے نہایت معلومات افروز‘ تجرباتی اور ہنگامہ خیز تھا۔ ہم نے صحافیانہ زندگی کے بیشتر تجربے یہیں حاصل کئے۔
1958ء میں مارشل لا نافذ ہوا اور اخبارات پر فوجی حکمرانوں کا عتاب نازل ہوا تو ہم بہت پریشان ہوئے۔ اس طرح کی پابندیاں بلکہ ’’ذلت‘‘ ہمارے نزدیک صحافت کے شایان شان نہ تھی۔ ادھر کمپنی کے مالی حالات بگڑ گئے تھے یا چیئرمین صاحب نے جان بوجھ کر مصلحاً ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ تنخواہیں دیر سے ملنے لگیں تو ہم نے سٹاف کو جوش دلا کر ایک یونین بنا ڈالی۔ سب نے ہمیں پورے تعاون کا یقین دلایا۔ سبھی ہمارے مہربان اور پرانے مخلص دوست تھے۔ ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں جوشیلی تقریریں کی گئیں اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب تک حالات بہتر نہ بنائے جائیں گے تمام عملہ (کاتبوں سمیت) ہڑتال کرے گا۔
اگلے روز سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دفتر میں بیٹھ گئے۔ کسی کے سمجھائے نہ سمجھے۔ یہاں تک کہ چیئرمین صاحب کا ٹیلیفون موصول ہو گیا۔ سارے سینئر صحافیوں نے سوچ بچار کر کے ٹیلیفون ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم نے یونین کے فیصلے کے مطابق چیئرمین صاحب کو خوب کھری کھری سنائیں اور صاف بتا دیا کہ جب تک وہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے ہڑتال ختم نہ ہو گی۔ انہیں بہت تاؤ آیا۔ انہوں نے فرمایا ’’اگر آپ ان حالات میں کام نہیں کر سکتے تو نوکری چھوڑ کر چلے جائیں۔‘‘
ہم نے جواب دیا ’’ توپھر ہمارا استعفیٰ قبول فرمائیں‘‘
انہوں نے کہا ’’شکریہ خدا حافظ ‘‘اور فون بند کر دیا۔
کمرے میں سنّاٹا چھا گیا۔ ہم نے فخریہ انداز میں تمام ساتھیوں کی طرف دیکھا اور مسکرائے کہ دیکھا‘ کیسا ٹکا سا جواب دیا ہے چیئرمین کو‘ مگر وہ سب خاموش اور سوچ میں گم تھے۔ ہم اپنے کمرے میں واپس پہنچے تو سمجھانے بجھانے والے آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ بہت حد تک مان گئی ہے۔ باقی باتیں بھی مان لے گی۔ جھگڑا کرنے کا کیا فائدہ؟ تم اپنا استعفیٰ واپس لے لو۔ چیئرمین کو اعتراض نہ ہوگا۔ ہڑتال جاری رکھنا اب بے معنی ہے۔ کافی لوگ بے روزگاری سے ڈرتے ہیں اور ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔
ہم نے ان ناصحوں کو دیکھا اور پوچھا ’’مگر ان سب نے ہر حال میں ایک رہنے اور ساتھ دینے کا عہد کیا تھا۔‘‘
ظہور عالم شہید صاحب (اب مرحوم ہو چکے ہیں) ہمارے بے حد مہربان اور مشفّق تھے۔ انہوں نے پیار سے کہا ’’آفاقی ہوش سے کام لو۔ اتنے بہت سے لوگ بے کار ہوگئے تو گزارا کیسے کریں گے؟‘‘
ہم نے کہا ’’شہید صاحب‘ یہ بات آپ سب نے پہلے کیوں نہیں سوچی تھی؟‘‘
انہوں نے پیار سے ہمارے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’آفاقی ابھی تم نوعمر ہو۔ دنیا والوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہو۔ تمہیں ان کا تجربہ نہیں ہے۔ ابھی تو زندگی میں ہر قدم پر تمہیں ایسے اور بھی سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ غصہ تھوک دو چلو۔ کام کرو۔‘‘
ہم نے جواب دیا ’’شہید صاحب کم از کم میں ان سب واقعات کے بعد کام نہیں کروں گا۔‘‘
انہوں نے ہمیں چمکارا ’’آفاقی جی نہیں کرتا تو چھٹی کر لو۔ ایک دو دن دفتر مت آؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ہم نے شہید صاحب کے محبت بھرے چہرے پر نظر ڈالی۔ مایوسیوں کا ایک زوردار ریلا آیا اور ہماری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے حیران ہو کر ہمیں دیکھا اور پھر پیار سے کہا ’’ایسا نہیں کرتے یہ کیسا بچپنا ہے تم تو سمجھدار ہو۔‘‘
ہمارے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ ان کے پیار کرنے پر باقاعدہ سسکیوں سے اور پھر ہچکیوں سے رونے لگے۔ سارا دفتر ہمارے گرد اکٹھا ہوگیا سبھی ہمیں تسلی دلاسا دے رہے تھے۔ پیار کا اظہار کر رہے تھے اور ہم تھے کہ روئے جا رہے تھے۔ شہید صاحب نے سچ کہا تھا یہ زندگی کے تلخ حقائق اور دنیا والوں کے بارے میں ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ ہم نے پہلی بار لوگوں کو اصولوں اور وعدوں سے پھرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم آنسوؤں سے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے ان سب کے چہرے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کس طرح بدل جاتے ہیں اور عہد سے ہٹ جاتے ہیں۔
کافی دیر تک ہم روتے رہے۔ مگر کبھی نہ کبھی تو آنسو خشک ہونے ہی تھے۔
شہید صاحب بہت پیار سے ہمارے پاس بیٹھے تھپکتے رہے۔ پھر انہوں نے کچھ نوٹ ہماری جیب میں ڈال دئیے اور کہا ’’جاؤ۔ تم دو چار دن چھٹی کرو۔ گھومو پھرو غصہ ٹھنڈا ہونے پر دفتر آ جانا۔ چیئرمین صاحب سے میں بات کر لوں گا۔ ان کی فکر نہ کرو۔‘‘
ہم دفتر سے چلے آئے اور پھر ’’آفاق‘‘ میں ہم نے کام نہیں کیا۔ ایک تو مارشل لا کی پابندیاں اور مجبوریاں‘ اس پر پہلی پہلی شکست کی ذلّت کا احساس، ہم نے ’’آفاق‘‘ ہی کو نہیں صحافت کو بھی خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ فلم کا متبادل راستہ ہمارے سامنے موجود تھا۔ اگرچہ یہ مقدس نہیں تھا لیکن اب ہم کیا کرتے ،صحافت کے تقدس کو چاٹنا تو نہیں تھا،فلم کی دنیا کنجر خانہ کہلاتی ہے لیکن اس میں ہر گز ایسے لوگوں کی بھرمار نہیں ،بڑے شریف اور خاندانی لوگوں اک بھی یہ پیشہ ہے۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 245 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں