فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 123
’’وحشی جٹ‘‘ میں سلطان راہی کو ہر ایک نے بہت اچھا اداکار تسلیم کرلیا۔ یہ بھی ایک انوکھی بات تھی کہ ایک اداکار سپر اسٹار بن چکا تھا مگر اداکارانہ عظمت کا مظاہرہ نہ کرسکا تھا۔ اس کی مقبولیت بے پناہ تھی مگر نقادوں کے نزدیک وہ صحیح معنوں میں اداکار نہ تھا۔ لیکن ’’وحشی جٹ‘‘ نے سلطان راہی کی اس حیثیت کو بھی منوالیا۔ ’’وحشی جٹ‘‘ نے کامیابی اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور سلطان راہی حسن عسکری کا یہ احسان کبھی نہیں بھولا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر122 پؑڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں سے سلطان راہی کو شکایتیں بھی پیدا ہوتی رہیں جن سے صرف اس کے قریب ترین لوگ ہی واقف تھے۔ انہوں نے دانستہ یا نادانستہ سلطان راہی کے ساتھ زیادتیاں کیں۔ مگر سلطان راہی نے ان کی خدمت سے کبھی منہ نہ موڑا۔ یہ وہ تین ہدایتکار تھے جن کا ایک فون یا پیغام سن کر وہ فوراً ان کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ کہانی یا کردار سنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ صرف یہ اطلاع دیتے تھے کہ ہماری نئی فلم فلاں تاریخ سے شروع ہو رہی ہے۔ تمہاری ڈیٹس درکار ہیں۔
سلطان راہی ان کا حکم سن کر ان کی مطلوبہ تاریخیں کسی نہ کسی طرح فراہم کردیتا تھا۔ اس کیلئے وہ دوسرے فلمسازوں کو کیوں کر رضا مند کرتا تھا اور ان کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کس طرح کام کرتا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
ڈیٹس فراہم کرنے کے بعد سلطان راہی نے کبھی ان حضرات سے معاوضے کی بات نہیں کی۔ دسرے فلمساز اس کی چند ڈیٹس کیلئے سالہا سال انتظار کرتے، اسے منہ مانگا معاوضہ ادا کرتے مگر اقبال کاشمیری، اسلم ڈار، اور حسن عسکری کیلئے ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ جو چاہے دیتے۔ ان کیلئے سلطان راہی ’’حکم کا غلام‘‘ تھا۔ یہاں تک بھی غنیمت تھا مگر ان کی فلموں میں سلطان راہی کا کردار برائے نام بھی ہوتا تو وہ ان سے شکوہ نہ کرتا۔ ان تینوں حضرات سے بارہا شکایت کا موقع پیدا ہوا مگر اگلی بار بھی وہ ان کے بلاوے پر بھاگا بھاگا چلا جاتا تھا۔ اس کے بے تکلف احباب کہتے ’’راہی صاحب یہ لوگ تمہارے ساتھ اتنی زیادتی کرتے ہیں اور تم پھر ان سے تعاون کرتے ہو؟‘‘
جواب میں وہ کہتا ’’آغا جی۔ وہ جو چاہیں کریں، مجھے اپنے ضمیر کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ وہ اپنی سی کرتے ہیں اور میں اپنی سی۔ شکوہ شکایت کی کیا بات ہے‘‘۔
احسان ماننے والے فلمی دنیا میں خال خال ہی ہوتے ہیں اور اس حد تک احسان ماننے والے تو شاید ہوتے ہی نہیں ہیں کہ جو آسمان کی بلندیوں تک پہنچ کر بھی اپنے محسنوں کے خاکسار ہوں۔ سلطان راہی کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کا یہ انکسار، خاکساری اور خدا کی اطاعت اور اس کے بندوں سے محبت اور خدمت گزاری ہی شاید ان کو ایک فقید المثال اداکار اور فنکار بنانے کے سلسلے میں ان کی سفارش اور ان کا سہارا بن گئیں۔ ان پر ساری زندگی خدا کی رحمت رہی۔ ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ معمولی شکل و صورت اور غیر رومانی چہرہ مہرہ اور لب و لہجہ رکھنے والا یہ نوجوان کبھی پاکستانی فلموں میں ہیرو بن سکے گا۔ برصغیر کی فلموں میں ہیرو کیلئے جو صفات لازمی سمجھی جاتی ہیں سلطان راہی ان سے قطعی محروم تھے۔ چاکلیٹ ہیرو، رومانٹک ہیرو، معاشرتی ہیرو، کامیڈی ہیرو، ڈانسنگ ہیرو، سنگنگ ہیرو۔ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت ان میں موجود نہ تھی۔ رومانی سین وہ کرتے ہی نہیں تھے۔ ان کی فلموں میں رومان اور عشق یک طرفہ ہوتا تھا۔ یعنی ہیروئن ہی تمام ذمے داریاں سرانجام دیتی تھی۔ وہ اظہار محبت کرتی تھی۔ رومانی مکالمے بولتی تھی۔ گاتی تھی، ناچتی تھی، ہیرو کو منانے کیلئے سبھی طریقے آزماتی تھی۔ اس کے مقابلے میں سلطان راہی کا کردار صرف ہیروئن کو دیکھنا اس کا گانا سن کر آگے بڑھ جانے اور اس کے رقص کے انداز کو کچھ دیر کیلئے ملاحظہ کرنے کے بعد منہ پھیر کر چل دینے تک ہی محدود تھا۔ ایک ایسا شخص جو حسین نہ تھا جو ناچنا گانا نہیں جانتا تھا۔ جو کامیڈی اور اچھل کود کرنے سے قاصر تھا۔ وہ بھلا کسی فلم کا ہیرو کیسے بن سکتا تھا؟ سلطان راہی صرف ایکشن ہیرو تھے۔ بلند آواز میں ڈرامائی مکالمے ادا کرنا اور ایکشن۔ یہی ان کی خصوصیات تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ان ہی خوبیوں کی بنیاد پر انہیں ایسا ہیرو بنادیا تھا جس کے پرستار اس کو صرف اسی انداز میں دیکھنا پسند کرتے تھے اور پسند ہی نہیں کرتے تھے اس کے عاشق بھی تھے۔ وہ سلطان راہی کو بار بار اسی ایک انداز میں دیکھ کر بھی نہیں اکتاتے تھے۔ کوئی ماہر نفسیات بھی اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا کہ آخر سات ساڑھے سات سو فلموں میں ایک شخص کو قریب قریب ایک ہی روپ اور ایک ہی انداز میں دیکھ دیکھ کر وہ اس سے اکتاتے کیونکہ نہیں تھے؟ یہ بھی ایک عجوبہ ہی کہا جاسکتا ہے یا پھر ایک معجزہ۔ سلطان راہی پر اللہ کا سایہ تھا۔ اس لئے کہ وہ اس کا ایک سچا بندہ تھا۔ اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا تھا اور اس کے بندوں کا بھی حق ادا کرتا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی، تہجد گزار، حاجی، روزہ دار، زکوٰۃ دینے والا، انسانوں کی خدمت سرانجام دینے میں پیش پیش۔ نہ صرف خود حج کیا بلکہ گھر کے سارے افراد کو بھی حج کرایا۔ عزیز و اقارب، دوست احباب کو بھی حج کرایا اور قرآن کی باقاعدہ تلاوت کرتا تھا۔ کئی مسجدیں تعمیر کرادیں اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ مساجد کی تعمیر اور دیکھ بھال پر لگادیا۔ اپنے لئے عالی شان کوٹھیاں تو سبھی فلم اسٹار بناتے ہیں مگر گھر کے اندر مسجد تعمیر کرنے والا وہ غالباً واحد اداکار تھا۔ اس مسجد کو سلطان راہی کود اپنے ہاتھوں سے دھوتا اور صاف کرتا تھا۔ مسجد کی دیکھ بھال بھی خود ہی کرتا تھا۔ مسجد کی صفائی کرتے ہوئے وہ خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتا رہتا تھا۔ جن لوگوں کو نماز نہیں آتی ان کیلئے سلطان راہی نے خود اپنی آواز میں ایک آڈیو کیسٹ تیار کیا تھا جسے وہ ہزاروں کی تعداد میں رمضان شریف سے پہلے مفت تقسیم کرانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ رمضان کے فضائل کے بارے میں بھی اس نے ایک کیسٹ تیار کرایا تھا۔ بھلا ایسا عجیب و غریب اداکار اور ہیرو کوئی دوسرا ہوگا؟ اسی لئے وہ ہر ایک کو حیران کرگیا۔
سلطان راہی نے فنکاری اور اداکاری کا راستہ آسانی سے طے نہیں کیا تھا۔ ایک غریب گھرانے کا برائے نام تعلیم یافتہ لڑکا، اداکاری کیلئے ظاہری لوازمات سے محروم، نہ کوئی سفارش، نہ جان پہچان، مگر راولپنڈی سے وہ اداکار بننے کا عزم لے کر نکلا تھا اور سالہا سال تک نگار خانوں کی خاک چھانتا رہا۔ آخر پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور ایکسٹرا بننے کا شرف حاصل کرلیا۔ ایکشن اس کا پسندیدہ شعبہ تھا۔ اس لئے وہ فائٹر بن گیا۔ شہسواری اور ایکشن ان دونوں شعبوں میں اس نے بہت محنت سے کمال حاصل کیا تھا اور ان ہی کے بل پر وہ ہیرو اور پھر ایک لیجنڈ بن گیا۔ مگر اس سے پہلے اس نے اپنے کیریئر کا آغاز ۱۹۵۵ء میں ایک اسٹیج ڈرامے ’’نادر شاہ درانی‘‘ سے کیا تھا۔ پھر فلموں کا رخ کیا تو ایکسٹرا بن گیا۔ فائٹروں کی صف میں شامل ہوگیا۔ بہت ترقی کی تو ویلن بن گیا۔ اسے ایک پنجابی فلم ’’جنج‘‘ میں ویلن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ بہت سے اداکاروں کیلئے یہ ترقی کی آخری منزل ہوتی ہے مگر سلطان راہی نے اس جگہ سے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر ’’بابل‘‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے بعد وہ سچ مچ ہیرو بن گیا۔ یہ ۱۹۷۱ء کا ذکر ہے۔ اس کے بعد تو فلموں کی قطاریں لگ گئیں۔ کتنی فلمیں گنوائی جائیں۔ ان کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے۔ ساڑھے سات سو فلمیں کہنے کو آسان ہے لیکن کوئی دوسرا فنکار یہ لوہے کے چنے نہیں چبا سکے گا۔ سوچئے تو ایک ناممکن سی بات لگتی ہے۔ سلطان راہی کے سوا یہ کارنامہ کسی اور اداکار نے نہ تو پہلے کبھی سرانجام دیا اور نہ آئندہ کبھی سرانجام دے پائے گا۔ اس نے ناممکن کو ممکن بناکر دکھادیا۔ فنکاروں کی یادگار فلمیں اور یادگار رول انگلیوں پر گنائے جاسکتے ہیں۔ ایک ہاتھ کی نہ سہی دو ہاتھوں کی انگلیوں پر گن لیجئے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ مگر جس شخص نے سینکڑوں فلموں میں سینکڑوں کردار کئے ہوں ان کی گنتی اور فہرست بھلا کون یاد رکھ سکتا ہے؟ ایک سے بڑھ کر ایک کردار ایک سے بڑھ کر ایک فلم ایک سے بڑھ کر ایک مکالمہ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مردا‘‘ یہی حرف اول تھا اور یہی حرف آخر۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر ویران مسجدوں میں اذان دینے والا کوئی دوسرا اور کون ہوگا؟ سلطان راہی ایک ایسا فنکار تھا جو نماز پڑھتا بھی تھا۔ پڑھاتا بھی تھا۔ کتنے ہی لوگ اسے خوش کرنے کی خاطر اس کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے تھے۔
جن دنوں ہم نے ایک پنجابی فلم بنانے کا ارادہ کیا تو سلطان راہی سے ہی اس کی ابتدا کی۔ کئی بار سلطان راہی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ کبھی دن میں، کبھی شام میں، کبھی رات کے بارہ ایک بجے، اس زمانے میں سلطان راہی کے گھر میں مسجد نہیں بنی تھی مگر بالائی منزل کا ایک کمرا نماز اور عبادت کیلئے وقف تھا۔ اس کمرے میں ایک طرف قرآن شریف، سیپارے، مذہبی کتابیں، ٹوپیاں، جائے نمازیں رکھی ہوئی تھیں۔ اداکاروں کے گھروں میں قیمتی شرابیں، جام و مینا، بار تو دیکھااور سنا ہوگا کسی اداکار کے گھر میں یہ لوازمات نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ نماز کا وقت ہوتا اور راہی صاحب گھر میں موجود ہوتے تو فوراً نماز کیلئے اس مخصوص کمرے میں پہنچ جاتے۔ ملحقہ وسیع و عریض خوبصورت باتھ روم وضو کرنے کیلئے موجود تھا۔ اگر کوئی اذان دینے والا ہوتا تو اس سے اذان دینے کی فرمائش کی جاتی ورنہ سلطان راہی خود ہی دے دیتے۔ اذان کے بعد نماز پڑھانے کیلئے امامت کا مرحلہ پیش آیا کرتا تھا۔ اگر کوئی امامت کا حق دار میسر آجاتا تو یہ مقدس فریضہ اسے سونپ دیا جاتا ورنہ راہی صاحب انکسار سے مسکراتے اور کہتے ’’تو پھر میں نماز پڑھا دیتا ہوں۔ جو بھی دال دلیا ہے! حاضر ہے‘‘۔
اس سلسلے میں ایک یادگار واقعہ سن لیجئے۔ ایک روز ہم راہی صاحب کے گھر گئے ہوئے تھے۔ کچھ اور فلمساز، ہدایتکار، اداکار اور رائٹرز بھی موجود تھے۔ اسی اثنا میں مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ ہم تو نماز پڑھتے ہی ہیںَ آستینیں چڑھا کر وضو کیلئے باتھ روم میں گھس گئے مگر دیکھا کہ کچھ اور حضرات بھی وضو کرنے کیلئے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ باقی ماندہ حضرات بھی وضو کرنے کیلئے قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ باہر نکلے تو باقی ماندہ حضرات بھی پتلونوں کے پائنچے گھٹنوں تک چڑھائے سر پر ٹوپیاں پہنے نماز ادا کرنے کیلئے تیار کھڑے نظر آئے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو ان میں سے بعض شاید نمازیوں میں شمار بھی نہیں کئے جاسکتے۔ ممکن ہے عید، بقر عید کی نماز پڑھ لیتے ہوں مگر اس روز سلطان راہی کو خوش کرنے کی خاطر یا شرما حضوری میں صف میں کھڑے ہوگئے۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر124 پؑڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)