فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 245
1958ء میں باقاعدہ صحافت کو ترک کیا اور فلمی کوچے میں جا نکلے۔ وہاں کی آب و ہوا بدلنے لگی تو پھر اسے بھی الوداع کہہ دیا اور پھر صحافت کی وادی میں جا نکلے۔ ہم نے اپنی باقاعدہ صحافت کا دوسرا دور 1990ء میں شروع کیا۔ یعنی 32 سالوں کے طویل وقفے کے بعد۔
فلمی دنیا میں یہ سوچ کر گئے تھے کہ اب ساری زندگی اسی کی نذر کر دیں گے۔ بہت محنت مشقت کی۔ بڑے شوق اور لگن سے کام کیا۔ بہت کچھ پایا‘ بہت کچھ کھویا‘ مگر جب حالات کا رنگ دیکھ کر فلمی صنعت کو بھی طویل ریاضت کے بعد خدا حافظ کہنے کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر دل بھر آیا۔ ہم نے تو ساری عمر کے لئے اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ فلم کے ہر شعبے کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ جب خیال ہو ا کہ فلم کے بارے میں تھوڑا بہت جان گئے ہیں تو اس کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ ہماری طرح اوربھی بہت سے ہم عصروں نے بالاآخر یہی کیا۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 244 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسے بدقسمتی ہی کہنا چاہئے کہ ایک عمر جس کام کو جاننے بوجھنے اور سمجھنے میں صرف کی تھی اسی کو خیر باد کہنا پڑ گیا۔ بطور صحافی‘ کہانی نویس‘ فلم ساز اور ہدایت کار ہمارا فلمی تجربہ لگ بھگ پچاس سال پر محیط ہے۔ مگر عمر کا یہ طویل حصہ رائیگاں ہی گیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو بنانے سنوارنے کے جو خواب دیکھے تھے وہ ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے یہاں تک کہ آنکھ کھل گئی اور آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ کیا خواب اتنے طویل اور مسلسل بھی ہوتے ہیں اور کیا کبھی ان کی کوئی تعبیر بھی ہوگی؟
****
روزنامہ ’’آفاق‘‘ پہلے دور میں بند ہوا تو تمام ساتھی تتر بتر ہوگئے۔ یوں کہیے کہ جس کا جہاں سینگ سمایا چلا گیا۔ ہم اس وقت تک بطور صحافی پہچانے جاتے تھے۔ فلمی دنیا سے بھی آمدروفت اور میل ملاپ کی حد تک واسطہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک دو فلمی جرائد کے لئے مضامین وغیرہ بھی لکھے تھے۔ لیکن کوئی باقاعدہ کام نہ تھا اس لئے زیادہ تر وقت لکشمی چوک کے ریستورانوں‘ چائے خانوں اور قہوہ خانوں میں گزرتا تھا۔ کبھی مال روڈ کا رخ کیا تو کافی ہاؤس پہنچ گئے یا ٹی ہاؤس میں جا بیٹھے۔ یہ سب مقامات اس زمانے میں شاعروں‘ ادیبوں‘ عالموں‘ دانشوروں اور سیاست دانوں کی زد میں تھے۔ لکشمی چوک میں البتہ فلم والوں کا بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ ایک اور مشغلہ اس زمانے میں دوست احباب کے دفتروں میں جا کر گپ لگانا بھی تھا۔ وہ آج کی طرح مشینی اور صنعتی دور نہ تھا۔ لوگوں کے پاس وقت بھی تھا‘ پیار اور خلوص بھی تھا۔ بیٹھ کر بات چیت کرنا اور مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرنا بھی اس وقت کی سماجی ضروریات میں شامل تھا۔
ایک روز ہم ٹی ہاؤس سے باہر نکلے ہی تھے کہ اقبال کوثر مل گئے۔ اقبال کوثر اچھے قد کاٹھ کے صحت مند اور خوش شکل جوان تھے۔ صورت سے وہ شاعر کے علاوہ سبھی کچھ لگتے تھے مگر ان کی اصل وجہ محبوبی شاعری ہی تھی۔ یوں تو وہ ریلوے کے محکمے میں ملازم تھے مگر نوکری کا وقت جیسے تیسے گزارنے کے بعد وہ ریلوے ہیڈ کوارٹر یا ریلوے سٹیشن سے جو دوڑ لگاتے تو لکشمی چوک پر جا کر دم لیتے۔ وہ امرتسر کے رہنے والے تھے اور شاعر بھی تھے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ امرتسر سے تعلق رکھنے والے سبھی قابل ذکر اصحاب سے ان کی یاد اللہ تھی۔ امرتسر والے ان دنوں لاہور میں ہر جگہ پائے جاتے تھے۔ جسے دیکھئے معلوم ہوگا کہ امرتسری ہے۔ ہمیں تو امرتسریوں سے ڈر لگنے لگا تھا۔ مگر ان کے بغیر گزارا بھی نہ تھا۔ امرتسر سے آنے والے بہت باصلاحیت‘ حوصلہ مند اور دانش ور لوگ تھے۔ زندگی کے ہر شعبے میں امرتسریوں کی آمدروفت تھی یا پھر ان کا قبضہ تھا۔ ادبی اور فنی شعبوں پر تو وہ چھائے ہوئے تھے۔ امرتسر والوں میں ایک خوبی یہ دیکھی کہ وہ اپنے امرتسری ہونے پر برملا فخر کرتے تھے۔ اب بھی کرتے ہیں مگر وہ پہلے جیسا جوش و خروش نہیں رہا۔
ہمارے بھی کئی امرتسری مہربان تھے۔ سعادت حسن منٹو‘ ظہیر کاشمیری خالص امرتسری تھے۔ سیف الدین سیف صاحب بھی سرتاپا امرتسری تھے۔ ظہورالحسن ڈار بھی امرتسری تھے اور ہمارے بہت عزیز دوست تھے۔ عمر‘ دانش اور تجربے میں وہ ہم سے سینئر تھے۔ مگربہت بے تکلف دوست تھے۔ ڈار صاحب بڑے باغ و بہار آدمی تھے۔ بہت اچھے افسانہ نگار‘ صحافی اور کالم نگار تھے۔ ’’آنکھیں میری، باقی ان کا‘‘ ان کا مقبول ترین کالم تھا جو وہ مختلف اخبارات و جرائد میں وقتاً فوقتاً لکھتے رہے۔ متلون مزاج آدمی تھے اس لئے کسی ایک مقام پر زیادہ دیر تک ٹکتے نہیں تھے۔ جگہیں ٹھکانے اور پیشے بدلتے رہتے تھے۔ کبھی ادبی پرچوں سے وابستہ ہیں تو کبھی تصنیف و تالیف کر رہے ہیں۔ کبھی صحافت کے میدان میں قلم کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں تو کبھی فلمی دنیا میں براجمان ہیں اور کہانی و مکالمے لکھ رہے ہیں۔ مگر یہ سب کام ان کے لئے ’’پارٹ ٹائم‘‘ تھے یعنی جز وقتی‘ ان کی کل وقتی مصروفیت دوستوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا تھی۔ ابھی ہم سکول کے طالب علم ہوں گے جب ظہورالحسن ڈار لاہور کے ممتاز ادبی جرائد میں کہانیاں اور افسانے لکھتے تھے اور خوب داد پاتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر مختلف قسم کے کام کئے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی۔
انگریزی کی ایک کتاب ’’بامبی‘‘ کا انہوں نے اردو میں اس قدر خوبصورت ترجمہ کیا تھا کہ یہ ترجمہ اوریجنل کتاب پر بازی لے گیا تھا۔ الفاظ کا انتخاب‘ اسلوب‘ طرز بیان‘ تحریر کی شگفتگی اور سلاست‘ بے ساختگی اور سادگی‘ ان تمام چیزوں نے ’’بامبی‘‘ کو ایک بہت خوبصورت تصنیف بنا دیا تھا۔ اسے آپ ناول کہہ لیجئے جس کاپس منظر جنگل تھا اور یہ ایک بارہ سنگھے کی آپ بیتی تھی۔ یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی تھی جب اس بارہ سنگھے نے جنم لیا تھا۔ اس کے بعد عمر کے مختلف مرحلے‘ تجربات‘ مشاہدات اور دلی وارداتیں اس حسن کے ساتھ پیش کی گئی تھیں کہ کتاب کو ختم کئے بغیر ہاتھ سے نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اس بارہ سنگھے کو مصنف نے ایک انسان کی طرح مختلف نفسیاتی‘ ذہنی ا ور جذباتی ادوار سے گزارا تھا اور ہر سطر‘ ہر صفحہ دل پر اثر کرتا تھا۔ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک اس بارہ سنگھے کی زندگی میں جو نشیب و فراز آئے ان کی ساری روداد بے حد دلچسپ اور دلکش انداز میں پیش کی گئی تھی۔ یہ سب کچھ انسانوں کی زندگی میں بھی پیش آتا ہے۔ صرف ماحول‘ مقام اور کردار بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ڈار صاحب نے یہ کتاب ہمیں دیتے ہوئے کہا ’’آفاقی لو یہ کتاب پڑھو اور کچھ سیکھو۔‘‘
ہم نے کتاب کا فلیپ پڑھا اور پوچھا ’’ڈار صاحب اس بارہ سنگھے سے بھلا ہم کیا سیکھیں گے؟‘‘
بولے ’’یہ تمہیں کتاب پڑھنے کے بعد پتا چلے گا بیٹے۔ ابھی ہم انسانوں کو جانوروں سے بہت کچھ سیکھنا ہے‘‘۔
ہم کتاب لے کر چلے گئے۔ رات کو پڑھنے بیٹھے تو اس میں ایسے گم ہوئے کہ ختم کر کے ہی دم لیا۔ اس کے بعد دوبارہ ازسر نو مطالعہ شروع کر دیا۔
ناول کے کرداروں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ یہ تو جانوروں کی کہانی ہے۔ اس میں جانوروں کی زبان اور ماحول میں انسانی نفسیات اور مسائل کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس قدر دلچسپ‘ سبق آموز اور معنی خیز تحریریں بہت کم پڑھنے کو میسر آتی ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ وہ کتاب کوئی ہم سے پڑھنے کے لئے مانگ کرلے گیا اور پھر دوبارہ ہمیں نہ مل سکی۔ اس کا کوئی نسخہ ڈار صاحب کے پاس بھی نہیں تھا۔ دکانوں سے وہ غائب ہو چکی ہے۔ یاد نہیں کہ کس نے شائع کی تھی اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کیا تھا یا نہیں۔ اس کتاب کی کمی ساری زندگی محسوس کرتے رہیں گے۔ ڈار صاحب عجیب و غریب آدمی تھے۔ عام طور پر بہت نرم گفتار اور شائستہ تھے لیکن بعض اوقات جب بپھر جاتے تو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ شخص اتنا جارحانہ مزاج کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے چند واقعات ہمیں یاد ہیں۔ ان کی آغا شورش کاشمیری سے بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ پھر اختلافات ہوگئے۔ یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ گئی۔ اس زمانے میں غنڈے بدمعاش اتنے زیادہ نہیں تھے۔ جو بھی تھے وہ پہچانے جاتے تھے اور اپنے علاقوں اور شہروں میں مشہور بھی تھے۔ سیاستداں اس زمانے میں بھی غنڈوں اور بدمعاشوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور اس کے عوض انہیں پولیس سے تحفظ مہیا کرتے تھے۔ ہر بڑے اور مشہور آدمی کے حلقہ اثر میں غنڈوں اور بدمعاشوں کا ایک گروہ بھی ہوتا تھا۔ آغا شورش اور ظہور الحسن ڈار کے اختلافات بہت زیادہ خراب ہوئے تو ہم اس زمانے میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں آغا شورش کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ ہم دیکھتے کہ دور دراز سے غنڈے اور بدمعاش آ کر آغا صاحب کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے اور ڈار صاحب کے خلاف لڑائی میں اپنی خدمات پیش کرتے۔ ہم چپ چاپ سنتے رہتے اور سہمے رہتے۔ ایک دو بار ہم نے ڈار صاحب کو مخبری بھی کی اور انہیں بتایا کہ فلاں غنڈا ان کے بارے میں کیا کہہ رہا تھا۔
ڈار صاحب اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے ’’آفاقی یہ سب تماشے ہیں تم فکر نہ کرو۔‘‘
بات دراصل یہ تھی کہ اکثر غنڈے اور بدمعاش دونوں کے حلقہ بگوش تھے اور انہیں اپنی وفاداری اور جان نثاری کا یقین دلاتے رہتے تھے۔ ان ہی دنوں ایک بار کافی ہاؤس میں آغا صاحب اور ظہور الحسن ڈار کا آمنا سامنا ہوگیا۔ بات تلخ کلامی سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ آغا شورش گفتار کے بہت بڑے غازی تھے مگر ہاتھا پائی ان کا شیوہ نہ تھا۔ ڈار صاحب نے دست درازی کی تو وہ اپنے بلند وبالا اور بھاری ڈیل ڈول کے باوجود خاموش کھڑے رہے۔ لوگوں نے بڑی مشکل سے ان دونوں کو علیحدہ کیا۔
(جاری ہے)