فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 276

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 276
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 276

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ ہم بتا چکے ہیں کہ آغا گل صاحب نے ہمیں ایک روز بڑی ہمدردی اور خلوص سے مشورہ دیا تھا کہ محمد علی کو ہیرو کے رول میں کاسٹ نہ کریں اس کی جگہ درپن کو لے لیں۔ ہمیں فلمی دوست یہ بھی بتاتے رہتے تھے کہ ’’بھائی کامیاب فلم بنانی ہے تو بڑے اور معروف اداکاروں کو کاسٹ میں شامل کرو۔‘‘
دیکھا جائے تو یہ درست ہے۔ فلمی دنیا کا یہی دستور ہے۔ کمرشل فلمیں بنانے کا فارمولا ساری دنیا میں یہی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کی مہربانی نصیب ہو جائے تو گمنام لوگ بھی راتوں رات سُپر اسٹار بن جاتے ہیں اور پھر انسان کو اللہ کے بعد خود اپنی صلاحیّت اور محنت پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ ’’کنیز‘‘ کی کامیابی نے ہمارے اس خیال کو پختہ کردیا تھا کہ بڑے ناموں اور بڑے لوگوں کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے۔ اس اعتماد کی بدولت ہم نے بعد میں بھی ساری زندگی اسی روش کو اپنایا اور بڑے ناموں اور معروف لوگوں کے محتاج نہ ہوئے۔ فلم ہو یا صحافت یاکوئی اور شعبہ۔ ہم اسی طرز عمل پر کاربند رہے اور خدا کے فضل سے کامیاب بھی رہے۔ یہ تذکرہ آگے بھی متعلقہ کاموں کے حوالے سے آتارہے گا۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 275  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محمد علی اور زیبا کی جھڑپوں کا احوال ہم بیان کر چکے ہیں لیکن جو لوگ اس طرح ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے آخر یک جان دو قالب کیوں اور کیسے ہوگئے کہ انہوں نے شادی کرکے ساری فلمی دنیا کو حیران کردیا اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دوسری بہت سی فلمی شادیوں کی طرح یہ شادی عارضی بھی ثابت نہ ہوئی اور ایک مثالی، پائیدار شادی قرارپائی۔
یہ کہاوت کہ بیویاں اپنا مقدّر اپنے ہمراہ لے کر آتی ہیں سو فیصد تو اس شادی پر صادق نہیں آتی اس لئے کہ شادی سے پہلے بھی محمد علی سُپر اسٹار اور خوش حال تھے لیکن شادی کے بعد ان کی فضول خرچیوں پر زیبا بیگم نے بریک لگا دیا۔ ان کی بے نظم اور بے ربط زندگی کو باقاعدہ بنا دیا۔ ہر موقع پر ان کی مشیر اور دوست کی ذمّہ داری ادا کی اور انہیں گھریلو ذمّہ داریوں سے یکسر آزاد کردیا۔ اوّل تو فلم والوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ کبھی آگ اور پانی، یعنی زیبا اور محمد علی، شادی کرکے یکجا بھی ہوں گے۔ جب شادی کی خبر آئی تو فلمی نجومیوں اور پنڈتوں نے پیش گوئیاں شروع کردیں کہ یہ شادی بہت مختصر عرصے تک باقی رہے گی۔ اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مگر یہ سب اندارے اور قیاس آرائیاں بالکل غلط ثابت ہوگئیں۔ یار لوگ ان کی علیحدگی کیلئے دن گنتے رہے اور ان کی شادی کامیابی کی منزلیں طے کرتی رہی۔
محمد علی اور زیبا کی شادی کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ مناسب ہو کہ اس داستان کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم اس کا مختصراً تذکرہ کردیں۔
محمد علی اگر زیبا سے ناراض رہتے تھے اور لڑتے، جھگڑتے رہتے تھے تو دراصل یہ ان کی بے پناہ محبت کا ہی ایک انداز تھا۔ ادھر زیبا انہیں تنگ اور پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں بلکہ ایسے مواقع تلاش کرتی رہتی تھیں تو یہ بھی پیار کا ایک انداز ہی تھا۔ خود زیبا کو اس چھپی ہوئی محبت کا بخوبی احساس اور ادراک تھا یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ان کی تمام شوخی اور شرارت کے باوجود صرف محمد علی ہی ایسے فرد تھے جو مسلسل اور مستقل ان کا ہدف بنے رہے۔ انہوں نے اور بھی کئی ہیروز کے ساتھ کام کیا۔ وہ ہر ایک سے بے تکلّف بھی تھیں مگر کسی ایک ہیرو کو انہوں نے اس طرح مسلسل ہدف نہیں بنایااور نہ ہی دوسروں کو وہ ہمیشہ تنگ کرتی تھیں۔ یہ غیر شعوری طور پر اظہار محبت تھا جس کا اعتراف وہ خود بھی نہیں کرتی تھیںیا شاید کرنا نہیں چاہتی تھیں۔ انہیں محمد علی کی وجاہت، شجاعت اور شخصیت کے علاوہ ان کے عادات و اطوار بھی پسند تھے مگران کے ناراض ہو جانے اور بھڑک جانے کی عادت سے غالباً وہ خائف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سنجیدگی سے محمد علی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
زیبا اور محمد علی کی جھڑپیں’’کنیز‘‘ مکمّل ہونے کے بعد بھی جاری رہی تھیں۔ روٹھنے اور من جانے کا سلسلہ بھی جاری تھا کہ ایک بالکل فلمی اور ڈرامائی واقعہ رونما ہوگیا۔
مال روڈ پر جاوداں اسٹوڈیو میں فلم ساز عزیز اللہ حسن کی فلم ’’پاکیزہ‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ زیبا فلم کے سیٹ پر کام کر رہی تھیں اور محمد علی بھی اسٹوڈیو میں موجود تھے۔ عزیز اللہ نے ان دنوں یہ اسٹوڈیو ٹھیکے پر لے رکھا تھا۔ وہ ایک خوبرو، تعلیم یافتہ، مہذّب اور خاندانی آدمی تھے۔ بہت خوش لباس اور خوش گفتار بھی تھے۔ دولت مند بھی تھے مگراس کے باوجود کنوارے تھے۔ بے تکلّف اور خوش مزاج انسان تھے اس لئے ہر ایک سے ان کے مراسم تھے۔ فلمی ہیروئنوں سے بھی ان کی ملاقات تھی جو ان کے گھر پر منعقد ہونے والی تقاریب میں اکثر شریک ہوتی رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اوقات میں مختلف ہیروئنوں کے ساتھ ان کے رومان کی خبریں یا افواہیں گرم ہوتی رہتی تھیں حالانکہ ان میں کوئی صداقت نہ تھی۔ زیبا بھی عادت کے مطابق ان پر فقرے کستی رہتی تھیں اور گپ شپ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ مگر جس وقت محمد علی سامنے موجود ہوں تو وہ جان بوجھ کر انہیں ستانے کیلئے، اپنے جُملوں میں شدت پیدا کردیا کرتی تھیں۔
اس روز بھی یہی ہوا تھا اور محمد علی بے حد تپے ہوئے تھے۔ گلابی موسم کا زمانہ تھا اور لاہور میں پھولوں کا موسم تھا۔ شام کے سات ساڑھے سات بجے تھے جب ہم فلم ساز اوراسٹوڈیو اونر ملک باری کے ساتھ جاوداں اسٹوڈیو پہنچے۔ باری صاحب کوعزیز اللہ حسن سے کوئی بات کرنی تھی۔ ہم محض مٹرگشت کی خاطر ان کے ہمراہ تھے۔ سیٹ پر گئے تو زیبا موجود تھیں۔ زیبا کسی جگہ موجود ہوں اور فوری طور پر ہوٹنگ اور فقرے بازی نہ کریں، یہ ممکن ہی نہ تھا۔ چنانچہ نوک جھونک شروع ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہم اسٹوڈیو کے بیرونی آفس میں ٹیلی فون کرنے کیلئے گئے تو کال کے سلسلے میں کافی دیر وہاں انتظار کرنا پڑا۔ کچھ دیر بعد دفتر سے باہر نکلے تو بڑے گیٹ کے سامنے ڈرائیووے پر، چند لوگوں کو کھڑے دیکھا۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔نیم تاریکی میں محمد علی، زیبا، باری ملک اور عزیز اللہ حسن کو ہم پہچان گئے۔ سوچا کہ یقیناً کوئی دلچسپ گفتگو ہو رہی ہوگی اس لئے بے تابی سے ان لوگوں کی طرف بڑھے۔ اچانک ایک طمانچے کی آواز فضا میں گونجی، پھرہم نے زیبا کو مڑ کر تیزی سے اندر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔
ہم سے مخاطب ہوئے بغیر وہ تیزی سے گزر کر چلی گئیں۔ اب صرف تین حضرات باقی رہ گئے تھے۔ باری ملک صاحب سنّاٹے کے عالم میں تھے جب کہ عزیز اللہ حسن محمد علی کا بازو تھامے انہیں نرم آواز میں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھر وہ بازو تھام کر محمد علی کو اپنے آفس کی طرف لے گئے۔ ملک باری ہکّا بکّا وہیں کھڑے رہ گئے۔
ہم نے پاس جا کر پوچھا ’’باری صاحب، کیا ہوا؟‘‘
وہ بولے’’بس یار۔ بلاوجہ بات بڑھ گئی۔ محمد علی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘‘
’’کیسا نہیں کرنا چاہئے تھا؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’کیاکردیا محمد علی نے؟‘‘
بولے ’’زیبا کو تھپّڑ مار دیا۔ عجیب بندہ ہے۔ یار غصّے میں بھی انسان کو عورت مرد کی تمیز کرنی چاہئے۔‘‘
ہم نے حیران ہو کرانہیں دیکھا پھر پلٹ کر محمد علی کی تلاش میں جانے کا ارادہ کیا مگر باری ملک نے ہمیں روک لیا۔ کہنے لگے ’’آفاقی یہ ان کا آپس کا جھگڑا ہے۔ ہمیں بلاوجہ مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ آؤ چلیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گیٹ کی طرف بڑھے جس کے باہر ان کی کار کھڑی ہوئی تھی۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 277 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں