ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ ساتویں قسط
فلم ’’ بھوانی جنکشن ‘‘ اسی نام کے ایک انگریزی ناول کی کہانی پر مبنی تھی۔اس کا پس منظر بھارت کا تھا۔یہ انگریزی دور حکومت کی کہانی تھی جب کانگریس نے انگریزی حکومت کے خلاف پر زور تحریک شروع کی تھی۔بھوانی جنکشن کے مقام پر کانگرسیوں نے ریل گاڑیوں کے سامنے ہزاروں رضاکاروں کو لٹا دیا تھا‘حکومت کے لئے یہ مشکل آئی تھی کہ اگر ٹرین کا پہیہ رک جائے تو سرکار کی سبکی ہو گی اور اگر رضاکاروں پر سے ٹرین گزار دی جائے تو سینکڑوں افراد ہلاک ہوں گے۔ اور سارے ملک میں ہنگامہ مچ جائے گا۔
ہر ممتاز فنکار ،ادیب اور فلمی شخصیت کے سکینڈل ۔۔۔ چھٹی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس فلم کی شوٹنگ کے لئے پہلے بھارت میں پروگرام بنایا گیا تھا اور فلم ساز کی خواہش تھی کہ ’’بھوانی ‘‘کے اصل مقام پر تمام مناظر فلمائے جائیں مگر بھارت حکومت نے کانگرسیوں کے جذبات کومجروح نہ کرنے کے پیش نظر وہاں فلم بندی کی اجازت نہیں دی۔ فلم کا تمام منصوبہ مکمل ہو چکا تھا اور اس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہو چکے تھے۔اس منصوبے کو ملتوی یا منسوخ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا حل یہی تلاش کیا گیا کہ فلم کی شوٹنگ بھارت کی بجائے پاکستان میں کر لی جائے۔مناظر اورپس منظر کے حساب سے دونوں ملک ایک جیسے ہیں۔لوگوں کی رنگت اور چہرے بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔رہی سہی کسر میک اپ اور لباسوں سے پوری کر لی جائے گی۔چنانچہ یہ پراجیکٹ بھارت سے پاکستان منتقل کر دیاگیا۔پاکستان کی حکومت نے نہ صرف شوتنگ کی اجازت دے دی بلکہ ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔پاکستان کی نوکر شاہی کی ذہنیت سے آپ اور ہم سبھی واقف ہیں۔ان کے ذہن سے انگریز کی غلامی کا زہر آج تک نہیں نکلا ہے۔ہر سفید فام ان کے لئے مرعوب کن ہے۔یہ اس کے آگے آنکھیں بچھانے کو بھی بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔
فلم ’’بھوانی جنکشن ‘‘ کی ابتدائی تیاریوں کے سلسلے میں پہلے کچھ لوگ لاہور آئے۔انہوں نے شوٹنگ کرنے کے لئے مناسب جگہوں کا انتخاب کیا۔لاہور کا قلعہ اور آس پاس کے مقامات انہیں پسند آئے۔ فلم کے اہم مناظر ریلوے اسٹیشن پر فلمائے جانے تھے۔اس مقصد کے لئے ریلوے انتظامیہ نے لاہور ریلوے اسٹیشن کے دو پلیٹ فارم ان کے سپرد کر دیئے۔یہ وہ انتظامیہ تھی جو پاکستانی فلم سازوں کو پلیٹ فارم پر ایک دو مناظر فلمانے کے لئے بھی بڑی مشکل سے اجازت دیتی تھی۔اسٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر ایک اور پلیٹ فارم نمبر دو فلم یونٹ کے حوالے کر دیئے گئے جہاں انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کر لیں۔لاہور کی جگہ پلیٹ فارم پر بھوانی جنکشن کا نام لکھ دیا گیا۔چند روز کے اندر ہی انہوں نے لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے ایک حصے کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
اس زمانے میں پاکستان کی فلمی صنعت اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔ہرچیز کی کمی تھی پھر بھارتی فلموں سے مقابلہ بھی جاری تھا اس کے باوجود فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے جدو جہد میں مصروف تھے۔ایک طرف انہیں حکومت کی بے پروائی‘بے نیازی بلکہ ہتک آمیز سلوک کا سامنا تھا تو دوسری طرف فلم ڈسٹری بیوٹرز تھے جو سستے داموں بھارت کی اعلیٰ ترین فلمیں درآمد کر کے کسی رسک کے بغیر بے شمار منافع کما رہے تھے۔ سینما گھروں کے مالکوں کارویہ بھی یہی تھا۔وہ بہر صورت پاکستانی فلموں کے مقابلے میں بھارت کی سپر ہٹ فلموں کی نمائش کو ترجیح دیتے تھے جو ان کے لئے منافع کا ذریعہ تھا۔فلم بینوں کی طرف سے بھی کوئی حوصلہ افزائی میسر نہ تھی۔عام آدمی تو بھارتی فلموں اور فن کاروں کے گلیمر کا رسیا تھا۔وہ دلیپ کمار‘راج کپور‘ مدھو بالا اور نرگس کوچھوڑ کر پاکستان کے گمنام فن کاروں کے اناڑی پن سے بنے ہوئی فلموں کو دیکھنے کیوں جاتا؟اس کے مقابلے میں تعلیم یافتہ طبقے نے دیکھے بغیر ہی پاکستانی فلموں کو مسترد کر دیاتھا اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ انتہائی بے مغز‘ بے مقصد اور غیرمعیاری ہوتی ہیں۔یہ لوگ انگریزی اور بھارتی فلمیں تو دیکھ لیا کرتے تھے مگر پاکستانی فلموں کے نام پر ناک بھوں چڑھاتے اور ہزاروں اعتراض جڑ دیتے تھے۔ سرکاری افسروں کا بھی یہی رویہ تھا۔ ان کے خیال میں اگر کچھ لوگ پاکستان میں فلمیں بنارہے تھے یا بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو انہیں دیوانہ یا جنونی ہی کہا جا سکتا ہے۔فلموں کے حوالے سے عام لوگوں کو‘خواص کو یہاں تک کہ اخبارات تک کو پاکستانی فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایک عجیب سرد مہری اور کسمپرسی کا عالم طاری تھا۔
ایسے میں جب ہالی ووڈ کی ایک بہت بڑی فلم ’’بھوانی جنکشن ‘‘ کو لاہور میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو ایک چہل پہل سی پید اہو گئی۔’’بھوانی جنکشن ‘‘کے فن کاروں اور ہدایت کار کو پاکستان میں بہت شہرت اور مقبولیت حاصل تھی۔ایوا گارڈنر لاہور کے فلم بینوں کی ’’ ڈارلنگ ‘‘ تھیں۔اسٹیورٹ گرینجر کی بھی کئی فلمیں ہٹ ہوچکی تھیں۔ ہدایت کار جارج کیوکراپنے میدان میں ماہر اور ہنر مند شخص سمجھے جاتے تھے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ہالی ووڈ کے فلم یونٹ کو کام کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اعلیٰ سرکاری حلقوں سے لے کر عوام اور اخبار نویسوں تک سبھی اس یونٹ کے انتطار میں بیٹھ گئے۔
’’بھوانی جنکشن ‘‘ کے لئے .... بہت وسیع پیمانے پر انتطامات کئے گئے مثال کے طور پر قریب قریب فلم کے چالیس نوجوان اور ذہین لوگوں کو معاون ہدایت کار کے طور پر بھرتی کیا گیا جن میں سے بعض آگے چل کر نامور ہدایت کار بنے۔فرید احمد‘قدیر جیسے ہدایت کاروں کو اسی فلم میں پہلی بار فلم سازی کا تجربہ حاصل ہوا تھا۔ان چالیس معاونوں کے سپرد مختلف کام تھے۔اسی شوٹنگ کے لئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایکسٹراؤں کی ضرورت تھی۔انہیں فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی معاون ہدایت کاروں پر ڈال دی گئی۔مقامی طور پر جتنے بھی کام ہو سکتے تھے وہ سب پاکستانیوں کے سپرد کر دئیے گئے۔ اس فلم میں کام کرنے والوں نے ہمت افزائی کے بعد فلمی صنعت کے مختلف شعبوں میں کام کیا اور بڑا نام پید اکیا۔نیلو نے پہلی بار اسی فلم میں ایک ایکسٹرا کے طور پر کام کیاتھا۔بعد میں انہوں نے حوصلہ پا کر پاکستانی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کئے اور پھر رقاصہ کے طور پر متعارف ہوئیں‘ یہاں تک کہ بہت بڑی اور مقبول ہیروئن بن گئیں۔اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔’’بھوانی جنکشن ‘‘ کے یونٹ کی پاکستان میں آمد تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھی۔جس کی تازگی نے بہت سے تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان ذہنوں کو فلمی صنعت کی طرف راغب کیا اور انہیں یہ احساس دلایا کہ فلم بھی ایک تخلیقی کام ہے اور ذریعہ عزت بن سکتی ہے۔
’’بھوانی جنکشن ‘‘ کا فلم یونٹ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔یہ اس زمانے میں لاہور کا بہترین ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔فلم یونٹ کے لئے ہوٹل کا بیشتر حصہ بک کر لیا گیا تھا جس میں اداکار‘ہنر مند اور یونٹ کے دوسرے افراد مقیم تھے۔ان لوگوں کے کھانے پینے کا بطور خاص بندوبست کیاگیاتھا۔پینے کے لئے پانی بھی بذریعہ ہوائی جہاز باہر سے منگایا جاتا تھا۔ہوٹل کے باورچی خانے کی بہت اچھی طرح صفائی کی گئی تھی اور باہر سے آئے ہوئے باورچیوں کی نگرانی میں کھانا تیار کیاجاتا تھا۔نظم وضبط کا یہ عالم تھا کہ اداکاروں سمیت ہر شخص کو رات نو بجے سو جانا پڑتا تھا کیونکہ کمروں کی روشنیاں بجھا دی جاتی تھیں۔صبح اٹھنے اور نا شتہ کرنے کے لئے بھی ایک وقت مقرر تھا۔ ایواگارڈنر کو بھی اسی وقت اٹھ کر تیار ہونا پڑتا تھا۔اس بات کی سخت نگرانی کی جاتی تھی کہ فلم یونٹ کے ارکان سے کوئی بھی ملاقات نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ ٹیلی فون پر بات کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ان تمام کاموں کے انچارج ایک ادھیڑ عمر لیکن نہایت محنتی اور اسمارٹ امریکن تھا جن کا نا م پال ملز تھا۔پال ملز اس فلم یونٹ کے مختار مطلق تھے۔ان کی مرضی کے مطابق پتا تک حرکت نہیں کر سکتا تھا۔پروڈکشن کے تمام انتظامات بھی ان ہی کے سپرد تھے جو وہ اپنے امریکی اور پاکستانی عملے کے ذریعے سر انجام دیاکرتے تھے۔ لیکن فلم کے سربراہ دراصل ہدایت کار جارج کیوکر تھے جن کے منہ سے نکلا ہو ا ہر لفظ حکم کی حیثیت رکھتا تھا۔وہ ایک جنرل کی طرح احکامات صادر کرتے تھے جن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مسٹر پال ملز اپنی فوج کے ساتھ موجود تھے۔
ہم بھی صحافی تھے۔ ایک ممتاز اخبار سے ہمارا تعلق تھا۔مغرب کے لوگ صحافیوں کو ویسے بھی بہت عزت اور اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اضافی سہولت حاصل ہو گئی تھی۔ وہ یہ تھی کہ پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے ایک انفارمیشن آفیسر آغا حسام الدین اکبر ہمارے بہت گہرے دوست تھے۔ انہیں حکومت کی جانب سے فلم یونٹ کو مشورے دینے پر مامور کیا گیا تھا۔پال ملز صاحب ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔وہ ہر وقت پال ملز کے پاس جا سکتے تھے اور ان کی ہر بات مانی جاتی تھی۔یہ حسام الدین اکبر صاحب فلموں کے بھی شوقین تھے اور ہمارے گہرے دوست بھی تھے۔جب وہ پال ملز کے مشیر مقرر ہوئے تو ہمارے مزے آگئے ’’سیاں بھئے کوتوال پھر ڈر کس کا ؟‘‘
اکبر صاحب نے سب سے پہلے تو ہمیں پال ملز سے ملوایا۔ہم بتا چکے ہیں کہ پال ملز تک رسائی کسی بڑے سے بڑے افسر تک کے لئے بھی ممکن نہیں تھی۔سچی بات یہ ہے کہ وہ صبح سے رات گئے تک مصروف رہتاتھا۔ اس کے پاس ٹیلی فون سننے کے لئے بھی وقت نہیں تھا۔کوئی بہت ایم ٹیلی فون کال ہی اس تک پہنچائی جاتی تھی۔لاہور کے بڑے بڑے لوگ (اور خواتین ) اس سے ملنے کی آس میں رہتے تھے کہ شاید اس بہانے ایواگارڈنر یا اسٹیورٹ گرینجر سے ملاقات ہو جائے مگر پال ملز کے پاس ان سے بات کرنے کی مہلت نہ تھی۔ایسے با اختیار اور مصروف شخص سے اکبر صاحب نے ہمیں بڑے معزز انداز سے ملایا۔انہوں نے فون کیا کہ وہ گاڑی لے کرہمارے دفتر پہنچ رہے ہیں جہاں سے ہمیں پال ملز کے پاس لے جائیں گے۔فلم یونٹ کی سروس میں بہت سی گاڑیاں تھیں۔اس زمانے میں لاہور میں صرف پرائیویٹ ٹیکسیاں ہوا کرتی تھیں۔یہ بڑی کاریں تھیں‘میٹر کا کوئی سوال نہیں تھا۔ باہر سے آئے ہوئے سیاحوں کے سوا کوئی ان کا بھاری کرایہ ادا نہیں کر سکتا تھا۔اکبر صاحب نے پہلے تو لاہور کی تمام پرائیویٹ ٹیکسیوں کو چند روز کے لئے کرائے پر حاصل کیا۔پھر راولپنڈی اور پشاور سے بھی پرائیویٹ ٹیکسیاں بھی منگائی گئیں۔اس کے باوجود ضرورت پوری نہ ہوئی تو اپنے جاننے والوں کی کاریں کرائے پر حاصل کر لیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور میں کاریں چند سو کی تعداد میں تھیں۔مال روڈ جیسی مصروف اور مشہور سڑک پر کھڑے ہو جائیں تو کافی دیر کے بعد کوئی کار گزر جاتی۔شہر میں کاروں کے مالک انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔
وقت مقررہ پر حسام الدین اکبر صاحب ہمارے دفتر پہنچ گئے۔وہاں سے فلیٹیز کا سفر پانچ منٹ سے زیادہ کا نہ تھا۔ فلیٹیز پہنچے تو دیکھا کہ ایک اژدھام ہے۔عورتیں‘ مرد‘ بچے‘امیر‘ غریب ہر قسم کے لوگوں کا مجمع لگا ہواہے۔ یہ سب فلمی ستاروں سے ملنے یا ان کی ایک جھلک دیکھنے کی آس پر صبح سے رات گئے تک کھڑے رہتے تھے۔ان میں دولت مند‘بااثر اور ممتاز لوگ بھی تھے۔سرکاری افسر بھی دیدار کے مشتاق تھے۔مگر یہ بے چارے ہوٹل کے برآمدے تک بھی نہیں پھٹک سکتے تھے ملاقات تو دور کی بات ہے۔
ہماری کار وہاں پہنچی تو مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا۔کار پورچ کے پاس جا کر رک گئی۔وہاں سے ہم پال ملز کے کمرے کی طرف چل پڑے جو ایک گوشے میں نچلی منزل پر تھا۔ہم ایسے علاقے میں سے گزر رہے تھے جہاں جاتے ہوئے بقول اکبر فرشتوں کے پر جلتے تھے۔ دور کھڑے لوگوں نے بڑی حسرت اور حسد سے ہمیں دیکھا۔ ہم حسام الدین اکبر صاحب کے ساتھ تھے اس لئے ہمارے لئے تمام بند دروازے کھلے ہوئے تھے۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)