ادبی و فلمی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔۔ قسط نمبر 96
یکایک ان کی نظر سبزی ترکاری یا گوشت کاٹنے والی ایک دس بارہ انچ لمبی چھری پر پڑی اور انہوں نے لپک کر وہ چھری اٹھالی اور چلے باہر کی طرف۔
ہم پھر ان کے بازو سے لٹک گئے۔ ’’محمد علی۔ کیا کرتے ہو!‘‘
انہوں نے ایک جھٹکے میں ہمیں دور پھینک دیا اور بالکل فلمی لہجے میں رعب سے بولے ’’ہٹ جاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل دیے۔ ہم ان کے پیچھے دوڑے۔
ریستوران میں کسی امریکی وسیٹرن کاؤ بوائے فلم والا سین نظر آ رہا تھا۔ یعنی ریستوران کے دروازے کی جانب سے چار خوفناک آدمی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور دوسری جانب ہمارا ہیرو لمبی سی چھری ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ ایک حملہ آور کے ہاتھ میں پستول بھی تھا جسے وہ بڑے ڈرامائی انداز میں گھما رہا تھا۔
مختلف فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز، قسط نمبر 95 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہم نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ حمایت علی شاعر بھی نظر نہ آئے۔ شاید وہ ایک بار پھر ’’پولیس۔ پولیس.... مدد کی ضرورت ہے‘‘۔ پکارنے کیلئے پچھلی گلی میں نکل گئے تھے۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اتنا ہم جان گئے کہ نہ تو محمد علی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی حملہ آور بازآئیں گے۔ یہ تصور کرکے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ وہ محمد علی کو گولی مار دیں گے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ فوری طور پر یہی سمجھ میں آیا کہ ریستوران کے اوپروالی منزل میں پہنچا جائیں تاکہ یہ دلدوز منظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچ گئے۔ دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ہاتھ پیر کانپ رہے تھ۔ ہم نے دونوں کانوں میں انگلیاں دے رکھی تھیں۔ آنکھیں بند تھیں اور فوری طور پر جو بھی دعائیں یاد آ رہی تھیں، پڑھ رہے تھے۔ بس ہر لمحے یہ ڈر تھا کہ کسی بھی لمحے گولی کی آواز آئے گی اور....
چند لمحے بالکل خاموشی طاری رہی۔ ہمارے دل کی دھڑکن کے سوا کوئی اور آواز نہیں تھی۔ کچھ دیر گزر گئی اور گولی کی آواز نہیں سنائی دی تو ہم نے حیران ہوکر آنکھیں کھول دیں۔ چاروں طرف دیکھا پھر سیڑھیاں اتر کر نیچے ہال کی طرف چلے۔
آخری سیڑھی پر پہنچے تو ہمیں ایک عجیب منظر نظر آیا محمد علی وہی لمبی سری چھری ہاتھ میں تھامے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور وہ سب حضرات الٹے قدموں دروازے کی طرف جا رہے تھے۔ ہمارے دکھتے ہی وہ چاروں ریستوران سے باہر نکلے اور کار میں بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔
ہم جذباتی ہوکر بے اختیار محمد علی سے لپٹ گئے۔ ان کی نگاہیں بدستور کسی چوکنا شکاری کی طرح دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ یکایک حمایت علی شاعر بھی کہیں سے نمودار ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ’’پولیس پولیس‘‘ پکارنے باہر گلی میں گئے ہوئے تھے۔
سب سے پہلے مینجر صاحب پانی کا ایک گلاس لیے ہوئے برآمد ہوئے ان کے بعد دوسرے بیرے بھی آگئے۔ وہ سب کے سب حیرت اور بے یقینی سے محمد علی کو دیکھ رہے تھے۔ ہماری طرح انہیں بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک نہتے شخص نے چار حملہ آوروں کو پسپا کردیا ہے جب کہ ان کے پاس پستول بھی تھا بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ لوگ دراصل محمد علی کو جان سے نہیں مارنا چاہتے تھے۔ محض دھمکا کر اپنے ساتھ لے جانے کے خواہش مند تھے۔ تاکہ گھر لے جاکر ان کی خوب ٹھکائی کی جائے۔ مگر محمد علی ان کی توقعات سے زیادہ جری اور بے جگر نکلے۔ ان کو یہ پتا چل گیا تھا کہ محمد علی پر شدید مزاحمت کے بغیر قابو نہیں پایا جاسکتا اور اس کوشش میں وہ زخمی بھی ہوسکتے ہیں۔
ہم نے چاروں طرف دیکھا۔ رشدی صاحب کا کوئی پتا نشان نہیں تھا۔ بیروں سے پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کردی۔ اب ہم چاہتے تھے کہ وقت ضائع کیے بغیر اپنے ہوٹل واپس پہنچ جائیں چونکہ ڈر تھا کہ وہ لوگ کہیں مزید امداد حاصل کرکے واپس نہ آجائیں۔ شکر ہے کہ محمد علی صاحب کے دماغ میں بھی یہ بات آگئی اور وہ رضا مند ہوگئے۔
ہم تینوں ریستوران سے باہر نکلے تو سب کے سب مسلح تھے محمد علی کے ہاتھ میں وہی لمبی سی چھری تھی۔ حمایت علی شاعر کو باورچی نے ایک بڑا سا کرچھا دے دیا تھا۔ ہمارے لیے وہ لوہے کا ایک بڑا سا ٹکڑا لے آئے تھے۔ مگر ہم دونوں کے ہتھیار بالکل بے کار تھے اس لیے کہ ان کا استعمال ہمارے بس سے باہر تھا۔
اب رات کے دو سوا دو بج گئے تھے۔ مال روڈ کا سناٹا کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ شاید اس میں ہمارا خوف بھی شامل تھا۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہوئے ہم تینوں انڈس ہوٹل پہنچ گئے۔ روبینہ ریستوران کے اسٹاف نے ہمارے باہر نکلتے ہی تمام روشنیاں بجھا کر دروازہ لاک کرلیا تھا۔ گویا ان کی طرف سے کسی اخلاقی امداد کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
انڈس ہوٹل کے سامنے دونوں پولیس کانسٹیبل لاٹھیاں اٹھائے کھڑے تھے۔ ہم تینوں کو دیکھا تو پوچھا ’’سر۔ ادھر سے آوازیں آ رہی تھیں۔ کیا کوئی جھگڑا ہوگیا تھا؟‘‘
ہمیں بہت غصہ آیا۔ کہا ’’بھئی وہاں اتنا ہنگامہ ہوا۔ قتل تک ہونے لگا تھا تم لوگوں نے آکر خبر بھی نہیں لی‘‘۔
بولے ’’سر جی۔ ہماری ڈیوٹی مال روڈ کی اس سائیڈ پر ہے۔ دوسری سائیڈ پر دوسرا تھانہ لگتا ہے‘‘۔
دوسرے سپاہی نے کہا ’’ہاں جی، وہ تھانہ سول لائنز کا علاقہ ہے‘‘۔
حمایت علی شاعر نے کہا ’’اگر وہاں کوئی مر مرا جاتا تو بھی تم اپنے علاقے میں کھڑے تماشا دیکھتے رہتے‘‘۔
اس نے کہا ’’سر۔ ہم تو ڈیوٹی کے پابند ہیں مگر آپ فکر نہ کریں۔ اس علاقے میں کوئی آئے تو بچ کر نہیں جاسکتا‘‘۔
حمایت صاحب نے کہا ’’اچھا دیکھو۔ اگر کچھ لوگ کار میں سوار ہوکر آئیں تو انہیں ہوٹل کے اندر مت جانے دینا‘‘۔
’’اجی آپ فکر ہی نہ کریں۔ اللہ پر بھروسا رکھیں‘‘۔
واقعی ہمارے ملک میں تو پولیس کا یہی حال ہے۔ اللہ پر ہی بھروسا رکھنا پڑتا ہے۔
ہم نے ہوٹل کے استقبالیہ پر بھی انہیں چوکنا رہنے کی ہدایت کی اور کمرے میں چلے گئے۔
محمد علی صاحب گرم پانی سے غسل کرکے سوگئے۔ ہم دونوں بھی رات کو اسی کمرے میں سوئے۔ صبح کو پتا چلا کہ دو تین بار چند لوگ آئے تھے اور محمد علی سے ملنا چاہتے تھے مگر ہوٹل والوں نے دروازہ لاک کرلیا تھا۔
دوسرے دن ہم سب کو یہ فکر ہوئی کہ آخر احمد رشدی صاحب کہاں غائب ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس ہنگامے میں ریستوران سے باہر نکل گئے تھے۔ خوش قسمتی یہ کہ کچھ فاصلے پر انہیں ایک رکشا بھی مل گیا۔ حالانکہ اتنی رات گئے رکشا کا مل جانا بھی معجزہ ہی تھا۔ ان کی خیریت سے آگاہی کے بعد اطمینان ہوگیا۔
چند روز ہماری رشدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ایک دن کسی فلم کے گانے کی ریہرسل کے سلسلے میں ای ایم آئی کے دفتر گئے تو وہاں رشدی صاحب ناہید نیازی کے والد سرور نیازی صاحب، لقمان صاحب، ناہید نیازی اور مصلح الدین موجود تھے۔ لقمان کی فلم کے کسی دوگانے کی رہرسل ہو رہی تھی رشدی صاحب ہمارے پہنچنے سے پہلے سب کو اس رات کا واقعہ سنا چکے تھے اور حمایت علی شاعر اور ہماری گھبراہٹ کا مبالغہ آمیز نقشہ بھی کھینچ چکے تھے۔ ہمیں دیکھا تو وہ سب مسکرانے لگے۔ آئیے آفاقی صاحب۔
’’بھئی بڑے ہنگامے کرنے لگے ہیں آپ!‘‘
رشدی صاحب پر نظر پڑی تو ان کے چہرے پر چوٹ کا نشان نظر آیا۔ غنیمت ہے کہ تمام جھگڑے میں موجود رہنے کے باوجود ہم صحیح سلامت رہے تھے۔
’’بھئی رشدی صاحب، آپ اس رات کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
کہنے لگے’’ میں ریستوران سے باہر نکلا تو ایک رکشا مل گیا۔ بس گھر چلا گیا‘‘۔
ہم نے کہا ’’یار بڑے افسوس کی بات ہے تمہاری وجہ سے جھگڑا ہوا اور تم ہی محمد علی اور ہم سب کو چھوڑ کر بھاگ گئے!‘‘
وہ کچھ شرمندہ سے ہوگئے۔
لقمان صاحب نے کہا ’’یہ تو کہتے ہیں کہ تمہاری اور حمایت علی شاعر کی ڈر کے مارے بری حالت تھی‘‘۔
ہم نے کہا ’’انہوں نے ہماری حالت کہاں دیکھ لی۔ یہ تو پہلے ہی رخصت ہوگئے تھے‘‘۔ اس کے بعد ہم نے تفصیل سے اس رات کے ہنگامے کی منظر کشی کی۔ یہ بھی بتایا کہ ہم ریستوران کے بالائی حصے پر کانوں میں انگلیاں دے کر جا بیٹھے تھے اور حمایت علی شاعر ’’پولیس پولیس‘‘ پکارنے پچھلی گلی میں چلے گئے تھے۔ سب کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)