فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 278

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 278
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 278

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سردی ہویا گرمی، محمد علی صبح سات بجے تیار ہو کر شوٹنگ کے لئے اسٹوڈیو پہنچ جاتے تھے حالانکہ عام طور پر فلمی ہیرو اور ہیروئنیں دس بجے کی شفٹ پر بھی گیارہ بارہ بجے پہنچ جائیں تو فلم ساز خوش قسمتی تصوّر کرتے تھے۔ رات کو وہ دس بجے کے بعد بھی بارہ ایک بجے تک شوٹنگ میں مصروف رہنا چاہتے تھے۔ دوسرے ساتھی اداکار تنگ تھے مگر محمد علی کی مثال سامنے تھی۔ ہر فلم سازکا یہی کہناتھا کہ جب محمد علی صبح سات بجے سے رات کے ایک بجے تک شوٹنگ کرسکتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اس دلیل کے آگے کسی کو جواب نہیں سوجھتا تھا۔ اس طرح محمد علی نے علی الصبح سات بجے سے رات کے بارہ ایک بجے تک کام کر نے کی روایت کی داغل بیل ڈالی تھی۔
بہت کم لوگ یہ اندازہ کرسکتے تھے کہ محمد علی خود کو کیوں ہمہ وقت مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ رات کو بارہ ایک بجے گھر پہنچنے کے بعد بھی وہ سونا نہیں چاہتے تھے۔ نیند کو جیسے ان سے دشمنی ہوگئی تھی۔ خدا جانے رات کے پچھلے پہر وہ کس وقت سوتے تھے اورمنہ اندھیرے اٹھ کر شہسواری یا واک کیلئے نکل جاتے تھے۔ وہ خود کو مصروفیات کے سمندر میں غرق کردینا چاہتے تھے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 277  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اُدھر زیبا کی بھی سن لیجئے۔
زیبا نے سدھیر سے شادی کرلی تو کچھ عرصے بعد انہیں احساس ہوا کہ سدھیر ایک خاص ڈسپلن کے عادی ہیں۔ان کی بیوی ہوتے ہوئے زیبا پرکچھ پابندیاں عائد ہوگئی تھیں۔ وہ جب بھی شوٹنگ کیلئے اسٹوڈیو جاتی تھیں ایک چوکنّا اور مُستعد ملازم ان کے ہمراہ ہوتاتھا جوان کے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھتا تھا۔ خود زیبا بھی سیٹ پر بہت لیے دیے رہنے لگی تھیں۔ کہاں تو وہ ہر دم چہکنے والی زیبا جن کی موجودگی سے سیٹ پر رونق سی لگ جاتی تھی۔ جوہنسنے ہنسانے، باتیں کرنے اور فقرے چُست کرنے میں ماہر تھیں اور کہاں یہ زیبا جو سنجیدگی کا نمونہ بن گئی تھیں۔ بلا ضرورت کسی سے بات نہیں کرتی تھیں۔ دوسرے لوگ بھی بہت محتاط ہوگئے تھے۔ آخر وہ لالہ سدھیر کی بیگم تھیں۔ ہر ایک کو علم تھا کہ سدھیر صاحب ان معاملات میں پرانی قدروں کے قائل ہیں۔ اس لئے دوسرے لوگ بھی زیبا کے ساتھ ایک احترام آمیز فاصلہ رکھنے لگے تھے۔
ایک دن ہم کسی فلم کے سیٹ پر گئے تو زیبا وہاں موجود تھیں۔ ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائیں۔ وہ شاٹ دے کر فارغ ہوئیں تو ہم حسب عادت ان کے پاس چلے گئے۔ دو چار اِدھر اُدھر کی باتیں کیں مگر جواب میں نہ کوئی فقرہ چست کیا گیا، نہ ان کی کھنکتی ہوئی ہنسی کی آوازسنائی دی۔ وہ خاصی سنجیدہ اورمتین نظر آئیں۔ پھروہ شاٹ دینے کیلئے کیمرے کے سامنے پہنچ گئیں۔ اس کے بعد بھی ان سے ملنے کا اتفاق ہوا مگر پہلے والی زیبا اور اس زیبا میں ہمیں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوا۔
ایک روز وہ ایورنیو اسٹوڈیو میں ہمیں ملیں اور سیٹ پر جاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزریں تو ہم بھی علیک سلیک کرنے کے بعد ان کے ہمراہ چلنے لگے۔
سیٹ پر داخل ہونے سے پہلے انہوں نے ہم سے کہا’’آفاقی۔ کسی وقت مجھ سے مل لینا۔‘‘
کچھ دیر کے بعد ہم ان کے سیٹ پر پہنچے تو وہ قدرے فارغ تھیں اور ایک طرف صوفے پر تشریف فرما تھیں۔ ہمارے لئے انہوں نے اپنے ملازم سے کافی لانے کو کہا۔ اس کے جانے کے بعد ہم ان سے باتیں کرنے لگے مگر یوں محسوس ہوا جیسے وہ کچھ کھوئی کھوئی سی ہیں۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں مگر رُک جاتی ہیں۔ اس زمانے میں ہر شخص ان سے نہایت سنجیدگی سے بات کرتا تھا۔ بلاضرورت ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتاتھا۔ ہماری شہرت یہ تھی کہ سبھی سے ملاقات اور بے تکلّفی تھی اور ہم ایک معقول اور بے ضرر شہرت رکھتے تھے۔ اس لئے نہ تو ہمیں ان سے ملتے ہوئے کوئی جھجک محسوس ہوئی اور نہ ہی انہوں نے ہم سے زیادہ تکلّف برتا۔ اس دوران میں سدھیر صاحب بھی سیٹ پر چلے آئے۔ ان سے بھی گپ شپ ہوتی رہی اور ہم نے کچھ لطیفے بھی عرض کردیئے۔ زیبا بہت عرصے بعد کسی سیٹ پر کھلکھلا کر ہنستی ہوئی نظر آئیں۔ سدھیر صاحب نے بھی انجوائے کیا۔
ہم سیٹ پر سے چلے آئے مگرہمیں محسوس ہوا کہ زیبا یہ انتہائی اہم قدم اٹھانے کے بعد خوش نہیں ہیں۔ وہ ایک آزاد پنچھی کے مانند زندگی بسر کرنے کی عادی تھیں مگر اب انہیں معاشرتی بندھنوں کے پنجرے میں بند کردیا گیاتھا۔ یہ طرز زندگی ان کیلئے یکسر مختلف اور انوکھا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود اس سے مانوس اور نئے طور طریقوں کی عادی نہیں ہوسکی تھیں۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ سدھیر صاحب ان کا خیال نہیں رکھتے تھے یا ان سے محبت نہیں کرتے تھے۔ اپنی عادت اور معمول کے برعکس وہ اکثر ان کا لنچ لے کر اسٹوڈیو چلے آتے تھے۔ جب تک زیبا گلبرگ میں اپنی کوٹھی میں مقیم رہیں ہم جب بھی وہاں گئے سدھیر صاحب کو ان کی خاطر مدارت میں مصروف پایا مگر یہ سب کچھ زیبا کو خوشی اور اطمینان نہ دے سکا تھا۔
ہمیں کسی فلم کے سلسلے میں بیرون ملک جانا پڑا۔ واپس کراچی پہنچے اور حسب معمول الیاس رشیدی صاحب سے ملاقات کیلئے ان کے دفتر پہنچے تو وہاں کافی عرصے بعد زیبا کے بھائی سے ملاقات ہوئی۔ اس سے پہلے الیاس بھائی اورزیبا کے مابین تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ یہ سدھیر صاحب کے ساتھ زیبا کی شادی سے پہلے کا قصّہ ہے مگر اس وقت زیبا اور سدھیر ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہو چکے تھے۔ ’’ہفت روزہ نگار‘‘ میں زیبا کے بارے میں ایک خبر کی اشاعت پر زیبا کا مزاج برہم ہوگیا اور بات بڑھ گئی۔ اس میں سدھیر بھی ملوّث ہوگئے اور الیاس رشیدی صاحب کو یہ احساس ہواکہ وہ سدھیر صاحب کی شہ پر ان کے ساتھ جھگڑا بڑھا رہی ہیں۔ بہرحال، یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا جس کی صدائے باز گشت تمام فلمی صنعت میں سنی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد زیبا اور الیاس بھائی کے مابین بول چال بند ہوگئی اور تعلقات بالکل منقطع ہوگئے۔ اب جو ہم نے زیبا کے بھائی کو الیاس صاحب کے دفتر میں دیکھا تو کچھ حیرت بھی ہوئی۔ وہ بے حد غمگین اور پریشان نظر آ رہے تھے اور الیاس صاحب کو بتا رہے تھے کہ زیبا کی حالت بہت نازک ہے۔ وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں زیر علاج ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے۔
الیاس صاحب نے گول مول وعدہ کرلیا۔ بعد میں ہم نے اور دوسرے دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ اگرزیبا کی طبیعت واقعی خراب ہے او ر وہ گزشتہ واقعات پر اظہار ندامت کرنے کی خواہش مند ہے تو انہیں ضرور ملاقات کر لینی چاہئے۔ زیبا کی شدید بیماری کی خبر نے الیاس صاحب کو بھی کافی پریشان کردیاتھا۔
کچھ دیر بعد زیباکی والدہ لالی جی کا ٹیلی فون آگیا۔ وہ اسپتال سے بات کر رہی تھیں۔ انہوں نے بھّرائی ہوئی آواز میں الیاس صاحب کو زیبا کی علالت کے بارے میں بتایا اور پھراصرارکیا کہ وہ غصّہ تھوک دیں اور فوری طور پر اسپتال آجائیں۔ اس ٹیلی فون نے الیاس صاحب کا رہا سہا غصہ بھی ختم کردیا۔
وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کر اسی وقت اسپتال پہنچ گئے۔ ایم اے جناح روڈ پرایک مہنگا پرائیویٹ کلینک تھا۔ دوسری منزل پر پہنچے تو گیلری میں ہی لالی جی مل گئیں۔ وہ انتہائی پریشان اور غم زدہ نظر آرہی تھیں۔ ہم دونوں کودیکھا تو آنسو ضبط نہ کرسکیں۔ جب انہوں نے زیبا کی شدید علالت اور کمزوری کے بارے میں قدرے تفصیل سے بتایا تو ہم بھی سچ مچ پریشان ہوگئے۔
زیبا کے کمرے میں گئے تودیکھا کہ بیڈ پر ایک ہڈّیوں کا ڈھانچہ دراز ہے۔ وہ بے حد کمزور اور لاغر ہوگئی تھیں۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، چہرہ بے رونق تھا۔ ہم تو ان کی حالت دیکھ کر واقعی گھبرا گئے۔ الیاس صاحب بھی اپنا غصّہ اورشِکوہ بھول گئے۔ انہیں اس حال میں دیکھنے کا ابتدائی صدمہ کم ہوا تو ہم نے ان کا حوصلہ بڑھانے کیلئے گپ شپ کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک دو لطیفے سنائے ،وہ پہلے مسکرائیں اور پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگیں مگر ایک دم ان کی سانس پھول گئی اور انہوں نے کھانسنا شروع کردیا۔ ہم سب گھبرا گئے۔ نرس کمرے میں ہی موجود تھی اس نے فوراً ان کا سر اور کمرسہلائی اور دوائی پلائی۔
لالی جی ہمیں اشارے سے بلا کر کمرے سے باہر لے گئیں اور بولیں ’’آفاقی! زیادہ نہ ہنساؤ۔ اس میں تو ہنسنے کی طاقت بھی نہیں ہے۔‘‘
لالی جی نے بتایاکہ بظاہر کوئی تشویش ناک بیماری نہیں ہے مگر کمزوری بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کے ذہن پر کوئی بوجھ ہے۔ کوئی صدمہ ہے جو اسے اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ زیبا لاہور سے واپس آنے کے بعد دوبارہ اس گھر میں جانے پر رضا مند نہیں ہے۔ اسپتال میں اس روز ہمیں سدھیر صاحب بھی نظر نہیں آئے۔ نہ ہی ان کا ذکر آیا۔ یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی تھیں کہ زیبا اور سدھیر کی زندگی ایک اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے اور زیبا نے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں کوئی نیا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسرے دن ہم کراچی سے لاہور چلے آئے مگر ٹیلی فون پر الیاس صاحب سے رابطہ رہا۔ معلوم ہوا کہ زیبا بتدریج روبہ صحت ہو رہی ہیں۔ کچھ دن بعد وہ کلینک سے اپنے گھر منتقل ہوگئیں اور رفتہ رفتہ بالکل ٹھیک ہوگئیں۔ کچھ عرصے بعد وہ لاہور آئیں تو بہت حد تک ان کی پہلے والی صحت بحال ہو چکی تھی۔ چہرے کی رونق اور تازگی کے ساتھ ساتھ ان کی خاموشی اور سنجیدگی میں بھی کمی پیدا ہو چکی تھی اور پہلے جیسی گپ شپ اور شوخیاں ان کا معمول بن گئی تھیں۔ اسی زمانے میں یہ خبر آئی کہ زیبا اور سدھیر میں طلاق ہوگئی ہے۔ اس طرح زیبا کی زندگی کا یہ باب ختم ہوگیا۔
انہوں نے دوبارہ فلموں میں کام کرنا شروع کردیا اور فلموں کی بھرمار ہوگئی۔ کئی فلموں میں وہ محمد علی کے ساتھ ہیروئن کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ان کی فلمی جوڑی پاکستان کی سب سے مقبول فلمی جوڑی بن گئی تھی مگر دیکھنے والوں نے ان دونوں کے باہمی تعلقات میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ وہ بلا ضرورت ایک دوسرے سے مخاطب نہیں ہوتے تھے۔ نہ ہی انہیں فلم کے سیٹ کے علاوہ، کبھی یک جا دیکھا گیا۔ محمد علی ابھی تک کنوارے تھے اور بظاہر زیبا کا بھی شادی کے بندھن میں دوبارہ بندھنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتاتھا مگر اندر ہی اندر ایک کھچڑی پک رہی تھی جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 278 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں