فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 219

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 219
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 219

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم ڈھیر ساری ٹافیاں اور لیمن ڈراپس بچّوں کے لئے خرید کر لائے تھے۔ سوچا تھا کہ جب کافی دیر ہو جائے گی اور وہ بور ہونے لگیں گے تو ٹافیوں سے ان کو بہلایا جائے گا مگر ان کی سرگرمیاں خطرے کی حدوں کو چھونے لگی تھیں لہٰذا انہیں ٹافیاں تقسیم کر دی گئیں۔ انہوں نے کچھ دیر تو بہت تمیز تہذیب کا مظاہرہ کیا پھر آپس میں چھینا جھپٹی شروع کر دی۔ لڑکوں نے لڑکیوں سے ٹافیاں چھین لیں اور انہوں نے رو رو کر اسٹوڈیو کو سر پر اٹھا لیا۔ مجبوراً انہیں بہلانے کو مزید ٹافیاں بانٹی گئیں۔ اب ان بچّوں کو سیٹ پر پہنچا دیا گیا تھا اور گانے کی فلم بندی شروع ہو چکی تھی مگر بچّے بھلا کہاں قابو میں آتے ہیں۔ انہوں نے میز پر رکھے ہوئے قیمتی کھلونوں سے چھیڑچھاڑ شروع کر دی۔ اب مشکل یہ تھی کہ بچے زیادہ تھے اور کھلونے کم۔ یہ کھلونے ہم مال روڈ پر کمرشل مارکیٹ کی ایک بڑی دکان سے لائے تھے۔ اس زمانے میں امپورٹڈ کھلونے عموماً دستیاب نہیں ہوتے تھے، صرف یہی دکان فروخت کرتی تھی اور وہ بہت مہنگے تھے، ہم ان کھلونوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچانا چاہتے تھے اور سارا اسٹاف ان کی حفاظت پر مامور تھا۔ یکایک ایک بچّے نے صبیحہ خانم کے پاس جا کر چھنگلیا دکھائی اور کہا ’’مس۔۔۔ باتھ روم؟!‘‘

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 218  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صبیحہ خانم کو بے اختیار ہنسی آ گئی، شوٹنگ شروع ہو چکی تھی مگر شوٹنگ روک کر بچے کو باتھ روم جانے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر کیا تھا، ہر بچے نے انگلی دکھانی شروع کر دی اور سیٹ ’’مس۔۔۔ باتھ روم؟!‘‘ کے شور سے گونج اٹھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مختلف دفاتر میں باتھ روم تو تھے مگر تمام دفتر کھلے ہوئے نہیں تھے۔ بچّے باتھ روموں کی تلاش میں سارے اسٹوڈیو میں بکھر گئے۔ انہوں نے لان میں فواروں کے پاس کھیلنا شروع کر دیا۔ کوئی سیڑھیوں پر سے پھسل رہا ہے، کوئی فوارے کے حوض میں نہانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
طارق صاحب نے کہا ’’ان سب کو گھیر کر لاؤ۔ یہ تو اپنے کپڑے خراب کر لیں گے۔‘‘
کافی دیر کے بعد بچّوں کو اکٹھا کیا گیا۔ ٹیچرز نے گنتی کی تو تین بچے کم تھے۔ اب ان کی تلاش شروع کر دی گئی، وہ باہر مٹھائی والے کی دکان پر پائے گئے۔
دوپہر کا کھانا بھی ایک مرحلہ تھا، ہم بچّوں کو ٹافیاں بانٹ بانٹ کر تھک گئے تھے اور ٹافیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔ طارق صاحب نے یہ ترکیب سوچی کہ بچّوں کے ساتھ کمبائنڈ شاٹس جلدی جلدی کسی طرح فلمائے اور پھر شیطانوں کے اس گروہ کو شکریے کے ساتھ فارغ کر دیا۔ باقی شوٹنگ صبیحہ خانم اور ان کے بچّے کے ساتھ کی گئی۔
یہ محمد علی کا بچپن تھا۔ اس شوٹنگ میں جن بچّوں نے حصّہ لیا تھا وہ سب اب بڑے ہو گئے ہیں، ان کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ خود بھی ماں باپ بن چکے ہیں مگر کنیز کی اس شوٹنگ کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں کلبلاتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں ہمیں کئی خواتین نے روکا اور مخاطب کیا ’’انکل! آپ نے مجھے پہچانا۔‘‘
اب انکل ہیں کہ انہیں سر سے پیر تک غور سے دیکھ رہے ہیں اور یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’میرا نام پپّی ہے!‘‘
’’پپی؟!‘‘ ہم نے بہتیرا دماغ پر زور ڈالا۔ صرف ایک پپّی ہمیں یاد آئیں جو شباب کیرانوی کی صاحب زادی تھیں۔ انہوں نے بھی شباب صاحب کی ایک فلم میں چار پانچ سالہ بچی کے طور پر حصہ لیا تھا مگر پپی کو ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں تو پھر یہ کون پپی ہیں۔
’’انکل! میں نے آپ کی فلم ’’کنیز‘‘ میں سالگرہ کی شوٹنگ میں حصہ لیا تھا‘‘ آخر انہوں نے خود بھید کھول دیا۔
’’اچھا تم وہی ہو جو حوض میں گرنے والی تھیں اور جس نے تیس چالیس ٹافیاں کھائی تھیں؟‘‘ ہمیں یاد آ گیا۔
وہ ہنسنے لگیں ’’آپ نے خوب پہچانا مگر دیکھئے حوض میں گرنے والی بات میرے ہزبینڈ کے سامنے نہ کیجئے، ان سے ملیے، یہ میرے ہزبینڈ ہیں۔ ڈاکٹر ہیں اور یہ میرے دو شریر بچے‘‘ انہوں نے اپنی پوری فیملی سے تعارف کرا دیا۔
اس طرح اور بھی کئی حضرات اور خواتین ہم سے ملتے رہتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی ایک عزیز نے فون کرکے فرمائش کی کہ ’’کنیز کا ویڈیو ہو تو مجھے بھی دیجئے۔ یہ کہاں سے ملے گا، میری بیٹی جرمنی میں ہے، اس نے سالگرہ کے گانے میں حصہ لیا تھا، میں اس کو بھیجنا چاہتا ہوں۔‘‘
ماڈل ٹاؤن کے ایک اسکول کے پرنسپل صاحب تو ہر چند سال کے بعد ہمارے پاس چند نام لے کر آ جاتے تھے کہ ان کی تصویریں درکار ہیں۔ ان کے ماں باپ نے مانگی ہیں اور ہم ہر بار انہیں سمجھاتے تھے کہ شوٹنگ میں حصہ لینے والے بچّوں کی تصویریں نہیں بنائی گئی تھیں۔
اس سالگرہ والے سین کے آخر میں ہی اچانک خبر آتی ہے کہ سنتوش کمار کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ خوشی کا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ طارق صاحب نے موت کی اس خبر کو اُجاگر کرنے کے لیے جہاں مختلف انداز سے تاثر پیدا کیا تھا وہیں ایک یہ بھی تھا کہ آرائش کے لئے سجے ہوئے غبارے اچانک پھوٹنے لگتے ہیں۔ اس شاٹ کے ختم ہوتے ہی سیٹ پر موجود رہے سہے بچّوں نے رونا شروع کر دیا تھا۔ پوچھا بھئی کیا بات ہے؟
روتے ہوئے بولے ’’دیکھئے! انہوں نے ہمارے غبارے پھوڑ دیئے!‘‘
چنانچہ باقی ماندہ غبارے انہیں دے دیئے گئے تاکہ ان کا غم غلط ہو۔ یاد آیا اس شوٹنگ کے لئے ہم نے بلا مبالغہ ہزاروں غبارے منگوائے تھے۔ غباروں میں گیس بھرنے والے کو بھی اسٹوڈیو میں ہی بلا لیا گیا تھا۔ ہر بچے کی فرمائش تھی کہ اسے بھی غبارے دیئے جائیں چنانچہ انہیں بھی غبارے ہوا بھر بھر کر دیئے گئے۔ آج سے 45-40 سال پہلے غبارے بچوں کی دلچسپی کا بہت بڑا سامان تھے۔ اب تو وہ ہوائی جہاز سے کم کسی کھلونے سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔
کنیز کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات بھی بتا دینا ضروری ہے۔ اس فلم میں اس وقت کے کئی ممتاز فن کاروں نے ایک ایک دو دو تین پر مشتمل کرداروں میں مہمان اداکاروں کے طور پر کام کیا تھا۔ پاکستان کی کسی اور فلم میں اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد اتنے بہت سے بڑے اداکار یکجا کئے گئے۔ مثال کے طور پر سنتوش کمار جیسے فنکار نے اس فلم میں نوابزادہ سلیم کا مختصر سا کردار ادا کیا تھا۔ خاندانی ڈاکٹر کے کردار میں ساقی صاحب تھے۔ یہ وہی ڈاکٹر ہے جس نے انور کی شادی کے موقع پر گواہی دی تھی کہ انور صبیحہ خانم ہی کا بیٹا ہے۔ صبیحہ خانم کی ماں کے کردار میں صابرہ سلطانہ تھیں۔ یہ بہ مشکل چار مناظر پر مشتمل کردار تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ صابرہ سلطانہ اس زمانے میں فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کرتی تھیں۔
اسلم پرویز اس وقت کے ہیرو تھے۔ اس فلم میں دو سین کا ایک کردار تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کے گھر میں صبیحہ خانم حویلی سے نکالے جانے کے بعد ملازمت کرتی ہیں اور وہ بدنیت اور بدنظر ہو جاتا ہے تو وہ اسے تھپّڑ مار کر نوکری چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔
اس کردار کے لئے کوئی بھی چھوٹے کردار کرنے والا ایکٹر مل سکتا تھا، سیٹ تیار ہو گیا۔ طارق صاحب نے دیکھ کر پسند کیا پھر ہم سے بولے ’’آفاقی صاحب! اس کیریکٹر کے لئے کسے لیا جائے؟‘‘
ہم نے کہا ’’اسٹوڈیو میں درجنوں اداکار گھومتے پھرتے ہیں جو بہت اچھے ایکٹر ہیں۔‘‘
شرارت انگیز مسکراہٹ سے بولے ’’اس کیریکٹر کے لئے اسلم پرویز نہیں مل سکتا؟‘‘
ہم نے چونک کر انہیں دیکھا ’’طارق صاحب! اسلم پرویز ہیرو ہے۔ دو سین کا ولن کے انداز کا یہ کردار وہ کیوں کرے گا؟‘‘
’’آپ کوشش تو کریں۔وہ بولے۔‘‘
ہم نے پریشان ہو کر کہا ’’مگر یہ تو زیادتی ہوگی۔ اس کیریکٹر کے لئے اسلم پرویز سے بات کرتے ہوئے ہمیں شرم آئے گی۔‘‘
مگر طارق صاحب کہاں ماننے والے تھے۔
کچھ دیر بعد ہی اسلم پرویز اسٹوڈیو میں نظر آئے۔ ہمیشہ کی طرح خوش لباس۔ خوش گفتار۔ خوش اطوار۔
’’ٹھاکر! آپ کی شوٹنگ کیسے چل رہی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے کہا ’’بالکل ٹھیک چل رہی ہے۔‘‘
بولے ’’کوئی بات نہیں ٹھاکر۔۔۔ آپ کی فلم میں ہمارے لئے کوئی کام نہیں ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’اسلم صاحب! یقین کیجئے، کہانی کے مطابق کوئی گنجائش نہیں تھی ورنہ۔۔۔‘‘
کہنے لگے ’’آپ کی پہلی فلم میں ہم نہ ہوں۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ ہمیں تو اگر آپ کہیں کونے میں کھڑا کر دیتے تو بھی خوش ہو جاتے۔‘‘
ہم نے جھجکتے ہوئے کہا ’’رسمی بات کر رہے ہیں یا سچ کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’آزما کر دیکھ لیجئے۔‘‘
ہم نے ہمّت کرکے کہا ’’کل ایک سیٹ پر صبیحہ خانم کے ساتھ دو سین کا کردار کر لیں؟‘‘
’’کیا کیریکٹر ہے؟‘‘ انہوں نے دلچسپی سے پوچھا۔
ہم نے انہیں بتا دیا کہ ایک بدقماش پیسے والے کا کردار ہے۔
انہوں نے ایک لمحے سوچا پھر مسکرائے ’’کیا واقعی۔۔۔ آپ مجھ سے یہ کیریکٹر کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
ہم نے کہا ’’اگر کر دیں گے تو ہم بھی یاد رکھیں گے۔‘‘
’’اوکے‘‘ وہ بولے ’’کل شوٹنگ کس وقت ہے؟‘‘
’’صبح دس بجے۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ کل تو میری ایک اور شوٹنگ بھی ہے۔‘‘
ہم نے جلدی سے کہا ’’تو پھر ہم رات کو رکھ لیتے ہیں۔ تھوڑی سی دیر کا تو کام ہے۔‘‘
وہ اپنے خصوصی دلنواز انداز میں ہنسے اور بولے ’’ارے نہیں آفاقی صاحب! یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، آپ کی شوٹنگ صبح ہوگی، میں دوسری شوٹنگ رات کو رکھوا لوں گا۔‘‘
ہم ان کی شکل دیکھتے رہ گئے۔ اس قدر اعلیٰ ظرف انسان کم ہی ہوتے ہیں اور اتفاق سے ان کم کم لوگوں ہی سے ہمارا واسطہ پڑتا رہا، اللہ انہیں جنّت نصیب کرے۔ وہ کسی پس و پیش کے بغیر ہی مان گئے تھے۔
’’ڈریس کیا ہوگا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم ابھی تک بے یقینی کے عالم میں تھے۔ چونک کر کہا ’’ایک تو سوٹ ہوگا جب آپ دفتر جا رہے ہیں۔ دوسرا نائٹ گاؤن اور سلیپنگ سوٹ۔‘‘
بولے ’’امیر آدمی ہے نا؟ ٹھیک ہے۔ میرے پاس بہت اچھے نائٹ گاؤن ہیں۔ کل صبح دس بجے پہنچ جاؤں گا مگر دیکھئے وعدے کے مطابق دوپہر تک فارغ کر دیجئے گا۔‘‘
ہم فوراً اپنے کمرے میں طارق صاحب کو مطلّع کرنے کے لئے دوڑے دوڑے گئے۔ وہ پروڈکشن منیجر سے مخاطب تھے ’’رحیم! وہ لمبے قد والا لڑکا ہے نا۔ وہی جو فلموں میں ڈاکٹر بنتا ہے اس کو صبح بلا لو۔‘‘
ہم نے کہا ’’طارق صاحب! اس رول کے لئے تو آپ نے اسلم پرویز کا کہا ہے۔‘‘
وہ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
ہم نے بتایا ’’اسلم صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ وہ صبح دس بجے پہنچ جائیں گے۔‘‘
طارق صاحب ہمیں تکتے ہی رہ گئے۔
لہری صاحب اس زمانے میں بھی بڑے اور مقبول کامیڈین تھے وہ بھی خوش لباس اداکاروں میں تھے۔
’’آفاقی بھائی! آپ کی پہلی فلم ہو اور اس میں ہم نہ ہوں‘‘ انہوں نے بڑے خلوص سے محبت بھرا شکوہ کیا۔
’’یقین کیجئے لہری بھائی! کہانی میں آپ کے لائق کوئی کامیڈی کردار ہی نہیں ہے۔‘‘
’’ارے آپ تو رائٹر ہیں، آپ کے لئے کیریکٹر نکالنا اور ڈالنا کون سا مشکل ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’کالج کے سینوں میں ایک کردار بن سکتا ہے مگر چند سین ہی ہوں گے۔‘‘
وہ بولے’’تو پھر کیا ہوا۔ اگلی فلم میں اس کی کمی پوری کر دیجئے گا۔‘‘
اس طرح لہری صاحب کے کردار نے جنم لیا۔ کالج کے مناظر میں ان کے لئے دلچسپ کردار کی گنجائش نکال لی۔ یہ محمد علی اور وحید کا کلاس فیلو ہے۔ بات بات پر شرط لگاتا ہے اور اس طرح کہ کسی سے ہارنے پر شرط ہے تو کسی سے جیتنے پر یعنی نقصان سے بالکل محفوظ۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 220 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں