فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 191
حمایت علی شاعر ان دنوں کراچی میں رہتے تھے۔ نام ہی کے نہیں‘ کام کے بھی شاعر تھے۔ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ معقول اور شائستہ انسان تھے۔ نوجوان ہی کہنا چاہئے۔ سانولی رنگت‘ لمبے بال جنہیں وہ ہر وقت انگلیوں کی مدد سے سمیٹ کر پیچھے کی جانب کرتے رہتے تھے۔ بول چال نہایت دلکش‘ شاعر بھی بہت اچھے اور نامور تھے۔ خلیل احمد کو کراچی میں ایک فلم ساز نے اپنی فلم میں موسیقی ترتیب دینے کیلئے بلایا تو حمایت علی شاعر سے ان کا واسطہ پڑ گیا۔ ان دونوں کے اشتراک سے بہت اچھے نغمات نے جنم لیا۔ مثلاً
کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
اور ان کی اس غزل نے تو قیامت ہی ڈھا دی تھی جس کی خلیل احمد نے نہایت سادہ لیکن خوبصورت دھن بنائی تھی۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 190 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہر قدم پر ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لئے کیجئے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو‘ سنتے ہیں‘ سنبھل جاتے ہیں لوگ
میڈم نور جہاں کی آواز نے ایسا سحر طاری کیا کہ دھن اور بولوں کے امتزاج سے ایک یادگار نغمہ وجود میں آ گیا۔
برسبیل تذکرہ یہ بھی سن لیجئے کہ یہ گیت اس زمانے میں ہر ایک کی زبان پر تھا۔ جسے دیکھئے گا رہا ہے یا گنگنا رہا ہے۔ اداکارہ طلعت صدیقی کراچی سے لاہور آئیں تو ایک نجی محفل میں انہوں نے بھی یہ غزل گائی اور خوب گائی۔ بلکہ حق ادا کر دیا۔ حمایت صاحب بھی موجود تھے اور چند اور احباب بھی تھے۔ سماں بندھ گیا۔ ہمیں تو پہلی بار طلعت صدیقی کی اس خوبی کا علم ہوا کہ اداکاری کے ساتھ ساتھ وہ گلوکاری کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے گلوکاری کو کبھی نہیں اپنایا۔ کافی عرصے بعد ان کی بیٹی عارفہ صدیقی نے اداکارہ کے طور پرفلمی دنیا میں قدم رکھا تھا مگر پھر گلوکاری کو اپنا لیا۔ موسیقی اور راگ و سُر سے ان کی شفتگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی عمر سے کہیں زیادہ عمر کے ایک ماہر موسیقی کو اپنے شوہر کی حیثیت سے منتخب کیا۔ ریڈیو پاکستان سے تعلق رکھنے والے استاد نذر حسین سے انہوں نے شادی کی تو سبھی حیران رہ گئے۔ پہلے تو کسی کو یقین ہی نہ آیا۔ عارفہ اور ان کی والدہ طلعت صدیقی نے بھی شوبزنس کے دستور کے مطابق اس خبر کی پرزور تردید کر دی۔ عارفہ نے تو ایک بیان میں یہاں تک کہا کہ وہ میرے استاد اور عمر میں میرے باپ کے برابر ہیں۔ کسی نے یقین کیا۔ کسی نے یقین نہیں کیا لیکن تھوڑے ہی عر صے کے بعد جب عارفہ کے گھر میں ڈاکہ پڑا تو یہ راز طشت از بام ہو گیا اور اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ استاد ان کے شوہر ہیں۔ دیکھئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بات حمایت علی شاعر کے تذکرے سے شروع ہوئی تھی۔
حمایت صاحب جب کراچی سے لاہور آئے تو ہم سے بھی ملاقات ہوئی اور فوراً مراسم قائم ہو گئے۔ اکثر محفلیں جما کرتی تھیں پھر جب ہم نے فلم کا آغاز کیا اور خلیل احمد کو موسیقار کے طور پر منتخب کیا تو انہوں نے نغمہ نگاری کیلئے حمایت علی شاعر کا نام تجویز کیا ۔ اس لئے کہ وہ ان کے ساتھ کام کرتے رہے تھے اور ان دونوں کے اشتراک سے بہت اچھے نغمات وجود میں آئے تھے۔ شاعر اور موسیقار بھی عموماً ایک ٹیم کی حیثیت سے ہی کام کرتے ہیں۔ اور اس کے نتائج بھی بہت اچھے برآمد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب خلیل احمد نے حمایت علی شاعر کا نام تجویز کیا تو ہم نے بھی اس سے اتفاق کر لیا۔
حمایت علی شاعر نے کراچی کی ایک فلم ’’آنچل‘‘ کے لئے بہت اچھے نغمات تحریر کئے تھے۔ خلیل ہی اس کے موسیقار تھے اور اس فلم کی موسیقی بہت مقبول ہوئی تھی۔
’’مجبور‘‘ کا مہورت بہت دھوم دھام سے سرانجام پایا تھا۔ ہر چند کہ ہم اس کے قائل نہیں ہیں اور بعد کی فلموں میں ہم نے کبھی افتتاحی تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ مگر ’’ مجبور‘‘ کے سلسلے میں یہ ہماری کاروباری ضرورت تھی۔ دوستوں نے اور خود ہدایت کار حسن طارق نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ اس طرح فلمی دنیا میں چرچا ہو جائے گا۔ اور تقسیم کار اس فلم کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ ہمیں تقسیم کاروں کی توجہ کی اشد ضرورت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاس کل جمع پونجی مبلغ پانچ ہزار نقد تھی۔ وہ کتنا ہی سستا زمانہ سہی مگر پانچ ہزار کے سرمائے سے ایک مکمل فیچر فلم بنانے کیلئے نکل کھڑا ہونا کسی طرح بھی ایک معقول حرکت اور دانشمندی نہیں تھی۔ صرف ہمارے چند قریب ترین دوستوں ہی کو ہماری مالی حالت کا علم تھا اور انہوں نے ہمیں سمجھا بجھا کر اس ارادے سے باز رکھنے کی بہت کوشش بھی کی مگر ہمارے سر پر تو فلم بنانے کا بھوت سوار تھا۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہر قیمت پر فلم بنا کر رہیں گے۔ اس کیلئے ہم نے منصوبہ بندی بھی کی تھی۔ منصوبہ بندی یہ تھی کہ ہم اداکاروں سے ادھار کام کرا لیں گے اور فلم کی تکمیل پر انہیں معاوضہ ادا کریں گے۔ دوسرے لوگ بھی اسی بنا پر ہم سے تعاون کریں گے۔ فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہو گا تو بہت جلد کوئی اچھا تقسیم کار اس طرف توجہ دے گا اور ہماری فلم کے حقوقِ تقسیم حاصل کر لے گا۔ اس طرح اس کی طرف سے موصول ہونے والی قسطوں سے ہم اداکاروں اور دوسرے لوگوں کو ادائیگی کرتے رہیں گے اور روز مرہ کے اخراجات پورے کریں گے۔ اس زمانے میں پاکستان کی فلمی مارکیٹ تین سرکٹ پر مشتمل تھی۔ پہلا پنجاب اور صوبہ سرحد دوسرا کراچی سندھ بلوچستان اور تیسرا سرکٹ مشرقی پاکستان کا تھا۔
ان دنوں پاکستان میں رنگین فلم بنانے کا کسی نے سوچا تک نہ تھا‘ تمام فلمیں بلیک اینڈ وائٹ بنتی تھیں۔ ایک اوسط درجے کی فلم کی لاگت سوا دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک ہوتی تھی۔ تینوں سرکٹ سے لگ بھگ اتنی ہی رقم وصول ہو جاتی تھی۔ اگر فلم اور فلم ساز و ہدایت کار کی شہرت اچھی ہو تو زیادہ رقم بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ فلم سازی کے دوران میں اگر سلیقے اور کفایت شعاری سے کام لیا جائے تو فلم کی ڈلیوری دیتے وقت فلم ساز پچاس ساٹھ ہزار یا اس سے کچھ زیادہ رقم بچا لیتا تھا۔ جہاں تک فلم کی نمائش کے بعد تقسیم کاروں سے منافع میں سے حصہ ملنے کا تعلق ہے تو وہ محض دیوانے کا خواب ہی تھا کیونکہ قریب قریب سب ہی تقسیم کار عذر پیش کر دیتے تھے کہ فلم کا بزنس اچھا نہیں ہے۔ منافع تو ایک طرف انہیں کافی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس لئے فلم ساز کے حصے میں کچھ نہیں آتا تھا۔ جو فلمیں سلور جوبلی اور گولڈن جوبلی مناتی تھیں۔ ان کے بارے میں تقسیم کار یہی رونا روتا رہتا تھا کہ صاحب کیا کریں۔ نقصان ہو گیا۔ گویا فلم ساز ڈلیوری کے وقت جو کچھ وصول کر لیتا تھا وہی اس کا حصہ تھا۔ بالائی تقسیم کار کے حصے میں آتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کئی سپرہٹ فلمیں بنانے والے فلم ساز سڑک سوار نظر آتے تھے جبکہ تقسیم کاروں کے ٹھاٹ باٹ‘ شاندار کوٹھیاں اور قیمتی کاریں‘ آنکھوں میں چکاچوند پیدا کر دیتے تھے۔ جس صنعت میں صنعت کار کے حصے میں کچھ نہ آئے اور تقسیم کار یا نمائش کار ہی منافع کماتا رہے اس کی بنیادیں کیوں کر مستحکم ہو سکتی ہیں؟ پاکستان کی فلمی صنعت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب یہی تھا اور اسی وجہ سے فلم ساز تو آتے جاتے رہتے تھے یا اگر کوئی سخت جان فلم ساز ہوتا تو وہ رو پیٹ کر اپنا کام چلاتا رہتا تھا مگر تقسیم کاروں اور سنیما کے مالکوں کی چاندی تھی یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں۔
ہم نے ’’قرضے‘‘ پرفلم بنانے کا جو منصوبہ بنایا تھا۔ وہ ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کے پیچھے ہماری لگن اور ارادہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ ہمیں اپنی ذات پر اور خدا پر یقین تھا کہ ہم یہ فلم ضرور مکمل کر لیں گے، جہاں تک ’’ادھار‘‘ پر کام کرنے کا تعلق ہے‘ ہر فلم ساز کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی تھی کہ اداکار فلم کے خاتمے پر ادائیگی کے وعدے پر یقین کر کے فلم میں کام کریں۔ مگر ہمارے تعلقات اور دوسروں کے بھروسے کی بنیاد پر ہم نے یہ بیڑا اٹھا لیا تھا۔
اسٹوڈیو کے مالک سے بھی یہ طے تھا کہ وہ اپنا تمام بل فلم کی ڈلیوری کے وقت وصول کریں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ شوٹنگ کے لئے تمام تر خام مال بھی ادھار ہی فراہم کریں گے۔ اسٹوڈیو کے مالک یہ رعایت صرف ان ہی فلم سازوں کو دیا کرتے تھے جن پر انہیں مکمل اعتماد ہو کہ وہ فلم مکمل کر لیں گے اور تقسیم کار ان کی فلم خرید بھی لیں گے۔ ورنہ کون اپنا سرمایہ خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس لحاظ سے پانچ ہزار روپے کا سرمایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہمارے بعض دوستوں نے ہمیں اس حماقت سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔
’’فرض کرو تمہاری فلم کسی نے نہیں خریدی تو پھر کیا کروں گے؟‘‘
’’ کوئی کیوں نہیں خریدیں گے‘‘ ہم بحث کرتے ’’اتنی اچھی کہانی ہے۔ ہدایت کار بھی اچھا ہے۔ ہم نے اداکار بھی وقت کی ڈیمانڈ کے مطابق چنے ہیں‘‘۔
’’یار کچھ عقل کی بات کرو‘ پانچ ہزار کتنے دن چلیں گے۔ اداکاروں نے ادھار کر بھی لیا تو روز مرّہ کے اخراجات کیسے پورے کرو گے؟ اسٹاف کی تنخواہیں‘ آمدورفت کا کرایہ‘ شوٹنگ کے دوران میں کھانا‘ چائے ہنر مندوں کی تنخواہیں اور معاوضے‘ سینکڑوں اخراجات ہوتے ہیں‘‘۔
’’اللہ مالک ہے‘‘ ہم جواب دیتے۔
’’یار تم تو صرف ہاتھ پیروں سے فلم بنانا چاہتے ہو۔ یہ کہاں ممکن ہے؟‘‘
ہم کہتے ’’ہاتھ پیروں سے نہیں‘ دماغ سے‘‘۔ ۔
’’دماغ لوگوں کو تنخواہیں تو نہیں دے سکتا۔ اگر فلم رک گئی تو کیا کرو گے؟‘‘۔
’’اللہ مالک ہے‘‘ ہمارا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔
’’بھائی یہ تو درویش ہو گیا ہے۔ ارے میاں فلم سازی میں درویشی نہیں چلتی۔ چلو مان لیا کہ اسٹوڈیو اونر اپنا بل تم سے آخر میں وصول کرے گا مگر خام فلم کہاں سے لاؤ گے؟‘‘
’’اللہ مالک ہے‘‘ اور اس طرح بات ختم ہوجاتی تھی۔
ہم نے حیدر آباد والے شیخ صاحب کے کہنے پر چند ماہ بعد فلم کی شوٹنگ شروع کرنے کی تجویز مسترد کر دی تھی۔ دراصل ہمارا خیال تھا کہ اگر ہم نے مہورت کے بعد فلم کا باقاعدہ کام شروع نہ کیا تو بہت جگ ہنسائی ہو گی۔ مگر قدرت نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ بنے بنائے کام کو جھوٹی انا کی خاطر خراب کر دینا دانشمندی نہیں ہے۔
’’مجبور‘‘ کے مہورت کے بعد کئی ماہ تک ہماری کوشش کے باوجود اس فلم کی شوٹنگ کا آغاز نہ ہو سکا ۔ادھر ادھر سے سرمایہ حاصل کرنے کی ہماری ہر کوشش ناکام ہوئی تھی اور ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بس ہماری قسمت میں بھی دوسرے موسمی فلم سازوں کے مانند مہورت کر لینے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ چند ہفتے اور چند مہینوں تک تو ہم بہت مضطرب اور سرمایہ حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہے مگر پھر رفتہ رفتہ صبر سا آ گیا۔
’’مجبور‘‘ ہمارے احساس پر ایک پھانس کی طرح چبھ کر رہ گئی تھی۔ جس میں کبھی کبھی تو بہت زیادہ کسک اور کھٹک محسوس ہوتی تھی۔ مگر ہم رفتہ رفتہ اس خلش کے عادی بھی ہو گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی اب ہم سے یہ دریافت کرنا بند کر دیا تھا کہ فلم کی شوٹنگ کب شروع ہو گی ۔ یہ ہمارے لئے ایک اطمینان بخش بات تھی ورنہ یہ سوال تو ہماری چڑ بن کر رہ گیا تھا۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 192 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)