فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ تیرہویں قسط

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ تیرہویں قسط
فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ تیرہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم نے نگہت سلطانہ سے باتیں شروع کیں تو کوئی مشکل ہی پیش نہیں آئی۔ ہم ان سے جو کچھ پوچھنا چاہتے تھے، وہ اس سے زیادہ ہمیں بتانا چاہتی تھیں۔ وہ حد سے زیادہ باتونی تھیں۔ (اور آج بھی ویسی ہی ہیں ) اور دلچسپ باتیں کرتی تھیں ان میں ذرا سی بھی بناوٹ نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے بارے میں‘ اپنے خاندان کے بارے میں‘ اپنی فلموں کے بارے میں اور پھر نورجہاں والے جھگڑے کے بارے میں ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ ان کی طولانی گفتگو چائے کے دوران بھی جاری رہی۔ چائے نیچے کسی تندور نما ہوٹل سے منگائی گئی تھی مگر بہت مزیدار تھی۔ چائے کے ساتھ بسکٹ بھی تھے۔ مگر سب سے بڑھ کر نگہت سلطانہ خود تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد مشرقی پاکستان کے تھے‘ عراق گئے تو وہاں شادی کر لی۔ اس طرح وہ حسن بنگال اور جادوئے عراق دونوں کا مجموعہ تھیں۔ ملاحت‘ دلکشی‘ بالوں کی خوبصورتی‘ چہرے کی کشش‘ آنکھوں کی سحر انگیزی اور جسم کا تناسب سبھی کچھ انہیں ایک ہیروئن بنانے کے لئے کافی تھا۔ مگر ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ باتیں بہت کرتی تھیں۔ سادہ دل تھیں مگر طبیعت میں لا ابالی پن اور بچپنا تھا جو ہمیشہ رہا۔ وہ قوت فیصلہ سے محروم تھیں۔ ان کو اچھے مشیر نہیں مل سکے۔ انہوں نے سنجیدگی سے کبھی اداکاری سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ غیر ذمے داری سے ہر ایک کے بارے میں جو منہ میں آتا تھا کہہ جاتی تھیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور ہندوستان میں فلمی ہیروئن کے لئے جس قسم کے ہوشیار سرپرستوں کی ضرورت ہوتی ہے نگہت سلطانہ ان سے محروم تھیں۔ اس کے والد نابینا تھے۔ والدہ بالکل سیدھی سادی‘ انہیں ٹھیک سے اردو بولنی بھی نہیں آتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نگہت سلطانہ کو اپنا نگراں اور مشیر بھی خود ہی بننا پڑا۔ کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ تھا اس لئے نگہت کو فلمی دنیا میں وہ مقام نہ حاصل ہو سکا جس کی وہ مستحق تھیں۔

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ بارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نگہت سلطانہ سے ہم نے کافی طویل انٹرویو کیا۔ اس دوران ادھر ادھر کی بے شمار باتیں ہوئیں۔ ہم انہیں فلموں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے۔ ہم تو خود ہی اس کوچے سے نابلد تھے لیکن اس روز ہمارے درمیان دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا جو آج تک قائم ہے۔ اس طویل عرصے میں مختلف اوقات میں جو حالات سامنے آئے وہ ایک الگ داستان ہے جو مناسب وقت پر سنائی جائے گی۔
نگہت نے خوب ڈھیر ساری باتیں کیں لیکن یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ وہ شاعرہ ہیں۔
’’شاعرہ؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔ ’’کوئی شعر سناؤ۔‘‘
اس نے ایک شعر سنایا جو دراصل شعر کا قیمہ کرنے کے مترادف تھا۔
ہمیں شک و شبہ میں مبتلا دیکھا تو اس نے کہا۔ ’’آپ کو یقین نہیں آیا؟ میرے پاس تو شعروں کی کاپی بھی ہے۔ دکھاؤں۔‘‘
ہم نے کہا ’’دکھاؤ۔‘‘
وہ ڈھونڈ کر ایک کاپی لے آئی۔ اس پر مختلف اشعاردرج تھے۔ہم بعض مشہور شعرا کا ہینڈ رائیٹنگ بھی پہچان گئے۔ جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے نگہت کی شان میں اشعار لکھے تھے۔ ان میں سے ایک بہت عظیم شاعر تھے۔ فلمی دنیا میں بھی انہوں نے بہت نام پیدا کیانگہت کا بیان تھاکہ یہ شعر اس نے خود لکھے ہیں مگر کاپی پر کسی اور سے خوشخط لکھوائے ہیں۔
ہم نے کہا۔ ’’ اچھا یوں کرو کہ یہ شعر اپنے ہاتھ سے ایک کاغذ پر لکھ دو۔ ہم تمھارے ہینڈرائٹنگ میں چھاپ دیں گے۔‘‘
اس نے فوراً قلم سنبھالا اور شکستہ خط میں اشعار لکھ دیے۔
ہم نے دفتر پہنچتے ہی ایک طویل انٹر ویو لکھا اور اس میں لفاظی کے دریا بہا دیے۔ نگہت کو بنگال کے حسن اور عراق کی پر اسرار زمین کی تخلیق قرار دیا۔ اس کے سراپا کا شاعرانہ انداز میں نقشہ کھینچا۔ مختصر یہ کہ اپنے پہلے فلمی انٹرویو میں ہم نے پورا زور قلم صرف کر دیا۔
فوٹو گرافر تو ہمارے پاس تھا نہیں مگر نگہت نے ہمیں دو تین اچھی سی تصاویر فراہم کر دی تھیں۔ ہم نے اگلے ایڈیشن میں اخبار کے پورے صفحے پر یہ انٹرویو تصویروں اور نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا تو ہر طرف ہلچل مچ گئی نگہت کی تصاویر نے اور بھی قیامت ڈھا دی تھی۔ پھر ہمارا افسانوی انداز بیان سونے پر سہاگا تھاجس میں ہم نے اسے الف لیلوی کردار کے روپ میں پیش کیا تھا۔
دوسرے دن صبح ہم نے گھر پر اخبار دیکھا تو خود ہی پریشان ہو گئے۔ اخبار کے پورے ایک صفحے پر نگہت سلطانہ جلوہ گر تھیں۔ ان کی تصاویر‘ ان کا بیان‘ان کی باتیں‘ ان کا پس منظر‘ ان کی شاعری‘ خود ان کے ہینڈ رائٹنگ میں۔ ایسا انٹرویو تو کسی روزنامے میں شائع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ اخبار تو بڑے بڑے فلم والوں کے بارے میں چند سطور سے زیادہ شائع نہیں کرتے تھے۔ کہاں یہ کہ ایک گمنام اداکارہ کے نام سارا صفحہ وقف کر دیا گیا تھا۔
گیارہ بجے ہم دفتر پہنچے تو ہمارے ساتھیوں نے مزید ڈرادیا۔ بولے ’’میر نور احمد صاحب کئی بار پوچھ چکے ہیں۔ آج تمہاری خیریت نظر نہیں آتی۔‘‘
ظہور عالم شہید صاحب ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے اور دراصل وہی ہفت روزہ ایڈیشن کے انچارج تھے۔ وہ بطور خاص صبح ہی دفتر پہنچ گئے تھے اور ہمارے منتظر تھے۔ بہت شفقت فرماتے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی سنجیدگی سے بولے ’’اوئے الو کے کان‘ یہ تم نے کیا کر دیا ؟‘‘ الو کے کان ان کی پسندیدہ گالی تھی جو وہ پیار اور غصے دونوں صورتوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔
’’کیا ہوا شہید صاحب ؟‘‘ ہم نے معصومیت سے پوچھا۔
’’میں نے تمہیں فلم ایکٹریس کا انٹر ویو لینے کی اجازت دی تھی تم نے تو الف لیلہ کی داستان لکھ دی ہے اور سارے صفحے کا انٹرویو چھاپ دیا ہے۔ اتنی تصویروں کی کیا ضرورت تھی۔ ایک تصویر ہی کافی تھی۔ یہ انٹرویو زیادہ سے زیادہ دو کالم کا ہونا چاہیے تھے۔ اب جو ہو گا تم ہی بھگتنا۔‘‘
میر صاحب کے کمرے میں طلبی ہوئی۔ وہ کئی بار ہمارے بارے میں دریافت کر چکے تھے۔ ہم عموماً دیر سے دفتر پہنچتے تھے اور دیر تک موجود رہتے تھے۔ دعائیں پڑھتے ہوئے میر صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کمرے میں مہر صاحب بھی موجود تھے اور مقامی ایجنٹ شمشاد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے (یہ آج کل لاہور میں نوائے وقت کے ایجنٹ ہیں ) ہم چپکے سے ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ میر صاحب کے اشارے پر گرم چائے کا کپ ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ مہر صاحب چائے کے بہت شوقین تھے اور ہر بار چائے پینے کے بعد کہتے تھے ’’بھئی یہ زیادہ گرم نہیں تھے‘ خوب گرم چائے لے کر آؤ۔‘‘
اس طرح ہر قت چائے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ چائے نوشی میں ان کا ذوق بے حد اچھا تھا۔ شاید وہیں سے ہمیں بھی اچھی چائے کا ذوق پیدا ہو گیا۔
میر صاحب اور مہرصاحب کے بولنے سے پہلے ہی ایجنٹ صاحب بے اختیار کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ’’آفاقی صاحب‘ بہت بہت مبارک ہو۔ آپ نے تو حد ہی مکا دی ہے۔‘‘
ہم سمجھے کہ لو بھئی اعتراضات کا آغاز ہو گیا مگر انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھام لیا اور جوش میں آکر کہنے لگے ’’آپ نے کمال کر دیا۔ ہر جگہ اس انٹرویو کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اتنی مانگ ہے کہ اب ہم دوسرا ایڈیشن چھاپ رہے ہیں۔‘‘
ہمیں خوشی تو ہوئی مگر سوچا کہ یہ ایجنٹ صاحب کی ذاتی کاروباری رائے ہے‘ بزرگ ایڈیٹر حضرات کیا فرمانے والے ہیں ؟ ابھی تک اسرار ہی تھا۔
سب سے پہلے میر صاحب نے ہمیں مخاطب کیا ’’بھئی یہ انٹر ویو تو بہت خوب ہے۔ ‘‘
مہر صاحب بولے ’’لیکن مبالغہ آرائی کچھ زیادہ ہو گئی ہے اور انٹرویو میں شاعرانہ اور ادبی رنگ غالب آگیا ہے۔ ‘‘
ایجنٹ صاحب نے فرمایا ’’مگر مولانا پبلک نے بہت پسند کیا ہے۔ ‘‘
’’بھئی ہم پبلک کی نہیں اصول کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
میر صاحب فرمانے لگے ’’اگر انٹرویو کچھ کم ہو جاتا اور تصویریں اتنی زیادہ نہ ہوتیں تو بہتر تھا اور وہ بھی ایک فلم ایکٹریس کا اس قدر طولانی انٹرویو۔ ‘‘
’’میر صاحب ‘‘ ایجنٹ نے کہا ’’جو بھی ہے سرکولیشن کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔ ‘‘
میر صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ہم نے کہا ’’آئندہ خیال رکھیں گے۔‘‘
بولے ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
ہم اجازت لے کر چلے آئے۔ ہمارے کمرے میں مبارک باد دینے والوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ ہر کوئی پوچھ رہا تھا ’’کیا واقعی وہ اتنی ہی خوب صورت ہے ؟‘‘
ایک صاحب شکوہ کر رہے تھے ’’ یار ایسی جگہوں پر اکیلے ہی چلے جاتے ہو۔ ‘‘ ٹیلی فون کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ کوئی اعتراض کر رہا تھا‘ کوئی رشک کر رہا تھا اور کوئی ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا۔
ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجی‘ ایک زنانہ آواز نے پوچھا۔ ’’آفاقی صاحب ہیں ؟‘‘
ہم نے کہا ’’بول رہے ہیں۔ ‘‘
دوسری طرف سے ایک پر جوش آواز سنائی دی ’’آفاقی یار، تم نے تو کمال کر دیا۔ اتنا اچھا انٹرویو تو کسی ہالی ووڈ کی ایکٹریس کا بھی نہیں چھپا ہو گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’شکریہ‘ آپ کون بول رہے ہیں ؟‘‘
’’ارے تمہیں کیا ہو گیا ہے‘ پہچانا نہیں ؟ میں نگہت بول رہی ہوں۔ آج تم ضرور آنا۔ پیٹ بھر کر مٹھائی کھلاؤ ں گی۔ ‘‘
ہم نے آس پاس والوں کو دیکھا۔ نگہت کی بلند آواز ان سب تک پہنچ رہی تھی او ر وہ سب ہمیں چبا جانے والے انداز میں گھوررہے تھے۔
’’اچھا ٹھیک ہے ‘‘ کہہ کر ہم نے فون بند کر دیا۔
’’اچھا تو اب یہ چکر شروع کر دیا تم نے ؟ ‘‘
ہم جھینپ گئے سارا دن یہی سلسلہ جاری رہا۔ اس پہلے فلمی انٹرویو کی مقبولیت نے ہمیں خوش اور بے حد پر اعتماد کر دیا تھا۔
ایک بڑے شاعر کا فون آیا ’’بھائی تم کس کی باتوں میں آگئے ؟ اسے شاعرہ بھی بنا دیا۔ وہ تو صحیح شعر تک نہیں پڑھ سکتی۔ اس نے اچھا بے وقوف بنایا ہے تمہیں۔‘‘
یہ وہی مشہور شاعر تھے جن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی غزل ہم نگہت سلطانہ کی کاپی میں دیکھ چکے تھے اور احتیاطاً یہ کاغذ پھاڑ کر ساتھ بھی لے آئے تھے۔ یہ اس وقت بھی بہت بڑے اور مشہور شاعر تھے۔ پاکستانی اور بھارتی فلموں میں بھی ان کا بہت بڑا نام تھا اور آج بھی ہے۔
ہم نے کہا ’’بے وقوف تو اس نے اور لوگوں کو بھی بنایا ہے۔‘‘
طنزیہ انداز میں بولے ‘‘سچ کہا آپ نے۔ دنیا میں بے وقوفوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔‘‘
ہم نے جل کر کہا ’’صحیح کہا آپ نے۔ ایک تو اس وقت بھی مل گئے ہیں۔ اور فون پر ہم سے مخاطب ہیں۔‘‘
غصے سے بولے ’’آپ کو چھوٹے بڑے کا لحاظ بھی نہیں ہے۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’حضور ناراض نہ ہوں۔ ہم نگہت کی کاپی میں آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی غزل پڑھ چکے ہیں۔ ‘‘
وہ کچھ سٹپٹا سے گئے۔
ہم نے کہا ’’اور وہ کاغذ ہم پھاڑ کر اپنے ساتھ بھی لے آئے ہیں۔ ‘‘
انہیں اچانک سانپ سونگھ گیا‘ ٹیلی فون بند ہو گیا۔
اسی شام ان سے لکشمی چوک کے ایک ریستوران میں ملاقات ہوئی تو فوراً ایک طرف لے گئے اور بولے ’’آفاقی صاحب‘ یہ بات آپ تک ہی رہنی چاہیے‘ وعدہ کریں۔‘‘
ہم نے وعدہ کر لیا اور آج تک نبھارہے ہیں۔ ان کا نام ہم نے آج بھی کسی کو نہیں بتایا۔ اس شام انہوں نے ہمیں چائے بھی پلوائی اور سموسے بھی کھلائے۔
دوپہر کے قریب ہمیں ایک فون موصول ہوا۔
’’ہیلو‘‘ ایک مردانہ آواز نے کہا ’’آفاقی صاحب ہیں ؟‘‘
’’جی فرمائے؟‘‘
’’آفاقی صاحب‘ السلام علیکم‘‘ انہوں نے بڑے خلوص اور مٹھاس سے کہا۔
’’وعلیکم السلام ‘‘
’’میرا نام اطہر مانی ہے۔ میں سید شوکت حسین رضوی صاحب کا اسسٹنٹ ہوں۔‘‘
ہم سنبھل کر بیٹھ گئے ’’جی ‘‘
کہنے لگے ’’آفاقی صاحب‘ شوکت صاحب اور میڈم نور جہاں بہت بڑی شخصیات ہیں۔ آپ نے ان کے مقابلے میں ایک معمولی ایکٹریس کو آسمان پر بٹھا دیا۔‘‘
ہم نے کہا ’’تو پھر ؟ ہم آپ کے جواب دہ نہیں ہیں۔ ‘‘
بولے ’’ناراض نہ ہوں‘ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ شوکت صاحب کو اس انٹرویو سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سے اور میڈم سے تو کچھ پوچھا نہیں اور نگہت کا اتنا بڑا انٹرویو چھاپ دیا۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’مگر اس انٹرویو میں میڈم یا شوکت صاحب کا تو ذکر بھی نہیں ہے۔ ‘‘
کہنے لگے ’’یہ فون پر کرنے کی بات نہیں ہے۔ دراصل میڈم آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ کیا آپ کسی وقت شاہ نور اسٹوڈیو تشریف لا سکتے ہیں ؟‘‘
ہم حیران رہ گئے ’’کیوں نہیں مگر کب ؟‘‘
وہ بولے ’’میں کل ہی فون کر کے آپ کو بتادوں گا۔ شاہ نور اسٹوڈیو آپ کے دفتر سے بہت دور ہے اس لئے آپ کو لینے کے لئے گاڑی آجائے گی۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’شکریہ ‘‘ اور فون بند کر دیا۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)