فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ چالیسویں قسط
شام کو ہم پہنچے تو وہ اسی وقت اسٹوڈیو سے آئے تھے۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ باہر مال روڈ پر خوب رونق اور جگمگاہٹ تھی۔ اس زمانے میں مال روڈ پر سروس روڈ اور مال روڈ کے درمیان میں سبز گھاس کے تختے بھی تھے جن پر شام کو یار لوگ بیٹھاکرتے تھے۔ الیاس صاحب ہمیں ساتھ لے کر ایک تختے پر بیٹھ گئے۔
’’کن کاموں میں مصروف ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ’’اتنے دن ہو گئے ہیں لاہور آئے ہوئے اور ملاقات تک نہ ہو سکی۔‘‘
فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔۔انتالیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ ایک پان نکال کر منہ میں ڈالا۔ پھر کہنے لگے ’’اگر تمہارے پیٹ میں رہ جائے تو ایک خبر سناؤں ؟‘‘
ہم نے کہا ’’کیسی خبر ؟ ‘‘
بولے ’’یہ کسی کو بتانے کی نہیں ہے مگر میرے لئے پیٹ میں رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس لئے تمہیں بتا رہا ہوں۔ وعدہ کرو کہ کسی کو نہیں بتاؤ گے !‘‘
ہم نے وعدہ کر لیا۔
کہنے لگے ’’اعجاز اور نور جہاں کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘
یوں لگا جیسے ہمارے سر پر بم پھٹ گیا۔ ساکت انہیں دیکھتے رہ گئے۔
’’الیاس بھائی۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘
’’سچ کہہ رہا ہوں۔ میں اسی چکر میں لگا ہوا تھا۔‘‘
’’مگر۔۔۔ مگر یہ کب ہوا۔ کیسے ہوا، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘
بولے ’’پھر بھی ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے تفصیل سنائی کہ کس طرح یہ رومان اندر اندر پروان چڑھ رہا تھا۔ میڈم ہر قیمت پر اعجاز سے شادی کرنے پر مصر تھیں۔ اعجاز کی بھی رضامندی شامل تھی اگرچہ وہ کھل کر بیان نہیں کرتا تھا۔ آخر یہ کہ چپکے چپکے نکاح ہو گیا۔ گنتی کے چند لوگ اس میں شامل تھے۔ پھر کہا۔ ’’دیکھو میں نے یہ خبر صرف تم ہی کو بتائی ہے‘ کسی کو بتا نہ دینا۔‘‘
ہم نے وعدہ کر لیا۔ وہ مزید تفصیلات بتاتے رہے اور ہم اس بات پر افسردہ ہو گئے کہ اعجاز نے ہمیں دھوکے میں رکھا۔ پھر سوچا کہ ایسے معاملات میں ہر ایک کو راز دار بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ بھی اپنی جگہ حق بجانب تھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘ الیاس صاحب نے پوچھا۔
ہم نے کہا ’’جو ہونا تھا، اب وہ ہو چکا۔ اب تو یہی دعا کرنی چاہیے کہ یہ شادی کامیاب رہے۔‘‘
الیاس بھائی نے بتایا کہ میڈم بالکل بدل گئی ہیں۔ نمازیں پڑھتی ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتی ہیں۔ انہوں نے اعجاز کی خاطر اداکاری ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے فی الحال گانے گائیں گی لیکن اگر اعجاز نے کہا تو گلوکاری بھی چھوڑ دیں گی۔ انہوں نے اعجاز سے شادی کرنے کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔
ہم فکر مند ہو گئے ’’الیاس بھائی، اب اعجاز کو سمجھانا چاہیے کہ وہ اس شادی کو ہمیشہ نبھائے۔ ایسا نہ ہو عمروں کے فرق کی وجہ سے کچھ عرصے بعد اکتا جائے۔‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔ وہ بہت سیریس ہے۔ ‘‘
ہم دونوں بہت دیر تک اسی موضوع پر باتیں کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ اﷲ ان دونوں کو نیک توفیق عطا کرے۔
اعجاز سے ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔ نہ ہی ہم نے کوشش کی۔ ملتے بھی تو کیا کہتے ؟
مگر زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ اچانک فلمی دنیا میں ایک بم پھٹ گیا۔ اعجاز اور نورجہاں کی شادی کی خبر کا راز فاش ہو گیا۔
ہوا یہ کہ شادی کے موقع پر میڈم باقاعدہ دلہن بنی تھیں۔ اس موقع پر ایک ہمراز فوٹو گرافر معراج کو بلایا گیا تھا تاکہ اس یاد گار موقع کی تصاویر بنالی جائیں۔ معراج اور منظور اسٹل فوٹو گرافر تھے اور فلم انڈسٹری میں بہت مقبول تھے۔ ہر ایک سے ان کی دوستی اور بے تکلفی تھی۔ ہر ایک کے راز دار تھے۔ ان کا گرین اسٹوڈیو مال روڈ پر کافی ہاؤس کے نزدیک تھا جہاں سر شام فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے دوست احباب اکٹھے ہو کر جام ومینا سے شغل فرماتے تھے۔ شام کے بعد یہ اسٹوڈیو ایک کلب کی حیثیت اختیار کر لیتا تھا۔
معراج‘ منظور کی بے پروائی کے باعث یہ راز فاش ہو گیا۔ انہوں نے فلم ڈیولپ کر کے خشک کرنے کے لئے لٹکا دی۔ اسی وقت اداکار ہمالیہ والا پہنچ گئے ان کی نظر پڑی تو دیکھا کہ نورجہاں دلہن بنی بیٹھی ہیں۔ پھر دولہا کے لباس میں اعجاز بھی نظر آ گئے۔ انہوں نے اپنے دماغ پر زور ڈالا مگر کوئی ایسی فلم یاد نہ آئی جس میں اعجاز اور نور جہاں ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ تصویریں حقیقی زندگی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ہمالیہ والا گرین اسٹوڈیو سے سیدھے ایورنیو اسٹوڈیو پہنچے اور چند منٹ کے اندر یہ خبر عام ہو گئی۔ ہر ایک نے اس پر تبصرے شروع کر دیے۔ فلمی دنیا کے لئے یہ ایک چونکا دینے والی اطلاع تھی۔ کچھ عرصے سے افواہیں تو گرم تھیں مگر واقعی ایسا ہو جائے گا یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
الیاس رشیدی صاحب ہمیں ایورنیو اسٹوڈیو میں ہی مل گئے۔ اعجاز بھی وہیں موجود تھے اور اس اچانک انکشاف سے بوکھلا گئے تھے۔ انہوں نے میڈم نورجہاں کی کوٹھی پر فون کیا اور دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ جب بھانڈا پھوٹ ہی گیا ہے تو اب اس خبر کی تصدیق کر دینی چاہیے۔
میڈم نے اعجاز سے یہ بھی کہا کہ آپ فوراً گھر پہنچ جائیں۔ اس طرح الیاس صاحب اور ہم اعجاز کی کار میں بیٹھ کر گلبرگ روانہ ہو گئے۔ اعجاز کچھ پریشان بھی تھے‘ بے حد خوش بھی تھے۔ خوب قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے۔ مگر ایک دم خاموش ہو کر فکر مند بھی ہو جاتے تھے۔ ہم سے کہنے لگے۔ ’’یار آفاقی سوری مگر تم تو جانتے ہو کہ معاملہ ہی کچھ ایسا تھا۔‘‘
ہم نے کہا۔ ’’ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔‘‘
گلبرگ میں میڈم کی کوٹھی پر پہنچے تو وہ کار کے ہارن کی آواز سن کر ایک سادہ سی ساری میں ملبوس ننگے پاؤں دوڑی ہوئی آئیں۔ مارے خوشی کے ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔ ہم نے مبارک بادپیش کی تو انہوں نے مسکرا کر قبول کر لی۔ پھر اعجاز کو بتایا کہ اس خبر کی تصدیق کے لئے کہاں کہاں سے‘ کس کس کے ٹیلی فون آئے ہیں۔
’’الیاس بھائی‘ کیا بتاؤں‘ بہت سی ہیروئنیں تو انگاروں پر لوٹ رہی ہیں۔‘‘
مٹھائی منگائی گئی۔ چائے اور کافی آگئی اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اعجاز بھی خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ میڈم نورجہاں بھی مارے خوشی کے زمین پر قدم نہیں رکھ رہی تھیں۔ سارا ماحول ہی بدلا ہوا تھا۔ ہم نے میڈم نورجہاں کو ایک بالکل نئے روپ میں دیکھا۔ اس کے بعد بھی ہم اعجاز کے ساتھ اور اکثر الیاس بھائی کے ساتھ ان کے گھر جاتے رہے۔ ہم نے ہمیشہ میڈم کو سادہ لباس میں ہی دیکھا۔ اعجاز کو رخصت کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لئے وہ خود کار تک آتی تھیں۔ کھانا خود ہی پکاتی تھیں۔ نمازیں پڑھتی تھیں۔ گھر کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ اعجاز کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ بار بار فون کر کے اس کی خیریت پوچھی رہتی تھیں۔ کئی بار دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ظاہر داری کر رہی ہیں۔ ہر وقت اعجاز کے گرد گھومتی رہتی تھیں۔ اس کے برابر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیٹھ جاتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے اور اندازے کے مطابق اگر میڈم نورجہاں نے زندگی میں کسی سے عشق کیا تو وہ اعجاز تھے۔ شوکت صاحب کے ساتھ بھی انہیں بہت محبت رہی مگر اعجاز کے ساتھ انہیں عشق تھا۔ اعجاز کی ہر زیادتی کو انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ یہاں تک کہ اپنی عزت نفس اور ضدی طبیعت کو بھی اعجاز کی خاطر کچل ڈالا۔ اعجاز کی محبوبہ فردوس کے لئے فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ میں گانے بھی ریکارڈ کرائے۔ انہوں نے اپنا گھر بچانے کی بہت کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کا انہیں ہمیشہ قلق رہا۔
چند سالوں قبل گلبرگ کے ایک ریستوران میں میڈم ایک نجی قسم کے ڈنر میں موجود تھیں بہت اچھے موڈ میں تھیں اور بے تکلفی سے باتیں کر رہی تھیں۔ کسی نے عشق اور محبت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک آہ بھری اور کہا۔ ’’عشق میں خدا کسی کو مبتلا نہ کرے۔ یہ انسان کو ذلیل کر دیتا ہے۔ کہیں کا نہیں چھوڑتا‘‘
میڈم نور جہاں واقعی اس موضوع پر اظہار خیال کرنے کی مجاز ہیں۔
اعجاز سے شادی کے بعد ان کے دوست کی حیثیت سے ہمیں بارہا میڈم کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی کھلایا اور ایک دن الیاس صاحب کو اور ہمیں اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی بھنی ہوئی مرغی کا مزہ بھی چکھایا جسے آج تک ہم نہیں بھولے۔ ہم نے میڈم کو اعجاز کے رشتے سے بھابھی کہناشروع کر دیا۔ وہ یہ سن کر خوش ہوتی تھیں۔ پھر حالات بدل گئے۔ اعجاز کے ساتھ ان کی علیحدگی ہو گئی۔ مگر ہم اکثر بے خیالی میں انہیں ’’بھابی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس بات پر کبھی نہیں ٹوکا ۔
جاری ہے۔ اکتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)