فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 72

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 72
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 72

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فلم تو ہٹ ہو گئی مگر اکمل کاکسی نے نوٹس نہ لیا لیکن پھر ان ہی دنوں تقدیر کی مہربانی سے اکمل کو ایک پنجابی فلم میں ہیرو کا کردار مل گیا۔ اس کا نام ’’جبرو‘‘ تھا۔ فقیر صلاح الدین اس کے فلم ساز تھے۔ ان کا تعلق لاہور کی مشہور فقیر فیملی سے تھا۔ ان کے ذہن میں کافی عرصے سے فلم بنانے کا خیال جڑ پکڑ رہا تھا۔ انہوں نے ’’جبرو‘‘ کے نام سے اس فلم کا آغاز کر دیا جس کی تمام تر شوٹنگ آؤٹ ڈور میں ہونی تھی۔ اس فلم میں انہوں نے کئی تجربے کیے تھے۔ اکمل ہیرو تھے۔ یہ ان کے لئے ہیرو بننے کا پہلا موقع تھا۔ یاسمین اس میں ہیروئن تھیں۔ وہ بھی پہلی بار ہیروئن کے روپ میں پیش کی گئی تھیں۔ طالش کو اس فلم میں بہت اہم کردار دیا گیا تھا جو بعد میں ان کی پہچان بن گیا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی نئے تھے۔ ان کا نام مظفر بابر تھا۔ فلم کی کہانی سکے دار نے لکھی تھی۔ یہ سکے دار کی پہلی کہانی تھی۔ مختصر یہ کہ ہر لحا ظ سے یہ ایک تجرباتی مگر کاروباری فلم تھی۔ یہ ایک ڈاکو کی کہانی تھی۔ ریلیز ہوئی تو کامیاب ہو گئی اور اس طرح فلم سے وابستہ سبھی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔
’’ قاتل ‘‘میں تیسرا نیا چہرہ مسرت نذیر کا تھا۔ وہ ثمینہ کے نام سے متعارف ہوئی تھیں اور بعد ازاں ایک معروف ہیروئن بنیں۔

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس طرح اسلم پرویز فلمی دنیا میں داخل ہو گئے۔
عام طور پر نئے اداکاروں کی مانگ اس وقت ہوتی ہے جب ان کی فلم ریلیز ہو جاتی ہے۔ مگر اسلم پرویز کے ستارے عروج پر تھے۔ اس لیے ’’ قاتل ‘‘ کی نمائش سے پہلے ہی وہ ایک اور فلم کے ہیروبن گئے۔ اس کے فلم ساز اسلام شامی تھے۔ وہ ایک پنجابی فلم بنارہے تھے۔ نور جہاں کو ہیروئن منتخب کر لیا گیاتھا۔ ہیرو کے لیے وہ سنتوش کمار کو سائن کرنا چاہتے تھے۔ ان کی تلاش میں اسٹوڈیو گئے تو معلوم ہوا کہ سنتوش ابھی سیٹ پر نہیں آئے ہیں۔ سیٹ پر انہوں نے اسلم پرویز کو دیکھا تو سوچ میں پڑ گئے۔ انہیں اندازہ ہو ا کہ یہ نوجوان تو بنا بنایا ہیرو ہے۔ وہ سنتوش کو بھول کر اسلم پرویز کے چکر میں پڑ گئے۔ اسلم پرویز کے ساتھ تو وہی معاملہ ہوا کہ آگ لینے جائیں اور پیمبری مل جائے۔ وہ سائیڈ ہیرو بن کر ہی بہت خوش تھے کہ اچانک بیٹھے بٹھائے ہیرو بننے کی آفر ہو گئی۔ انہیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس طرح ’’ قاتل ‘‘ کی نمائش سے پہلے ہی پنجابی فلم ’’پاٹے خاں ‘‘ کی فلم بندی کا آغاز ہو گیا۔ اس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے۔ ’’ قاتل ‘‘ میں تو اسلم پرویز کا تعارف ہوا تھا‘ مکمل ملاقات ’’ پاٹے خاں ‘‘ کے ذریعے ہو گئی۔ نور جہاں کے ساتھ ان کی جوڑی کو سبھی نے پسند کیا۔ بس پھر کیا تھا۔ اسلم پرویز سکہ بند ہیرو بن گئے۔ ’’پاٹے خاں ‘‘ ہی میں ظریف کو بھی ایک دلچسپ کامیڈی کردار میں پیش کی گیا تھا۔
قسمت کی دیوی جب مہربان ہو جائے تو کامیابیاں قدم قدم پر نچھاور ہوتی ہیں۔ اسلم پرویز کے ساتھ بھی ایساہی ہوا۔ ان کی ایک کے بعد ایک فلم ریلیز ہوتی رہی اور کامیاب ہوتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ صف اول کے ہیرو بن گئے۔ مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ بیک وقت تیس چالیس فلموں میں کام کر رہے تھے۔ اس میں اسلم کے لالچ کو بالکل دخل نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلم پرویز کو دولت سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پیسہ تو ان کے پاس پہلے ہی بہت تھا۔ وہ تو فن کار بننا چاہتے تھے مگر جب کامیاب ہوئے تو روایت کے مطابق سارے فلم ساز ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ ان کی فلم میں کام کریں۔ ادھر اسلم پرویز انتہائی شریف‘ بامروت اور بااخلاق آدمی تھے۔ لحاظ ملاحظہ بھی بہت تھا۔ کسی کو انکار کرنا تو ان کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ پھر یہ حال ہو گیا کہ ایک سیٹ پر کسی فلم کی شوٹنگ ختم ہوتی تو وہیں سے دوسرا فلم ساز پکڑ کر اپنے سیٹ پر لے جاتا۔ وہاں سے تیسرا فلم ساز اڑا کر لے جاتا۔وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جا رہے تھے۔ محاورے کے مطابق نہیں بلکہ درحقیقت نہ سونے کا وقت نہ آرام کرنے کی مہلت۔ کسی وقت موقع پا کر گھر پہنچ کر سونے کی کوشش کرتے تو وہاں بھی کوئی فلم سازیا ہدایت کار پہنچ جاتااور انہیں جگا کر اپنے مصائب کا ایسا نقشہ کھینچتا کہ غریب اسلم پرویز اسی وقت شیو کر کے اور نہا دھو کر نکل کھڑے ہوتے۔ اکثر اوقات مسلسل مصروفیت کی وجہ سے شیو بنانے کی فرصت ہی نہیں ملتی تھی چنانچہ اسٹوڈیو میں ہی شیو بنوا لیتے تھے۔ مسلسل کام نے اسلم پرویز کی صحت اور تروتازگی پر اثر ڈالا تھا۔ ادھر کہانیوں کی یکسانیت اور کرداروں میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے فلم بین اسلم پرویز کو دیکھ دیکھ کر بور ہو رہے تھے۔ مختصر سے عرصے میں وہ ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کر چکے تھے اور ہر فلم میں رومانی ہیرو تھے۔ اسی قسم کے کردار‘ وہی مکالمے‘ اسی انداز سے فلمائے ہوئے گانے‘ کہاں تک دیکھنے والے برداشت کرتے۔ آخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
تقدیر جب مہربان ہوتی ہے تو بہانے بن جاتے ہیں‘ اسی طرح تقدیر جب روٹھتی ہے تو اس کے لئے بھی بہانے بن جاتے ہیں۔ اسلم پرویز کی کامیاب فلموں کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود ہر ہفتے ان کی دو تین نئی فلمیں ریلیز ہو رہی تھیں۔ ایک ہفتے ان کی تین فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں اور تینوں فلاپ ہو گئیں۔ تماشائی پہلے ہی تنگ آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بہ شوروغل مچایا۔ کرسیاں توڑ دیں۔ پردے پھاڑ دیے۔ سنیما گھروں میں فلموں کے فوٹو سیٹ میں لگی پرویز کی ساری تصویریں اتار کر پھاڑ دیں۔
خطرہ اب حقیقت بن چکا تھا۔ اسلم پرویز نہ صرف غیر مقبول ہو گئے تھے بلکہ تماشائیوں کے لئے بیزاری کا سبب بن گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فلم سازوں نے انہیں نئی فلموں میں کاسٹ کرنا بند کر دیا۔ جو زیر تکمیل فلمیں بعد میں نمائش کے لئے پیش کی گئیں ان کے فوٹو سیٹوں میں سے اسلم پرویز کی تمام تصویریں نکال دی گئیں۔ یہ غالباً کسی ہیرو کی عدم مقبولیت کا انوکھا واقعہ تھا۔ اس طرح وہ شخص جسے ’’سینچری ہیرو‘‘ کہا جاتا تھا بالکل زیروہو کر رہ گیا۔
اسلم پرویز نے حالات کے پیش نظر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ وہی کوٹھی جو فلم سازوں اور ہدایت کاروں سے بھری رہتی تھی سنسان ہو کر رہ گئی۔ برے وقت میں کون ساتھ دیتا ہے جو اسلم پرویز کا ساتھ دیتا۔
اسلم پرویز کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید خود کشی کر لیتا یا دماغی توازن کھو بیٹھتا۔ اس قدر مقبولیت کے بعد اتنی نفرت اور بیزاری۔ اتنی پذیرائی اور آؤ بھگت کے بعد یکسر بے رخی اور بے اعتنائی۔ اتنی شہرت کے بعد ایسی بدنامی اور گمنامی ؟ ان سے مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس سے کم ناکامیوں پر لوگ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ ہماری ہی فلمی صنعت میں وحید مراد کی مثال سامنے کی بات ہے۔ ناکامیاں انہیں راس نہ آئیں اور وہ ایک ذہنی مریض بن کر رہ گئے‘ مگر اسلم پرویز نے حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے حقائق کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔ مگر وہ کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوئے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ناکامی میں ان سے زیادہ فلم سازوں کا قصور ہے۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کیا اور پھر ایک بہت اہم فیصلہ کیا۔ انہوں نے فلموں میں ویلن کا کردار قبول کرنے پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ یہ سن کر سبھی حیران رہ گئے۔ ایک ہیرو جو چند ماہ قبل مقبول ترین ہیرو تھا، ویلن بننے پر کیسے آمادہ ہو گیا؟ یہ اسلم پرویز کی حقیقت پسندی اور خود اعتمادی کی سب سے بڑی دلیل تھی۔
اسلم پرویز کو ویلن بننے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ یہ تجزہ وہ پہلے بھی کر چکے تھے۔ ہدایت کار حسن طارق نے اپنی پہلی فلم ’’نیند‘‘ میں انہیں ایک ایسے ہیرو کا کردار پیش کیا جو ویلن سے بھی بدتر تھا۔ یہ ایک رنگین مزاج‘ عیاش طبع دولت مند تھاجو حسین لڑکیوں کو دھوکے اور فریب سے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر بعد میں دھتکار دیتا تھا۔ وہ احساسات اور جذبات سے بالکل عاری تھا۔ اس فلم کی ہیروئن نور جہاں تھیں۔ اس فلم میں وہ کوئلہ چننے والی دوشیزہ تھیں۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ’’نیند‘‘ تھی۔ کہتے ہیں کہ ’’نیند‘‘ تو پھانسی کے تختے پر بھی آجاتی ہے۔ مگر نور جہاں جاگنے کے لئے نہیں سوتی تھیں۔ سونے کے لئے جاگتی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں ہر وقت نیند کا خمار بھرا رہتا تھا۔ا سلم پرویز جیسے رئیس زادے نے جب اس غریب الھڑ لڑکی کو مصروف خواب دیکھا تو ہر قیمت پر حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے محبت کا جال پھیلایا۔ پھر جھوٹی شادی کا ڈھونگ رچایا۔ کچھ عرصے بعد جی بھر گیا تو منہ موڑ لیا۔ ادھر ہیروئن ایک بچے کی ماں بن گئی تھی لیکن باپ اسے اپنی اولاد تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بیوی کو بلیک میل کرنے کے لئے اسلم پرویز نے معصوم بچے کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینکنے کا ارادہ کیا تو ماں کی ممتا شوہر کی محبت پرحاوی ہو گئی۔ ہیروئن نے گولی مار کر اسلم پرویز کو ختم کر دیا۔(جاری ہے)

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)