فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔ ۔ قسط نمبر 132
ہم ان کی عادت سے واقف تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ لہری صاحب سے کوئی تاریخ مانگیں اور وہ یہ نہ کہیں کہ وہ تو پہلے ہی بک ہے۔ ایک صاحب نے لطیفہ بنایا تھا کہ اگر آپ لہری سے قیامت کے دن کی تاریخ بھی مانگیں گے تو وہ یہی جواب دیں گے یہ ڈیٹ تو بک ہوچکی ہے۔ دیکھئے کچھ کروں گا۔
آپ پوچھیں گے ’’مگر لہری صاحب۔ یہ تو روز قیامت کی تاریخ ہے۔ اس روز کون شوٹنگ کرے گا؟‘‘
وہ جواب دیں گے ’’شوٹنگ تو اس روز فرشتے ہی کریں گے۔ مگر پھر وہی ڈیٹ تو آپ بھی لینے آگئے ہیں۔ کسی دوسرے نے بک کرلی تو قیام ہوگئی‘‘۔
ہمیں معلوم تھا کہ ’’اچھا کروں گا‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں مطلوبہ تاریخیں مل جائیں گی۔ چنانچہ ہم نے معاوضے کا ذکر چھیڑا۔
وہ بولے ’’آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے ’’کنیز‘‘ میں جو کچھ بھی دیا تھا میں نے چپ چاپ رکھ لیا تھا ’’میرا گھر میری جنت‘‘ کے وقت آپ نے جو آفر کی تھی وہ بھی میں نے چپکے سے قبول کرلی مگر یہ کہا تھا کہ اب اگلی فلم میں آپ مجھے میرا منہ مانگا معاوضہ دیں گے‘‘۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔ ۔ قسط نمبر 131 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے سرہلادیا ’’بالکل یاد ہے۔ اب آپ اپنا معاوضہ بیان کریں‘‘۔
انہوں نے ایک لمبی تمہید باندھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اداکاروں خصوصاً مزحیہ اداکاروں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کی مقبولیت کا زمانہ مختصر ہوتا ہے۔ بعد میں کوئی انہیں دو ٹکے کو بھی نہیں پوچھتا۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے کہا ’’لہری صاحب! آمدم بر سر مطلب!‘‘
بولے ’’بھائی آپ برا نہ مانیں اگر میں آپ کو زیادہ معاوضہ بتاؤں۔ دینا نہ دینا آپ کی مرضی پر ہے۔ تعلقات پر اثر نہیں پڑنا چاہیے‘‘۔
’’بتائیں بتائیں‘‘ ہم نے بے تابی سے پوچھا۔
انہوں نے ایک اتنی بڑی رقم بتادی جو ہمارے قیاس سے دوگنی تھی اور خاصی زیادہ تھی۔
جواب میں ہم نے بھی ایک دلدوز تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان میں فلم ساز ہی وہ بدقسمت شخص ہے جو کامیاب ترین فلم سے بھی زیادہ منافع نہیں کما سکتا۔ سب کچھ بڑے اداکار یا تقسیم کار سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا ’’خیر خیر۔ آمدم برسرِ مطلب!‘‘
ہم نے جواب میں کہا ’’لہری بھائی! اگر ہم آپ کو کم معاوضہ بتائیں تو آپ بھی برا نہ مانئے گا قبول کرنا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے‘‘۔
پھر ہم نے انہیں ان کی مانگ سے نصف معاوضے کی پیشکش کردی۔ انہوں نے بڑے صبر و سکون کے ساتھ سنا اور پھر بولے ’’آفاقی صاحب! معافی چاہتا ہوں۔ مگر دیکھئے آپ ناراض نہ ہونا‘‘۔
ہم نے کہا ’’ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ ہم بھی معافی چاہتے ہیں اور التماس ہے کہ ناراض نہ ہونا‘‘۔
اس طرح بے خوشگوار ماحول میں یہ ملاقات ختم ہوگئی۔ مگر ہم ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہوگائے۔ لہری صاحب کا کردار فلم میں بہت اہم تھا۔ ان کی باکس آفس ویلیو بھی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے ان کو سامنے رکھ کر یہ کردار خاص طور پر ان ہی کیلئے لکھا تھا مگر انہوں نے معذرت چاہ لی۔ اب کیا کریں؟
اسی فکر میں ڈوب ہوئے ہم اپنے دوست شباب کیرانوی صاحب کے دفتر پہنچ گئے۔
’’کیا بات ہے آفاقی۔ کس سوچ میں ہو؟‘‘
ہم نے انہیں اپنا مسئلہ بتایا تو وہ ہنسنے لگے ’’یار تیرا بھی جواب نہیں ہے۔ یہ کون سا اتنا بڑا مسئلہ ہے‘‘۔
’’تو پھر اس کا حل بتائیں‘‘
’’بتادیں گے، سوچ کر بتائیں گے۔ مہلت تو دو۔ لو چائے تو پیو‘‘۔ چائے پیتے پیتے انہیں ایک برین ویو آگئی۔ کہنے لگے ’’سنو آفاقی! تم اس کریکٹر کیلئے قوی کو کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘
قوی کو ہم نے ٹی وی ڈراموں میں دیکھا تھا۔ چند فلموں کے سیٹ پر بھی ان سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کے بھی ہم قائل تھے مگر مزاحیہ کردار اور وہ بھی لہری صاحب کا متبادل۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔
شباب صاحب نے کہا ’’آفاقی نوٹ کرلو۔ ایک دن قوی بہت بڑا آرٹسٹ بنے گا۔ کامیڈی بھی وہ اچھی کرسکتا ہے۔ میری فلموں میں کام کر رہا ہے۔ کہو تو بلا لوں۔بہت اچھا لڑکا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’مگر شباب صاحب ہم نے یہ کردار لہری صاحب کیلئے لکھا ہے‘‘۔
انہوں نے ایک پڑیا میں سے پان نکال کر کھایا۔ سگریٹ کیس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سنہری لائٹر سے سلگائی پھر کہنے لگے ’’یار ایک بات تو بتاؤ۔ یہ مکالمے وغیرہ تم خود ہی لکھتے ہو یا کسی اور سے لکھواتے ہو؟‘‘
ہم نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی۔یہ بات تمہیں نہیں معلوم ہے؟‘‘
بولے ’’اگر تم خود ہی لکھتے ہو تو پھر کیا پرابلم ہے۔ بھئی قوی کے مطابق ان میں ترمیم اور رد و بدل کرلو۔ یا رتم نئی کاسٹ لے کر فلم بنا رہے ہو۔ لہری کو اتنے پیسے دو گے تو کیسے کام چلے گا‘‘۔
ہم نے فکر مند ہوکر پوچھا ’’یار قوی کی کامیڈین کے طور پر کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔ لہری کا بڑا نام ہے۔ کافی فرق پڑتا ہے‘‘۔
بولے ’’پڑتا تو ہے مگر بجٹ پر بھی کافی فرق پڑتا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ تمہاری فلم میں قوی بھی کامیڈین بن جائے گا۔ وہ بہت اچھا آرٹسٹ ہے۔ آدمی بھی شریف ہے‘‘۔
’’ہاں۔ یہ تو ہے‘‘۔ ہم نے کہا ’’کتنے پیسے لے لے گا‘‘۔
’’یار تم اس سے بات تو کرو۔ پیسوں کا کیا ہے۔ لہری کے مقابلے میں بہت کم لے گا۔ جو بھی دو گے مان جائے گا۔ بہت لحاظ مروت والا آدمی ہے‘‘۔
’’پھر بھی؟‘‘
’’یہ بعد کی بات ہے۔ پہلے تم اپنا ذہن تو بناؤ‘‘۔
ہم چند منٹ سوچتے رہے۔ پائپ سلگایا۔ چائے کی ایک اور پیالی پی۔ دل تو نہیں مان رہا تھا مگر لہری صاحب نے معاوضہ بہت زیادہ مانگ لیا تھا اور ان کی جو بات ہمیں اچھی نہیں لگی وہ یہ تھی کہ بڑے آرام سے کہنے لگے ’’آفاقی صاحب آپ کے فائدے کی بات ہے۔ اتنے میں بھی آپ نقصان میں نہیں رہیں گے۔ میری مانیں تو مجھے سائن کرکے رکھ لیں۔ آٹھ مہینے بعد یہ ایگری منٹ کسی اور کو بیچ دیں گے تو بھی فائدے میں رہیں گے‘‘۔
ہم نے کہا ’’لہری بھائی! اگر یہی کام کرنا ہو تو کوئی پلاٹ نہ خرید لیں جس کی قیمت لازمی طور پر بڑھتی رہتی ہے‘‘۔
سچ تو یہ ہے کہ لہری بھائی سے ہمیں یہ امید نہ تھی کہ ہمارا اتنا بھی لحاظ نہیں کریں گے۔ ان سے تو ہم نے یہی کہا تھا کہ ہم ان کی بات کا بالکل برا نہیں مانیں گے مگر درحقیقت ہمیں ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ چند منٹ غور کرنے کے بعد ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اس کردار کیلئے قوی بھی موزوں رہیں گے۔ اگرچہ لہری والی بات شاید نہ ہو۔
شباب صاحب نے ہماری طرف دیکھا۔ ٹیلی فون اٹھایا اور ہم سے کچھ پوچھے بغیر ہی قوی کو فون ملانے لگے۔کہتے ہیں کہ گہرے دوستوں کے درمیان ٹیلی پیتھی کا رابطہ ہوتا ہے۔ ہم نے کئی بار آزمایا اور اس بات کو درست ہی پایا۔
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے ہی قوی صاحب آگئے۔ ان سے ملاقات تو تھی۔ علیک سلیک بھی ہوجاتی تھی مگر بے تکلفی نہیں تھی۔ وہ بہت تکلف کرنے والے آدمی ہیں۔ بعد میں جب ان سے بہت زیادہ بے تکلفی ہوگئی اور زیادہ ملنا بھی ہوا پھر بھی انہوں نے اپنی وضع نہیں چھوڑی۔ باتیں وہ کم کرتے ہیں۔ زیادہ تر دوسروں کی سنتے رہتے ہیں اور مسکراتے رہتے ہیں۔ بہت خوب آدمی ہیں۔
ہم نے انہیں اپنی کہانی اور ان کے کردار کے بارے میں بتایا۔ وہ حسبِ عادت خاموشی اور توجہ سے سنتے رہے۔ آخر میں پوچھنے لگے ’’شوٹنگ کب کریں گے؟‘‘
ہم نے بتایا ’’آٹھ مہینے بعد‘‘۔
’’ٹھیک ہے مجھے ڈیٹس لکھوا دیجئے‘‘۔
ہم نے انہیں ڈیٹس لکھوا دیں۔ انہوں نے معاوضے کی بات نہیں کی۔
آخر ہم نے شباب صاحب سے کہا ’’معاوضے کا فیصلہ آپ کردیجئے‘‘۔
شباب صاحب نے ایک رقم بتائی اور پوچھا ’’کیوں قوی! ٹھیک ہے؟‘‘
قوی صاحب مسکرائے ’’جی بالکل ٹھیک ہے‘‘۔
لیجئے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ مگر بات ختم نہیں ہوئی۔ لہری صاحب نے یوں تو ایک طرح سے ہمیں جواب ہی دے دیا تھا مگر وہ کردار ان کے دل میں بس گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب ہمایوں مرزا صاحب کو ہم نے اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض سونپے تو انہیں اداکاروں کے بارے میں بھی بتایا۔
دو دن بعد مرزا صاحب ہم سے ملے اور بولے ’’آفاقی صاحب! آپ کامیڈی کیریکٹر کیلئے لہری کو کیوں نہیں لیتے؟‘‘
ہم نے انہیں سارا قصہ سنایا۔
وہ کہنے لگے ’’ہم نے لہری سے بات کی ہے۔ وہ آپ کیلئے رعایت کردے گا‘‘۔
ہم نے کہا ’’مگر ہمایوں صاحب! اب تو یہ ممکن نہیں ہے۔ قوی سے بات کرچکے ہیں‘‘۔
’’کیا اس سے ایگری منٹ سائن کیا ہے۔ ایڈوانس دیا ہے؟‘‘
’’نہیں تو مگر۔۔۔‘‘
’’تو پھر کیا پرابلم ہے۔ لہری کو ہم آپ کے بجٹ کے مطابق راضی کرلیں گے‘‘۔
ہم نے کہا ’’جوہونا تھا ہوچکا۔ ہم قوی کو زبان دے چکے ہیں۔ ان سے ڈیٹس لے چکے ہیں۔ اب اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی‘‘۔
ہمایوں مرزا صاحب اس کے بعد بھی ہمیں لہری صاحب کو کاسٹ کرنے کے بارے میں رضامند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی دلیلوں میں وزن بھی تھا۔ جب ہم لہری اور قوی کا اس مزاحیہ کردار میں موازنہ کرتے تو پلڑا لہری صاحب کے حق میں جھک جاتا تھا۔ مگر ہم اپنے وعدے پر قائم رہے۔ جب قوی نے شوٹنگ میں حصہ لیا تو ہمارے اندیشے اور وسوسے دور ہوگئے۔ لہری صاحب کو ہم سالہا سال سے مزاحیہ کرداروں میں دیکھتے رہے تھے۔ ان کی اداکاری اور مکالمے بولنے کا انداز ہمار ذہن میں نقش ہوچکا تھا اس لیے شوٹنگ کے دوران میں بھی ہم دل ہی دل میں پچھتاتے رہے۔ مگر جب رش پرنٹ تیار ہوئے اور قوی صاحب کو اسکرین پر دیکھا تو سیروں خون بڑھ گیا۔ قوی نے یہ کردار بہت خوب اور مہارت سے ادا کیا تھا اور بعد میں فلم بینوں نے بھی انہیں بہت سراہا۔ یہاں تک کہ لہری صاحب نے بھی ہم سے قوی کی اداکاری کی تعریف کی۔ ’’سزا‘‘ قوی کی فلمی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی لے کر آئی۔ اس کے بعد انہوں نے اور بھی کئی فلموں میں مزاحیہ اداکاری کی اور دیکھنے والوں سے داد حاصل کی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)