فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 194
آغا صاحب نے گول چکّر پہ نصب خوبصورت آہنی جنگلے سے ٹیک لگا کر آہستہ سے اوپر نیچے ہوتے ہوئے (یہ ان کی ایکسر سائز تھی) ہم سے کہا ’’دیکھو آفاقی میں تمہارے بارے میں جانتا ہوں کہ تم پر اپنے خاندان کا بوجھ ہے۔ بہت ذمّہ داریاں ہیں۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ تم یہ ذمّہ داریاں بہت اچھّی طرح نبھا رہے ہو۔ تم سیلف میڈ انسان ہو۔ یہ بھی بہت اچھّی بات ہے۔ ‘‘
ہم خاموش رہے۔ ظاہر ہے اپنی تعریف سن کر شریف آدمی کچھ شرمندہ سے ہو جاتے ہیں۔ اب تک آغا صاحب ہمارے چہر ے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظریں ہماری نظروں سے متصادم تھیں۔ مگر پھر اچانک انہوں نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔ ان کی یہ بھی عادت تھی کہ وہ کوئی اہم یا کاروباری بات نظر سے نظر ملا کر نہیں کرتے تھے۔
کہنے لگے ’’مجھے سنتوش نے بتایا ہے کہ تمہاری کہانی بہت اچھّی ہے۔ تمہارا ڈائریکٹر بھی اچھّا ہے۔ کاسٹ پر مجھے تھوڑا اعتراض ہے مگر خیر۔ جو تم مناسب سمجھو۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم ایک کارکن ہو۔ رائٹر ہو تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اگر دوسروں کے پیسے سے فلم بناؤ گے تو وہ تمہاری کھال اتار لیں گے۔ ڈسٹری بیوٹرز تمہاری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اونے پونے تمہاری فلم خریدیں گے۔ اس طرح فلم بنانے سے کیا فائدہ؟‘‘
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 193 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آغا صاحب نے بات جاری رکھی ’’میں تمہیں ایک پروپوزل دے رہا ہوں۔ سوچ لو۔ پھر جواب دے دینا۔ پروپوزل یہ ہے کہ تمہاری فلم پر جو خرچہ ہوگا وہ میں تمہیں دیتا رہوں گا۔ اداکاروں‘ میوزک والوں اور پروڈکشن کے اخراجات جیسے جیسے کام آگے چلے تم مجھ سے لیتے رہو۔ ہاں ڈائریکٹر یا رائٹر کو اس عرصے میں معاوضہ نہیں دوں گا۔ اس کے سوا دوسرے تمام اخراجات میرے ذمّہ ہوں گے۔ تم اطمینان سے فلم بناؤ۔ جب مکمّل ہو جائے گی تو ڈسٹری بیوٹر سے اپنی شرائط منوا لینا۔ کیوں کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’بہت اچھّا خیال ہے آغا صاحب‘‘ ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
آغا صاحب بولے ’’اس کے عوض میں تم سے تمام بزنس پر پندرہ فیصد کمیشن لوں گا۔‘‘
’’کہاں کے بزنس پر؟‘‘ ہم نے پوچھا’’ پنجاب اور کراچی کے؟‘‘
’’نہیں ساری دنیا میں یہ فلم جو بزنس کرے گی اس پر میرا کمیشن پندرہ فیصد ہوگا۔ پاکستان میں‘ باہر کے ملکوں میں ہر قسم کے بزنس پر یہی ریٹ ہوگا۔ ‘‘
ہماری تو سمجھ میں ہی کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اس اچانک اور غیر متوقع پیشکش کے جواب میں کیا کہیں؟
وہ کہنے لگے ’’خلیل قیصر سے میں نے ان ہی شرائط پر ایگریمنٹ کیا ہے۔ اس سے میں بیس فیصد کمیشن لے رہا ہوں۔ مگر تم سے پندرہ فیصد لوں گا۔‘‘
خلیل قیصر ان دنوں فلم ’’شہید‘‘ بنا رہے تھے۔
آغا صاحب کی اس محبت بھری مخلصانہ پیشکش نے ہمیں واقعی بوکھلا دیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر ہمارا دل بھر آیا کہ وہ کتنے مہربان اور شفیق ہیں۔ کتنے اچھّے اور ہمدرد انسان ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو ہم پر پہلی بار منکشف ہوا تھا۔
آغا صاحب ہماری ذہنی الجھن کو بھانپ گئے۔ مسکرا کر کہنے لگے۔ ’’تم اچھّی طرح سوچ لو، طارق سے بھی مشورہ کر لو۔ وہ تمہارا ڈائریکٹر بھی ہے اور دوست بھی۔ جب فلم شروع کرنا چاہو مجھے بتا دینا۔‘‘
’’شکریہ آغا صاحب‘‘ ہم نے بڑی مشکل سے اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو روکا مگر شاید آواز پھر بھی بھرا گئی تھی۔
ہم آغا صاحب کے پاس سے چند سیڑھیاں اتر کر گول چکّر سے نیچے کھڑے ہوگئے ۔ ساری دنیا‘ فضا‘ ماحول‘ لان‘ باغ‘ پھول‘ فوارّے‘ روشنیاں زمین آسمان سب کے سب ہمیں بدلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ دُھند چھٹ سی گئی تھی۔ ہر طرف روشنی اور اجالا تھا۔ رنگ تھے روشنیاں تھیں۔ دل کے اندر گھنٹیاں سی بج رہی تھیں۔ خوشی کے مارے ہنسنے کو جی چاہ رہا تھا مگر دل تھا کہ بھرا آ رہا تھا۔ چند لمحے ہم اسی کیفیت میں مبتلا رہے۔ اس دوران میں ہمارے پاس سے کون گزرا۔ کس نے ہمیں مخاطب کیا۔ کس نے فقرہ چست کیا۔ کس نے ہم سے مصافحہ کیا؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ ہم تو جیسے بادلوں میں اڑ رہے تھے۔ آسمانوں پر سفر کر رہے تھے۔ وہی مثل تھی کہ بن مانگے ملے موتی‘ مانگے ملے نہ بھیک‘ یعنی ذرا غور فرمائیے کہ ہم جب فلم بنانے کے لئے سرمایہ حاصل کرنے کے سلسلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے تو ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی تھی اور اب جب کہ وہ بات ہی ذہن میں نہ تھی تو آغا گل جیسی ہستی نے بذات خود ہمیں ایک خصوصی پیشکش کر دی تھی جو بظاہر ہمارے لئے بہترین اور مثالی صورت تھی۔
کچھ دیر بعد جب ہمارے حواس واپس آئے تو ہم نے خوشی سے چھلانگ ماری اور حسن طارق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
پہلے تو انہیں سٹوڈیوز میں تلاش کیا۔ پھر مختلف دفتروں اور گھروں میں فون کر کے دریافت کیا۔ آخر میں معلوم ہوا کہ وہ نگہت سلطانہ کی کوٹھی پر تشریف فرما ہیں۔
ہم نے فوراً فون کر کے پوچھا ’’طارق صاحب آپ کہاں ہیں؟‘‘
وہ حیران رہ گئے ’’آفاقی صاحب کیا بات ہے۔ طبعیت تو ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘
’’جی بالکل بس آپ وہیں رہیے ہم آ رہے ہیں۔‘‘
باہر نکل کر ہم نے ایک ٹیکسی حاصل کی اور گلبرگ پہنچ گئے۔ طارق صاحب ہمیں دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ ’’آفاقی صاحب خیریت تو ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’طارق صاحب ہمارا کام بن گیا ہے‘‘
’’کون سا کام‘‘
’’فلم والا‘‘
ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اتنی دیر میں نگہت سلطانہ بھی آگئیں۔ ’’ارے آفاقی اچانک بے وقت چاند کیسے نکل آیا۔‘‘
ان سے ہماری نوک جھونک جاری رہتی تھی مگر اس وقت ہم فارغ نہیں تھے۔ ہم نے کہا جلدی سے چائے کا بندوبست کر دیں اور تھوڑی دیر اس طرف نہ آئیں۔
انہوں نے حیران ہو کر ہمیں دیکھا اور پھر گردن ہلا کر رخصت ہوگئیں۔
ہم نے طارق صاحب کو مختصر اور موزوں الفاظ میں آغا صاحب کی گفتگو اور پیشکش سے آگاہ کیا اور پھر پوچھا ’’کیوں طارق صاحب بہترین پرپوزل ہے کہ نہیں؟‘‘
طارق صاحب اطمینان سے سنتے ر ہے تھے کچھ دیر سوچا ایک سگریٹ سلگائی چند کش لئے اور پھر بولے ’’آفاقی صاحب بہت اچھّی پرپوزل ہے مگر اس میں دو خرابیاں ہیں‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ ہم نے پوچھا
’’ایک تو یہ کہ آغا صاحب آپ کو یک مشت رقم نہیں دیں گے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر روز کے اخراجات کے لئے سو روپے دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو معاوضے کے حساب میں رقم دینا ہو وہ فہرست آغا صاحب کے دفتر کو دی جاتی ہے اور وہ لوگ آرٹسٹوں اور ٹیکنیشنز کو پھیرے لگواتے ہیں۔ اب آپ خود سوچئے کہ ان لوگوں سے کام تو ہم لیں گے مگر پیسوں کی ادائیگی کے لئے انہیں دوسرے دفتر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ اس طرح کام کرنے والوں میں بددلی پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘
ہمیں بھی آغا صاحب کے دفتر کا یہ دستور معلوم تھا کہ وہاں بل وصول کرنے والوں کو چکّر لگانے پڑتے ہیں۔
’’اور؟‘‘ ہم نے پوچھا
’’دو سرے یہ کہ فلم کے تمام بزنس پہ وہ پندرہ فیصد کمیشن لیں گے۔ ڈسٹری بیوٹر جو دے گا اس پر بھی۔ آپ نے حساب لگایا ہے کہ یہ کتنی رقم بن جائے گی اور آپ کے پلّے کیا پڑے گا؟‘‘
ہم نے سرسری سماعت کے بعد فوراً کہا ’’مگر طارق صاحب اس کے سوا کوئی اور طریقہ بھی تو نہیں ہے فلم بنانے کا۔ ہمارے پاس ہے ہی کیا۔ اس طرح ڈسٹری بیوٹر کے ہاتھ اونے پونے فلم نہیں بیچنی پڑے گی۔ ایک بار یہ مشکل اٹھا لیں گے۔ اگلی بار اپنی سہولت کے مطابق بندوبست کریں گے۔‘‘
طارق صاحب کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہا ’’آپ مجھے سوچنے دیں ،کل جواب دوں گا۔‘‘
نگہت سلطانہ چائے اور بسکٹ لئے منتظر تھیں۔
اس رات ہم جب گھر لوٹے تو بے حد مسرور اور مطمئن تھے۔
طارق صاحب چاہے جو بھی مشورہ دیں کم از کم ہمارے فلم ساز بننے کا منصوبہ تو پایہ تکمیل تک پہنچتا نظر آنے لگا تھا۔
وہ رات ہم نے جاگتی آنکھوں سے گزاری۔ علی الصبح کار کے ہارن کی آواز نے چونکا دیا۔ طارق صاحب ہمارے گھر اچانک آن دھمکے تھے۔ ہم نے چائے وغیرہ کے لئے کہا۔ وغیرہ سے مراد ناشتا۔
طارق صاحب تمہید کے بغیر بولے ’’آفاقی صاحب میں نے بہت سوچا ہے مگر میرا خیال وہی ہے جو کل بتا چکا ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی سوچئے کہ فلم کے خاتمے تک مجھے ڈائریکشن کا اور آپ کو کہانی کا معاوضہ نہیں ملے گا۔ پروڈکشن کے لئے آپ دوسرے کام چھوڑ کر جو وقت نکالیں گے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ خیر آغا صاحب نے آپ پر بہت مہربانی کی ہے وہ تو کسی کے ساتھ ایسی رعایت کرتے ہی نہیں ہیں۔ مگر ہر پہلو پر سوچنا بھی آپ کا فرض ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘ ہم نے کہا ’’فلم بنانے کا کوئی اور طریقہ ہمارے ذہن میں نہیں ہے۔ پیسوں کے بغیر فلم کیسے بن سکتی ہے؟‘‘
انہوں نے سگریٹ کے چند کش لئے اور پُر خیال انداز میں بولے ’’آپ اگر برا نہ مانیں تو میں ایک بات کہوں؟‘‘
’’یہ آپ کیسی باتیں کر ر ہے ہیں جو جی میں آئے کہیے‘‘
کہنے لگے ’’آفاقی صاحب آپ مناسب سمجھیں تو ہم دونوں مل کر یہ فلم بنا لیں؟‘‘
ہم نے حیران ہو کر انہیں دیکھا ’’طارق صاحب ہم دونوں مل کر ہی تو یہ فلم بنا رہے ہیں۔‘‘
کہنے لگے’’ میرا مطلب ہے ہم دونوں فلم ساز اور حصّے دار ہو جائیں؟‘‘
’’بہت خوب مگر سرمایہ‘‘
بولے ’’میرے پاس گلبرگ میں ایک پلاٹ ہے۔ اسے بیچ کر دس ہزار روپے مل جائیں گے۔ میری بہن تو بہت مخالفت کر رہی ہے مگر میں نے سوچا ہے کہ اسے بیچ کر ہم دونوں یہ فلم بنائیں۔ دس ہزار میرے پاس ہیں۔ پونے دو ہزار آپ کے پاس ہیں۔ فلم کی شوٹنگ شروع کر لیں گے۔ تھوڑے بہت اور بھی ڈال دیں گے۔ کافی کام بھی ختم ہو جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ فلم کے سیٹ پر جاتے ہی ہماری فلم بک جائے گی۔ کیوں کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’مگر آپ کو پلاٹ بیچنا پڑے گا۔‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’پلاٹ کا کیا ہے پھر خرید لیں گے۔ اللہ مالک ہے۔‘‘
ہم نے فوراً ہامی بھر لی۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی سن لیجئے کہ اس پلاٹ کو وہ دوبارہ نہیں خرید سکے۔ اس کی قیمت آج کل دوڈھائی کروڑ روپے ہے اور طارق صاحب دوبارہ اس پلاٹ کو نہیں خرید سکے۔ اس میں ان کی بے پروائی اور درویش مزاجی کا زیادہ ہاتھ تھا۔
ہم نے کہا ’’مگر طارق صاحب آغا صاحب نے اتنی محبت اور مہربانی سے جو آفر دی تھی اس کا کیا کریں؟‘‘
بولے ’’ارے وہ کچھ دن میں خود ہی بھول جائیں گے۔ انہوں نے کسی اپنے مقصد سے تو یہ آفر نہیں دی ہے۔ وہ محض آپ کی ہیلپ کرنا چاہتے ہیں۔ مناسب سمجھیں تو آپ انہیں بتا دیں‘‘
دوسرے دن ہم آغا صاحب کے پاس پہنچ گئے ۔وہ اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ ’’آؤ آفاقی سناؤ کیا خبر ہے؟‘‘
ہم نے جھوٹی سچّی فلمی خبریں ان کے گوش گزار کرنے کے بعد کہا ’’آغا صاحب آپ نے جو کل پروپوزل دیا تھا اس کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں کہو‘‘
ہم نے کہا ’’ہم نے طارق صاحب سے مشورہ کیا تھا وہ ہمارے ساتھ مل کر فلم بنانے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تھوڑے سے پیسے ان کے پاس بھی ہیں۔‘‘
آغا صاحب بولے’’ یہ تو بہت اچھّی بات ہے۔ وہ فلم کا ڈائریکٹر ہے ،تمہارا دوست بھی ہے۔ فلم میں اس کا بزنس انٹریسٹ ہوگا تو زیادہ شوق اور محنت سے کام کرے گا، مگر دیکھو ڈسٹری بیوٹر سے ذرا سوچ سمجھ کر سودا کرنا۔ کوئی اور کام ہو تو مجھے بتا دینا۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے پشتو میں اپنے مخصوص چپڑاسی کو پکارا ’’بوستان چائے کیک روڑا‘‘ یعنی چائے اور کیک لاؤ۔
ہماری آنکھوں میں پھر نمی آگئی۔ آغا صاحب بعد میں بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ بہت مہربانی اور شفقت بھرا سلوک کرتے رہے جس کا ذکر مناسب مقامات پر ہوتا رہے گا۔
دوسرے دن سے ہماری فلم پر عملاً کام شروع ہوگیا۔
طارق صاحب اور ہم سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔انہوں نے دوبارہ سکرپٹ بہت غور سے پڑھا۔ پھر بولے ’’آفاقی صاحب یہ بہت اچھّا سکرپٹ ہے صبیحہ بھابھی کا کردار تو بہت ہی جاندار ہے۔‘‘
’’صبیحہ بھابھی؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔ ’’ہماری فلم میں تو میڈم یاسمین ہیں۔‘‘
وہ مسکرائے ’’آفاقی صاحب یاسمین بہت اچھّی ایکسٹریس ہیں مگر یقین کریں صبیحہ خانم اس کردار کو لافانی بنا دیں گی‘‘
ہم نے کہا ’’مگر طارق صاحب یاسمین کو کیسے جواب دیں گے۔ اور پھر صبیحہ خانم نے تو گزشتہ ایک سال سے فلموں میں کام کرنا ہی بند کر دیا ہے‘‘
طارق صاحب بولے’’ یاسمین کو تو ہم منالیں گے، دیکھئے آفاقی صاحب کہانی کے معاملے میں ہرگز سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں کسی کا لحاظ کرنا فلم کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ یاسمین کو سمجھا لیں گے۔ ‘‘
’’اچھّا‘‘ ہم نے بے صبری سے کہا ’’مگر صبیحہ بھابھی تو پہلے ہی انکار کر چکی ہیں۔ ہم نے سنتوش صاحب سے بھی بات کی تھی مگر وہ کہتے ہیں کہ اب وہ خاتونِ خانہ بن چکی ہیں۔ فلموں میں کام نہیں کریں گی۔ ‘‘
طارق صاحب پھر معنی خیز انداز میں مسکرائے ۔ ’’انہیں کہنے دیجئے ہمیں اپنی کہنی چاہئے۔ کل صبح صبیحہ بھابھی کے پاس چلتے ہیں مگر آپ آج ہی یاسمین سے بات کر لیجئے۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’اگر صبیحہ نے انکار کر دیا تو؟‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ طارق صاحب نے پورے وثوق اور اعتماد سے کہا ’’جب ہم نے سوچ ہی لیا ہے کہ وہ کام کریں گی تو پھر وہ کام کریں گی۔ اگر مگر کا کیا سوال ہے۔ انکار ہم ہرگز نہیں سنیں گے۔ ‘‘
طارق صاحب کی اس بات اورپُراعتماد لہجے نے ہمارے جسم میں ایک لہر سی دوڑا دی۔ واقعی ٹھیک تو ہے جب ’’نہ‘‘ سننی ہی نہیں تو ان کے کام ’’نہ‘‘ کرنے کا کیا سوال ہے۔ چاہے کچھ ہو جائے۔ انہیں ہماری فلم میں کام کرنا ہی پڑے گا۔ ہم یہ سوچ کر ایک دم پُرعزم ہوگئے۔
طارق صاحب نے اس روز ہمیں ایک ایسا سبق سکھا دیا جس پر آئندہ بھی ہم زندگی بھر عمل کرتے رہے۔ انگریزی کہاوت کے مطابق انہوں نے کہا تھا۔
NEVER TAKE NO FOR AN ANSWER
یعنی کسی سوال کے جواب میں انکار قبول ہی نہ کرو۔
دوسرے دن جب ہم دونوں سنتوش صاحب کی کوٹھی کی جانب جا رہے تھے تو ایک نیا عزم ہمارا ہم سفر تھا۔ میڈیم یاسمین سے ہم گزشتہ رات ہی معذرت اور بات کر چکے تھے اور انہوں نے نہایت خندہ پیشانی اور وسیع الظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ہماری بات مان بھی لی تھی۔ یعنی طارق بن زیاد کی طرح ہم نے بھی اپنی ساری کشتیاں جلا دی تھیں اور بہرصورت فتح اور کامیابی ہی ہماری منزل تھی۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 195 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)