فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 195
حسن طارق صاحب کے پاس آف وائٹ رنگ کی ویگن تھی۔ اس وقت تک وہ ایک کامیاب ہدایت کار بن چکے تھے۔ بلکہ فلمساز بھی بن گئے تھے۔ وہ اور خلیل قیصر بے تکلف دوست تھے اور اُس زمانے میں پاکستان کی فلمی دنیا میں ان دونوں کا سِکّہ چلتا تھا۔ یہ مقام ان دونوں نے بڑی محنت اور مُشقّت کے بعد حاصل کیا تھا۔ اس کامیابی کا آغاز کب اور کیسے ہوا تھا،یہ ہم آ پ کو بتا دیں گے مگر وقت آنے پر۔
حسن طارق نے اُس زمانے کے حساب سے معقول پیسے کمائے تھے مگر پیسہ خرچ کرنے بلکہ لٹانے کے معاملے میں بڑے شیر تھے۔ پیسہ آنے سے پہلے ہی وہ اسے خرچ کر دیتے تھے۔ یعنی جس آمدنی کی توقعّ ہے اس حساب میں سامان خرید لیا۔ سیر و سفر کرلیا ،تاش کھیل کر ہارگئے اور جب پیسہ ملا تو ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا۔
تب وہ بیزاری سے کہتے ’’آفاقی صاحب یہ تو نری بیگارہی ہے ،اتنی محنت کی اور ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ ‘‘
ہم کہتے ’’طارق صاحب‘ ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی آپ نے خرچ کر دیا تو پھر شکوہ کیسا؟‘‘
’’کچھ نہیں بکواس ہے سب ۔میں تو کہتا ہوں کہ بلا وجہ کی جان ماری ہے۔‘‘
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 194 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیسہ خرچ کرنے کے معاملے میں وہ حاتم طائی تھے۔ کسی دوست نے مانگا اور اگر پاس ہوا تو بے دریغ دے دیا۔ وہ واپس کرے یا نہ کرے‘ یہ اس کا ایمان جانے‘ مجال ہے جو طارق صاحب واپس مانگ لیں۔ اگر کبھی بہت زیادہ تنگی ہو جاتی تو شکایت کرتے ’’آفاقی صاحب دیکھا آپ نے فلاں صاحب نے اتنا پیسہ لیا تھا۔ اب مجھے ضرورت ہے مگر لوٹانے کا نام نہیں لیتے۔‘‘
’’بھئی آپ تقاضا کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’اچھا نہیں لگتا۔ انہیں خود ہی احساس ہونا چاہئے۔ آخر وہ میرے دوست بھی ہیں اور آج کل تو ان کے پاس پیسے بھی ہیں۔‘‘
ہم تجویز پیش کرتے ’’تو پھر ہم بات کریں اُن سے؟‘‘
’’ارے نہیں ‘‘وہ گھبرا جاتے ’’برا لگتا ہے، وہ بھی کیا سوچیں گے کہ انہوں نے ضرورت کے وقت پیسہ لیا اور میں نے اس کا ڈھنڈورا پیٹ دیا۔ آپ کے سوا کسی اور کو میں نے بتایا تک نہیں ہے۔‘‘
’’مگر طارق صاحب اگر انہیں خیال نہیں آتا تو۔‘‘
وہ ہنسنے لگتے ’’آ جائے گا کبھی تو آ جائے گا‘‘۔ پھر مذاق میں کہتے ’’آفاقی صاحب بھئی آپ بڑے ساہوکار ٹائپ آدمی ہیں۔ میں نے انہیں قرضہ سمجھ کر تھوڑا ہی دیا تھا۔ بس دوست کے کام آنے کا خیال تھا۔‘‘
’’مگر وہ تو آپ کے کام نہیں آ رہے‘‘ ہم جل کر کہتے۔
وہ شرارت آمیز انداز میں مسکراتے ’’یہ بتائیے کہ آپ نے کتنے لوگوں سے اپنے واجبات وصول کرنے کیلئے تقاضا کیا ہے؟‘‘
ہم لاجواب ہو کر بغلیں جھانکنے لگتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دونوں میں بظاہر بہت زیادہ دوستی تھی۔ گہری دوستی کے باوجود لحاظ اور تکلّف کا ایک پردہ ہمیشہ ہمارے درمیان ضرور قائم رہتا۔ وہ خاصے پھکّڑ آدمی تھے۔
’’اوئے توئے‘‘ سے بات کر لیتے تھے۔ بے تکلّف دوستوں کے ساتھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہو جاتا تھا مگر ہم دونوں کے مابین ایک خاموش معاہدہ خودبخود سائن ہو گیا تھا۔ انہوں نے ہمیں بہت کم ’’آفاقی کہا‘‘ ہوگا۔ آفاقی صاحب ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ہماری غیر موجودگی میں بھی ہمارے تذکرے میں نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ ضرور لگاتے تھے۔ تُو تڑاق کا بھی آپس میں کوئی سوال نہ تھا۔ جب دیکھو ’’آپ جناب آئیے بیٹھئے کھائیے قسم کی گفتگو ہی ہوتی تھی۔ ہم تو خیر عموماً ہر ایک سے ’’آپ جناب‘‘اور ’’صاحب‘‘ ہی کہہ کر بات کیا کرتے تھے۔ جو لوگ ہمیں بے تکلّفی میں تم یا محض نام لے کر مخاطب کرتے تھے اور حد سے زیادہ بے تکلّف تھے ان سے بھی ہم صاحب اور آپ جناب ہی کرتے تھے۔ کچھ عادت سی بن گئی تھی کہ کوشش کے باوجود چھوٹوں کوبھی ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا جاتا۔ ویسے جب سے ’’بزرگ‘‘ ہوگئے ہیں اپنے چھوٹوں کو بڑی احتیاط سے اور کوشش سے ’’تم‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ طارق صاحب کو ہم نے ہمیشہ طارق صاحب ہی کہا۔ کبھی محض طارق نہیں کہا۔ ان کی خوبی دیکھئے کہ ترنگ کے عالم میں بھی ہمیں آفاقی صاحب اور آپ ہی کہتے رہے۔ ایک بار ہماری غیر موجودگی میں کسی اختلافی مسئلے پر یار لوگوں نے محفل خاص میں انہیں ہمارے خلاف خوب بھڑکانے کی کوشش کی۔ اشتعال دلایا۔ طارق صاحب میں کسی کیلئے برداشت کہاں تھی۔ ایک دم بھڑک اٹھتے تھے۔ مگر ہمارے بار ے میں وہ صرف اتنا کہہ کر چپ ہو جاتے تھے۔’’ آفاقی صاحب کی اپنی رائے ہے وہ سوچ سمجھ کر ہی رائے قائم کرتے ہیں۔ ‘‘
اور اس طرح بات ہی ختم ہو کر رہ جاتی تھی۔
ہمارے مقابلے میں ان کی ریاض شاہد اور خلیل قیصر سے بہت زیادہ بے تکلّفی تھی۔ ہر قسم کا مذاق گالم گلوچ فقرے بازی روا سمجھی جاتی تھی۔ وہ لوگ شام کی محفلوں کے ہم جلیس بھی تھے۔ ہم تو کچھ دیر بیٹھ کر اور کوکا کولا، چائے، کافی پی کر رخصت ہو جاتے تھے۔ ان کی مخصوص محفلیں ان ہی دوستوں کے ساتھ جما کرتی تھیں۔ مگر ہمیں ہمیشہ یہ برتری اوراحساس رہا کہ طارق صاحب ہم سے اور ہم ان سے بہت قریب ہیں۔ دل کی بہت سی باتیں جو وہ کسی اور سے نہیں کرتے تھے ہم سے کر لیا کرتے تھے مگر ایک خاص حد میں رہ کر، اب اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ ان کا ہر سیریس قسم کا رومانس جو شادی پر ختم ہوا۔ آغاز سے انجام تک ہماری آنکھوں کے سامنے ہی پروان چڑھا تھا۔ نہ ریاض شاہد کو علم تھا نہ خلیل قیصر یا کسی اور کو ۔۔۔ہم ہی ان کے ہمراز اور مشیر تھے۔
ایمی مینوالا سے طارق صاحب کا آغاز محبت جو مذاق سے شروع ہوا تھا بڑھ کر شادی تک پہنچ گیا۔ یہ ہمارے نہ صرف علم میں تھا بلکہ اس میں ہماری کوششوں کو بھی دخل تھا۔ پھر جب علیحدگی ہوئی تو وہ اسباب بھی ہماری آنکھوں نے دیکھے۔
اسی طرح رانی سے ایک دن ہمارے سامنے انہوں نے ٹیلی فون پر بات کی جو ذرا لمبی ہوگئی۔ بات مذاق سے شروع ہوئی تھی مگر اتنی سیریس ہوگئی کہ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی وہ رانی سے قریب تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی ہم ان دونوں کے دوست اور ہم راز تھے مگر ایک کے راز یا بھید کی دوسرے کو بھِنک تک نہ ہونے دی۔ پھر تلخیاں سایہ فگن ہوئیں۔ دونوں کے مسائل شکایات ہمارے سامنے تھے۔ یہاں تک کہ دونوں میں طلاق ہوگئی۔ طارق صاحب نے اس موضوع پر بہت کم ہی لب کشائی کی مگر رانی ہم سے اکثر یکایک پوچھ بیٹھتی تھیں۔
’’ دیکھئے نا آفاقی صاحب ۔اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے نا۔ سب کچھ تو آپ کے سامنے ہے۔ ‘‘
وہ کسی حد تک درست بھی تھیں کسی حد تک غلط بھی تھیں۔ طارق صاحب بھی صحیح بھی تھے اور غلط بھی۔ ہم تو اپنی رائے ظاہر کر دیا کرتے تھے۔ جواب میں وہ دونوں ہی چپ سادھ لیتے، کیسے لوگ تھے؟ کیسا زمانہ تھا؟ اب تو وہ دونوں ہی نہیں رہے۔ کہانیاں اور باتیں رہ گئی ہیں۔ مگر ہمارے ذہن اور دل سے یہ کبھی نہ مٹ سکیں گے۔ شاعر ٹھیک ہی تو کہتے ہیں دل سے بڑا قبرستان اور کہاں ہوگا۔ اس میں انسانوں کی یادیں دفن ہو جاتی ہیں۔ ہر ایک پر کتبے لگے ہوئے ہیں۔ سب اپنی یادوں اور کتبوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ فاتحہ خوانی کے لئے کہیں آنے جانے کی حاجت بھی نہیں ہے۔ خیال آیا اور دعا کر لی۔ فاتحہ پڑھ لی جیسے کہ شاعر نے کہا ہے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
ہمیں تو یاروں دوستوں کی تصویریں دیکھنے کیلئے گردن جھکانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ نہ آنکھیں بند کرنے کی محتاجی ہے۔ کھلی آنکھوں‘ بھری محفلوں میں بیٹھے بیٹھے اس قبرستان میں جا پہنچتے ہیں۔ ان کی باتیں یاد کر کے ہنستے بھی ہیں غمگین بھی ہو جاتے ہیں۔ آس پاس والوں کو خبر تک نہیں ہوتی اور ہم قبرستانوں کے چکّر کاٹ کر واپس بھی آ جاتے ہیں۔ مگر جو وقت بھی گزرا حاصل زندگی گزرا۔ جو لوگ بھی ملے ایک قیمتی سرمایہ تھے۔ کمزوریاں ہر ایک میں ہوتی ہیں مگر ان میں تو خوبیاں بھی بے بہا تھیں۔ تب ہی تو یاد رہ گئے۔ سالہا سال ساتھ رہا‘ یہ اب کیسے ٹوٹ جائیگا دیکھئے حفیظ جالندھری یاد آگئے۔
نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ، اب تو واقعی نصف صدی ہونے کو آئی ہے۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 196 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)