فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ تینتالیسویں قسط
ان کے گھر سے کچھ دور پہنچتے ہی مظہر یوسف زئی نے ہم سے جھگڑا شروع کر دیا۔
’’کمال کرتے ہو۔ میری عزت خاک میں ملا دی۔ میں نے دوست سمجھ کر وعدہ کیا تھا اور تم نے ذرا بھی لحاظ نہیں کیا۔‘‘
ہم نے کہا ’’بھائی وعدہ کیا تھا تو ہمیں بھی بتا دیا ہوتا۔ اتنی دیر میں بتایا کہ انٹرویو کے لئے وقت ہی باقی نہیں رہا تھا۔ ان سے پھر کبھی انٹرویو کر لیں گے۔‘‘
مگر مظہر صاحب روٹھے ہی رہے اور کئی دن تک ہم سے نہیں ملے۔
ہم نے دوسرے دن ’’مدرسہ البنات‘‘ میں فون کیا۔ یہ اس زمانے میں لاہور کی بہت بڑی اور مشہور‘ لڑکیوں کی درسگاہ تھی جہاں بڑی مشکل سے داخلہ ملتا تھا۔ ہم نے ہیڈ مسٹریس سے بات کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اگلے دن سہ پہر کا وقت طے کر دیا۔
بتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلے دن ہم ’’مدرستہ البنات‘‘ پہنچے تو ایک اور حیرت ہماری منتظر تھی۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے اس خیال سے کہ ایک صحافی ان کے اسکول میں آرہا ہے‘ خاص اہتمام کیا تھا۔ پہلے تو انہوں نے اپنے کمرے میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ پھر اسکول کا معائنہ کرایا۔ خاصے قاعدے قرینے کا اسکول تھا۔ ہمیں خیال بھی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ یہ وہی آئی پی سلوک کیا جا ئے گا مگر ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ معائنہ کرانے کے بعد ہمیں اسکول کے ہال میں لے گئیں جہاں مختلف کلاسوں کی طالبات اور استانیاں خصوصی طور پر اکٹھی کی گئی تھیں۔ انہوں نے ہمارے سامنے تقریر بازی کا مقابلہ پیش کیا۔ نظمیں اور نعتیں پڑھیں۔ اپنے اسکول اور طریقہ تعلیم کے بارے میں بتایا اور ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے آخر میں اسکول کے مسائل بھی پیش کر دیے۔ گویا یہ ایک طرح کا سپاسنامہ تھا۔ ہم اس دوران میں نہایت حیران وپریشان بیٹھے رہے۔ جب یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا تو ہم دوبارہ ہیڈ مسٹریس کے دفتر میں پہنچ گئے۔ انہوں نے چائے سے ہماری تواضع کی اور امید ظاہر کی کہ ہم ان کے اسکول کے بارے میں اپنے اخبار میں ضرور لکھیں گے۔ ہم نے فوراً وعدہ کر لیا مگر ہماری سمجھ میں نہیںآرہا تھا کہ حرف مدعا کیوں کر زبان پر لائیں۔
آخر ہم نے دل کڑا کر کے ان سے کہا ’’ہم بھی ایک مسئلہ آپ سے حل کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں فرمائیے؟‘‘
ہم نے بتایا کہ ایک فلم ایکٹریس پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دینا چاہتی ہیں۔ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ان کے امتحان کا داخلہ بھیج دیں‘‘۔
وہ تعجب سے ہمیں دیکھنے لگیں پھر بولیں ’’دیکھئے جب تک کوئی لڑکی ہمارے اسکول کی طالبہ نہ ہو اس کا داخلہ نہیں بھیجا جا سکتا۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’تو پھر آپ انہیں اپنے اسکول کی طالبہ بنا لیجئے۔ وہ فیس وغیرہ دینے کو تیار ہیں۔‘‘
انہوں نے پریشان ہو کر ہمیں دیکھا اور بولیں ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک فلم ایکٹریس کو اسکول میں داخلہ دے کر میں اپنے اسکول کے نام پر بٹہ لگوا لوں؟ معاف کیجئے یہ نا ممکن ہے۔‘‘
ہم نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں بولیں ’’اور کوئی کام ہو تو بتائیے۔ افسوس کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے اوپر والوں کی بھی جواب دینا ہوتا ہے اور دوسرے لڑکیوں کے والدین بھی اعتراض کریں گے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
ہم مایوس ہو کر چلے گئے۔ ان کے اسکول کے بارے میں تو ہم نے ایک فیچر بنا کر چھاپ دیا مگر صبیحہ خانم کو میٹرک کے امتحان میں داخلہ نہ دلا سکے۔ ہم نے یہ بات مظہریوسف زئی کو بھی بتا دی تھی۔ خدا جانے انہوں نے صبیحہ خانم کو بتائی یا نہیں۔ خود ہماری بھی ان سے کافی عرصے تک ملاقات نہ ہو سکی۔ اس طرح یہ پہلی ملاقات قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔ خدا جانے صبیحہ خانم کو یہ سب یاد بھی ہے یا نہیں؟
’’ شمی ‘‘ پنجابی فلم تھی جس کے فلم ساز ملکہ پکھراج کے شوہر شبیر حسین شاہ تھے بلکہ خود ملکہ پکھراج ہی سارے انتظامات کرتی تھیں۔ قصہ یہ ہوا کہ ’’ شمی ‘‘ میں زرینہ ریشماں ہیروئن تھیں۔ یہ بھی اس زمانے کی ہیروئن تھیں۔ بعد میں انہوں نے اپنا نام تبدیل کر کے یاسمین رکھ لیا۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد کیمرہ مین اور فلم ساز جعفر شاہ بخاری سے شادی کر کے مختصرسے عرصے کے لیے غائب ہو گئیں۔ مگر دوبارہ یاسمین کے نام سے نمودار ہو گئیں کچھ عرصے بعد انہوں نے سید شوکت حسین رضوی سے شادی کر لی جعفر شاہ بخاری سے ان کا ایک بیٹا ناصر تھا۔ وہ غالباً لندن میں ہے۔ سید شوکت حسین رضوی کے دو بیٹوں کی والدہ ہیں‘ دونوں بیٹے جوان ہو چکے ہیں اور شوکت صاحب کے حصے کا اسٹوڈیو کا کام سنبھالے ہوئے ہیں۔
**
ڈبلیو زیڈ احمد پنجاب کے ایک بہت عالی قدر خاندان کے فرد تھے۔ جس کا ہر فرد اس زمانے میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ سبھی لوگوں نے مختلف شعبوں میں مقام پیدا کیا تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد جیسا ادیب بھی اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ احمد صاحب کے دوسرے تمام بھائی اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے اور پاکستان آ کر بھی بڑے ممتاز افسر بنے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے بھی بی اے پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ وہ چاہتے تو دوسرے بھائیوں کی طرح مقابلے کے امتحان میں حصہ لے کر یقیناًسی ایس پی افسر بن کر حکمرانی کر سکتے تھے مگر ان کا رجحان فنون لطیفہ کی طرف تھا۔ وہ اردو‘ انگریزی اور پنجابی کے علاوہ بنگالی اور مرہٹی زبان بھی بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ قدرتی ذہانت سے مالا مال تھے۔ تخلیقی قوت ان کے اندر اتنی زیادہ تھی کہ ساری عمر اسے لٹانے اور ضائع کرنے کے باوجود آج بھی وہ نئی نسل کے لوگوں سے زیادہ تخلیقی کام کرنے کے اہل تھے۔ لیکن ان کے ساتھ المیہ یہ تھا کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرتے تھے۔ لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں فیل ہو جاتے تھے۔ انڈیا میں تو وہ اپنے سارے منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے وجہ یہ تھی کہ وہاں سرمایہ آسانی سے اور افراط میں مل جاتا تھا۔ مارکیٹ بھی بہت بڑی تھی۔ بڑے کاموں کے لئے انڈیا کی فلم انڈسٹری بہت مناسب تھی۔ احمد صاحب کے ساتھ قدرت نے یہ ستم ظریقی کی کہ انہوں نے فلمی زندگی کا آغاز انڈیا میں کیا اور بہت وسیع پیمانے پر کیا۔ اﷲ نے انہیں بے پناہ کامیابیوں سے نوازا جس کی وجہ سے روپے کی ریل پیل ہو گئی۔ بمبئی کے سرمایہ دار سیٹھ تو لکشمی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔ جو شخص انہیں دولت کما کر دیتا ہے وہ اس کے غلام ہو جاتے ہیں۔ احمد صاحب کی فلموں نے سارے ہندوستان میں دھومیں مچا دی تھیں‘ ہر طرف ان ہی کا چرچا تھا۔ شہرت اور دولت ان کی باندی تھی پھر سرمائے کی کیا کمی ہو سکتی تھی۔ وہ بڑے سے بڑا منصوبہ بھی بناتے تو اس کے لئے سرمایہ حاضر کرنے والے موجود تھے۔ مگر جب وہ پاکستان آئے تو انڈیا میں کامیابی حاصل کرنے والے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اس محدود فلمی دنیا میں کام کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بمبئی سے آنے والے دوسرے مشہور فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو دیکھ لیجئے۔ سبھی کے ساتھ یہ سانحہ گزرا تھا۔ محبوب خان اور کاردار بھی پاکستان بننے کے بعد کراچی اور لاہو رآئے تھے مگر اتنی مختصر مارکیٹ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ شوکت حسین رضوی‘ سبطین فضلی‘ ڈبلیو زیڈ احمد‘ حسنین فضلی‘ ایم صادق سبھی کے ساتھ یہی سانحہ پیش آیا۔ وہاں سے آنے والوں میں جن لوگوں نے نئے حالات کے مطابق خود کو ایڈ جسٹ کیا ان میں نذیر صاحب‘ ایس ایم یوسف اور کسی حد تک نذیر اجمیری صاحب کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان کے سوا دوسرے لوگوں نے یہ محسوس کیا جیسے ایک سمندر سے نکل کر وہ چھوٹی سی جھیل میں پہنچ گئے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ منصوبہ بندی کرتے رہے مگر عملی میدان میں وہ کارنامے سرانجام نہ دے سکے جو انڈیا میں ان کی شہرت اور کامیابی کا سبب بنے تھے۔
ہم احمد صاحب کے بہت پرانے مداح ہیں۔ ان کی قابلیت‘ ذہانت اور تخلیقی قوتوں کے معترف بھی ہیں مگر احمد صاحب پاکستان کے محدود حالات میں خود کو ایڈ جسٹ نہ کر سکے۔ یہاں بھی وہ ہندوستان کی طرح بڑے پیمانے پر منصوبے بناتے رہے اور عملی طور پر کچھ بھی نہ کر سکے۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاؤں
میری ہمتوں کی پستی میرے شوق کی بلندی
ہمت ان کی کبھی پست نہیں ہوئی مگر شوق کی بلندی آسمان سے بھی اونچی نکل گئی۔ مختصر طور پر ہمارے خیال میں احمد صاحب کا یہ تجزیہ ہے۔
مگر پہلے ان کے ماضی کی داستان سن لیجئے۔ وہ انگلستان جانے کے لئے بمبئی پہنچے تو اس شہر کی سیر بھی کی۔ چند جاننے والے بھی مل گئے بمبئی کو عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ یہ شہر دیکھنے کے لائق تھا۔ یورپ جانے کے لئے بحری جہاز یہیں سے چلا کرتے تھے اس لئے احمد صاحب بھی بمبئی کے راستے لندن جانے کے لئے وہاں پہنچے تھے مگر اس مقام سے آگے نہ بڑھ سکے۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)