قسط نمبر 135۔ ۔ ۔ مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز
ہم نے کہا ’’شکریہ مگر ہم اس فلم کو بہت زیادہ دیر تک ملتوی نہیں کرسکتے۔ فی الحال ہم کوئی دوسرا بندوبست کرلیں گے۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ فلم ساز کو کسی بھی اداکار کا محتاج نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
کہنے کو ہم نے کہہ دیا مگر جب واپسی کیلئے وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ خیال ہمیں پریشان کیے ہوئے تھا کہ اپنی فلم کیلئے ایک نو عمر اور نوخیز ہیرو ہم کہاں سے لائیں گے؟ ایسے اداکار کے بغیر اس فلم کو بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر ندیم اس وقت پاکستان کے سپرہٹ اداکار تھے۔ ان کی موجودگی کسی بھی فلم کے وقار اور مانگ میں اضافہ کرسکتی تھی۔ مگر حالات کے تحت ہم ان کے بغیر ہی فلم بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 134 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
دراصل یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کسی انسان کی محتاجی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم ندیم کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ ہم صرف ان ہی پر تکیہ نہیں کرتے ہیں۔ ان کے بغیر بھی فلم بناسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم خود اپنے آپ کو بھی یہی احساس دلانا چاہتے تھے ورنہ ہماری خوداعتمادی ختم ہوکر رہ جاتی۔ ہدایت کار حسن طارق کے بغیر فلم بنانے کے فیصلے میں بھی ہمارا یہی جذبہ کار فرما تھا۔ اس زمانے میں طارق صاحب کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ بڑے بڑے فلم ساز ان کے گھر کے پھیرے لگاتے رہتے تھے اور کئی فلم ساز تو ان کے بغیر فلم شروع کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مگر ہم خود کو ایسے فلم سازوں کی صف سے باہر رکھنا چاہتے تھے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر حسن طارق دستیاب نہ ہوں تو ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ یا اگر ندیم کی ڈیٹ نہ ملے تو ہم فلم ہی نہ بنائیں۔
سچ پوچھئے تو فلم ’’سزا‘‘ ہم نے خود کو اور فلمی دنیا کو یہ احساس دلانے کیلئے بنائی تھی کہ ہم اپنی مرضی سے بھی فلم بناسکتے ہیں۔ کسی بھی اداکار یا ہدایتکار کی مدد سے فلم بنا سکتے ہیں۔ مگر اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں جن کانٹوں بھرے راستے پر چلنا پڑا اس کی تکلیف خود ہم ہی جانتے ہیں۔
ندیم تو اچانک اللہ کی طرف سے ایک نعمت بن کر سامنے آگئے تھے ورنہ جس وقت ہم نے ’’سزا‘‘ کی کہانی لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس وقت بھی دور دور تک اس عمر کا کوئی ہیرو یا اداکار دستیاب نہیں تھا۔ نئے اداکاروں کی تلاش اس وقت بہت مشکل کام تھا۔ ماڈلنگ اور اداکاری کا اتنا زیادہ رجحان پیدا نہیں ہوا تھا۔ جیسا کہ آج ہے۔ خیر اداکار بننے کے خواہش مند بلکہ جنونی تو اس وقت بھی کم نہیں تھے مگر ایک سے ایک کارٹون، ہمارے ہاں فلم سازوں کی ہمیشہ یہ مشکل رہی ہے کہ جن لڑکوں اور لڑکیوں کو اداکاری کا شوق ہوتا ہے وہ اس کیلئے موزوں نہیں ہوتے اور جو موزوں ہوتے ہیں انہیں اداکاری سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اس کا نام سن کر ہی کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں مگر جب ایک دم ندیم ایک فلم میں سامنے آئے اور کامیاب ہیرو بھی بن گئے تو ہمیں یوں لگا جیسے قدرت بھی ہماری مدد کر رہی ہے۔ لیکن ندیم کا معاملہ گڑ بڑ ہوکر رہ گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اوّل تو ہم ندیم کا بہت عرصے تک انتظار نہیں کرسکتے تھے دوسرے کچھ وقت گزرنے کے بعد ان میں بھی پختگی اور پکا پن پیدا ہوجاتا اور وہ اس معصومیت سے محروم ہوجاتے جس کی ہمیں اپنی کہانی کے ہیرو کیلئے ضرورت تھی۔ ندیم کو تو ہم نے ہاتھ سے کھو دیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ دوسرا اداکار کہاں سے لائیں۔ ہمارے مخلص دوستوں نے مشورہ دیا کہ بھائی اس کہانی کو ہی ملتوی کردو۔ زیادہ تر لوگ اس کو بنانے کے حق میں ہی نہیں تھے۔ ہماری عادت ہے کہ کسی بھی موضوع کو لکھنے یا بنانے سے پہلے چند ماہر اور مخلص دوستوں سے مشورہ ضرور حاصل کرتے ہیں۔
ڈبلیو زیڈ احمد صاحب ہمارے لیے ہمیشہ ایک محترم اور صاحبِ رائے شخصیت رہے ہیں۔ ہم نے انہیں کہانی کا یہ آئیڈیا سنایا تو انہوں نے اسے پسند تو کیا مگر کچھ زیادہ رغبت اور پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم ہند اور فسادات کے گھاؤ ابھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ اس موضوع کو فلمانے سے یہ زخم دوبارہ ہرے ہوجائیں گے۔ پھر ان کا بھی یہی خیال تھا کہ اس فلم کیلئے اداکاروں کا انتخاب بہت موزوں اور مناسب ہونا چاہیے۔ ہر ہیرو اور ہر ہیروئن یہ ضرور پوری نہیں کرسکے گی۔ مگر ہم یہی کہانی بنانے کی دل میں ٹھان چکے تھے۔ کافی مسائل حل ہوگئے تھے۔ اب صرف ہیرو کے انتخاب کا مسئلہ باقی رہ گیا تھا اور یہی بنیادی مسئلہ تھا۔
اخبار والوں نے ہم سے آئندہ فلم کے بارے میں سوال کیا تو ہم نے بتایا کہ ہم اگلی فلم اس موضوع پر بنانا چاہتے ہیں مگر اس کیلئے ہمیں ایک نئے چہرے کی ضرورت ہے جو نو عمر بھی ہو۔ اس زمانے میں اخبارات میں فلمی خبروں اور تصاویر کا اتنا زور و شور نہیں ہوتا تھا لیکن رنگین فلمی تصاویر اور خبریں شائع کرنے کا رواج شروع ہوچکا تھا۔ ہمارا یہ بیان شائع ہوتے ہی ہمارے پاس خطوط اور تصاویر کا ڈھیر لگ گیا۔ یہ سب اداکار بننے کے شوقین تھے مگر ایک سے بڑھ کر ایک نامعقول، بیشتر بالکل جاہل یا چند جماعتیں پڑھے ہوئے تھے۔ ان کی تصویریں دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کیا یہ خود اپنی تصویریں نہیں دیکھتے۔ ایسی شکل و صورت رکھنے کے باوجود اگر وہ ہیرو بننے کے شوقین تھے تو ان کی ہمت کی داد دیے بغیر چارہ نہ تھا۔
کچھ خطوط ہمیں عام فلم بینوں کی طرف سے بھی موصول ہوئے جن میں طلبہ و طالبات بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ہمیں یہ موضوع فلمانے پر شاباش دی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ خدارا کسی پرانے ہیرو کو اس کردار میں لے کر اس کہانی کا حلیہ نہ بگاڑ لینا۔ کچھ لوگوں نے ندیم کو کاسٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس زمانے میں پڑھے لکھے لوگ خصوصاً طلبہ باقاعدہ فلم بینوں میں شامل تھے اور اس زمانے میں زیرِ تعلیم رہنے والے جو لوگ بعد میں بڑے افسر بن گئے وہ سب فلموں کے حوالے سے ہمیں جانتے تھے۔ آج بھی ایسے بیورو کریٹ ہمیںٰ مل جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں یہ رجحان قائم نہ رہ سکا اور رفتہ رفتہ طلبہ اور طالبات نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔اس کی وجوہات بھی بہت معقول ہیں اس لیے انہیں الزام نہیں دیا جاسکتا۔ مگر جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ اس وقت فلم دیکھنا بھی ایک باقاعدہ ضرورت سمجھی جاتی تھی اور تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقہ بہت ذوق و شوق سے فلمیں دیکھتا تھا اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتا تھا۔
یہ رجحان ۱۹۸۰ کی دہائی میں بھی جاری رہا لیکن اس کے آخر میں فلموں کے موضوعات اور معیار کے باعث اس رجحان میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔
جگدیش چند آنند اس وقت بقید حیات تھے۔ وہ پاکستان کے بہت بڑے اور ممتاز تقسیم کار تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں وہ سینکڑوں فلمیں ریلیز کرچکے تھے۔ کراچی، لاہور ڈھاکا میں ان کے بہت شاندار اور سرگرم دفاتر تھے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کیلئے ان کا وجود بہت اہمیت رکھتا تھا کیونکہ بیشتر پاکستانی فلمیں وہی خریدتے اور ریلیز کرتے تھے۔
جن دنوں ہم ’’سزا‘‘ کے منصوبے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے اسی زمانے میں جگدیش صاحب نے ایک فلم بنانے کا اعلان کردیا۔ یہ ایک تاریخی رومان تھا۔ اس کا نام ’’تاج محل‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ شہنشاہ شاہجہاں اور ان کی چہیتی ملکہ ممتاز محل کی کہانی تھی جس کا مقبرہ ’’تاج محل‘‘ کی شکل میں آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہے اور اسے ایک شہنشاہ کی محبت کی یادگار تصور کیا جاتا ہے۔ ترقی پسندوں کے نظریے سے قطع نظر ’’تاج محل‘‘ کو سبھی کی نظروں میں ایک معزز اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ مگر ساحر لدھیانوی نے اس موضوع کو ایک بالکل نئے انداز میں نظم کرکے ملک گیر شہرت حاصل کرلی تھی اور ان کی یہ نظم ہر ایک کی زبان پر تھی۔۔۔
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
یہ بالکل نیا اور انوکھا انداز تھا اس لیے ہر طرف اس کا چرچا ہوگیا مگر شکیل بدایونی نے بمبئی میں بنائی جانے والی ایک فلم میں ’’تاج محل‘‘ اور شاہجہاں کی روایتی انداز میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس کے گانے بہت مقبول ہوئے۔ کے آصف کی عظیم فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ اس سے پہلے ہی سارے برصغیر میں موضوعِ بحث بن چکی تھی۔ ان ہی دنوں میں کے آصف کے معاون ایس ٹی زیدی صاحب بمبئی سے لاہور تشریف لائے اور انہوں نے یہیں قیام کرنے کا ارادہ کرلیا اس ارادے میں جگدیش صاحب نے ایس ٹی زیدی صاحب کی فلم تاج محل کا ہاتھ تھا۔ جگدیش صاحب نے ایس ٹی زیدی صاحب کی ہنر مندی اور تجربہ کاری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنی فلم ’’تاج محل‘‘ کی ہدایتکاری کے لئے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ زیدی صاحب کو فلم اور ہدایت کاری کے معاملات میں عبور حاصل تھا۔ ہماری بھی اس زمانے میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں جو بعد میں گہرے مراسم میں بدل گئیں۔ زیدی صاحب ایک پڑھے لکھے، ذہین، تجربہ کار اور باصلاحیت ہدایت کار تھے۔ ان کی ہنر مندی نے ہمیں بہت متاثر کای تھا۔ بعد میں ہم نے انہیں اپنی ایک فلم کی ہدایتکاری بھی سونپی تھی مگر قدرت کو منظور نہ تھا اس لیے یہ فلم خود ہم ہی کو ڈائریکٹ کرنی پڑی۔ یہ قصہ آگے بیان ہوگا۔
ایس ٹی زیدی صاحب ’’تاج محل‘‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے اور جے سی آنند صاحب کے لاہور کے دفتر میں ان کا ٹھکانا تھا۔ ایور ریڈی پکچرز لاہور کے مینجر نسیم الثقلین صاحب سے ہماری پرانی یاد اللہ تھی۔ جب ایم اے خان نے فلم ’’سسّی‘‘ بنائی تھی۔ تو نسیم صاحب اس دفتر میں ٹائپسٹ تھے۔ بعد میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر لاہور آفس کے مینجر بن گئے تھے۔ ہماری ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ بہت باخلاق اور متواضع آدمی تھے۔ لاہور آنے سے پہلے دہلی کے رہنے والے تھے۔ درمیانہ قد، گورا رنگ، دہرا جسم، چہرے پر نوکدار خشخشی داڑی، بہت خوش گفتار اور خوش لباس تھے۔ دوستوں کے دوست، ہر ایک کی مشکل دور کرنے کیلئے ہر وقت کمر بستہ، اب اس دفتر میں ہماری دو دلچسپیاں ہوگئی تھیں۔ ایک نسیم الثقلین صاحب تھے تو ہی دوسرے ایس ٹی زیدی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ ہم ہفتے میں دو چار بار اس دفتر میں ضرور جاتے تھے۔ نسیم صاحب سے چائے پیتے اور سارے پاکستان کی فلمی خبریں سنتے اور سناتے۔ اس کے بعد دوسرے کمرے میں ایس ٹی زیدی صاحب کے دفتر میں جاکر ان کا دماغ چاٹا کرتے۔ ’’مغلِ اعظم‘‘ کی تیاریوں کے سلسلے میں جو مراحل پیش آئے ان کے بارے میں زیدی صاحب بہت تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔
کے آصف کے قصے دلیپ کمار اور مدھو بالا کے رومان اور علیحدگی کی کہانیاں، بمبئی کی فلمی شخصیات کے بارے میں معلومات۔ خواجہ احمد عباس کے کام کرنے کا انداز، محبوب، نوشاد اور بمل رائے کی باتیں۔ راج کپور کے اسکینڈل، جدن بائی کی کہانیاں، مختصر یہ کہ ہماری بات چیت کا ایجنڈا لامحدود ہوتا تھا۔ بس وہ ہمارے سوالات کے جواب میں سناتے رہتے اور ہم سنتے رہتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ زیدی صاحب بہت باتونی آدمی ہیں۔ جی نہیں، عام طور پر وہ گفتگو کے معاملے میں بہت کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں۔ مگر ہم نے باتوں باتوں میں انہیں اپنی راہ پر لگالیا تھا۔ ہمارے ساتھ وہ خوب گھل مل کر باتیں کرتے تھے۔ دنیا بھر کی فلموں کے بارے میں زیدی صاحب کی معلومات بہت وسیع ہیں۔ فلم سازی کے فن پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے۔ ناولوں اور پرانی فلموں کی کہانیاں بھی انہیں یاد ہیں۔ ایسے میں گفتگو کے موضوعات کی بھلا کیاکمی ہوسکتی ہے۔
ایک دن ہمارے پاس نسیم الثقلین صاحب کا فون آیا ’’آپ آرہے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے حیران ہوکر کہا ’’خیر تو ہے، آج آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘
بولے ’’آپ کیلئے ایک نیا ہیرو تلاش کیا ہے۔ بس ایک گھنٹے بعد آجائیے‘‘۔
نسیم صاحب کی عادت تھی کہ دوستوں سے بہت سنجیدہ قسم کے مذاق کیا کرتے تھے۔ ہمیں ان کی بات پر یقین نہیں آیا۔ سوچا گپ شپ کے سلسلے میں بلا رہے ہوں گے۔ بارہ بجے کے قریب ہم ان کے دفتر پہنچے تو وہ اپنے بڑے سے کمرے میں خلافِ معمول تنہا بیٹھے تھے۔
علیک سلیک کے بعد ہم نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا ’’کہاں ہے نیا ہیرو؟‘‘
وہ مسکرانے لگے ’’بھئی میرے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
ہم سمجھ گئے کہ نسیم صاحب نے اپنی عادت کے مطابق مذاق کیا ہے۔
انہوں نے ہمارے لیے چائے منگائی اور چپراسی سے کہا ’’دیکھو! زیدی صاحب کے کمرے میں جو صاحب بیٹھے ہیں انہیں بھی بلاؤ‘‘۔
چند لمحے بعد ایک دبلا پتلا، دراز قد نوجوان کمرے میں داخل ہوا۔ سرخ و سفید رنگت، براؤن بال، براؤن آنکھیں، کوٹ پتلون میں خاصا اچھا لگ رہا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس کا چہرہ تو سرخ و سفید تھا ہی، اس کے ہونٹ اتنے سرخ تھے جیسے کہ لپ اسٹک لگا رکھی ہو۔
’’ان سے ملئے، آفاقی صاحب ہیں‘‘ نسیم صاحب نے ہمارا تعارف کرایا ’’اور یہ جمال ہیں، بمبئی سے آئے ہیں اوڈین سنیما والے اختر خاں صاحب کے بھانجے ہیں‘‘۔
اختر صاحب سے بھی ہماری پرانی شناسائی تھی۔ وہ ہالی ووڈ کی فلموں کے لاہور آفس کے انچارج رہ چکے تھے۔ انگریزی فلمیں دکھانے والے بہت اچھے سنیما ’’اوڈین‘‘ کے مینجر تھے لیکن ان کے اختیارات مالکوں جیسے تھے۔ سنیما کے مالک سے ان کی بہت بے تکلفی تھی۔ وہ بے چارے تو بس تکلفاً ہی دفتر آجاتے تھے۔ مختار کل اختر صاحب ہی تھے۔ اختر صاحب کو مطالعے کا بھی بہت شوق تھا۔ انہوں نے امریکا سے انگریزی کتابیں درآمد کرنے کا کاروبار بھی شروع کیا تھا جو آج کل پورے عروج پر ہے۔ اختر صاحب کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔ لب و لہجے میں وہی انداز تھا وہ بڑے ہنس مکھ اور لطیفہ باز آدمی ہیں۔ کلاسیکی موسیقی سے انہیں بہت گہری دلچسپی ہے۔ بڑے بڑے استادوں کو گھیر کر اپنے گھر لاتے ہیں اور ساری ساری رات پکے گانوں اور راگ راگنیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔(جاری ہے)
مختلف فلمی وادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔قسط نمبر 136 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)