وہ اداکارہ جس کا لاچہ ہی پانی میں بہہ گیا، فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 105

وہ اداکارہ جس کا لاچہ ہی پانی میں بہہ گیا، فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ ...
وہ اداکارہ جس کا لاچہ ہی پانی میں بہہ گیا، فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 105

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک رات لقمان صاحب کو ’’پتن‘‘ کیلئے ایک منظر فلمانا تھا جس میں ہیروئن یعنی مسرت نذیر پانی میں اترجاتی ہیں۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ رات کا وقت، ہلکی ہلکی کہر بھی چھائی ہوئی تھی۔ رات کو آٹھ نو بجے کے قریب نہر پر لائٹیں لگا کر شوٹنگ کا بندوبست کیا گیا۔ فلم کی ہیروئن کو لاچا کرتہ پہن کر پانی میں تیرتے ہوئے دکھانا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے موٹے موٹے گرم کپڑے پہننے کے باوجود کھلی فضا میں، نہر کے کنارے سردی مزاج پوچھ رہی تھی۔ کہاں یہ کہ اس پانی میں اتر کر شوٹنگ بھی کرنی تھی۔
مسرت نذیر نے کہا ’’اتنی سردی میں پانی میں جاؤں گی تو مجھے نمونیا ہوجائے گا۔ پھر باقی شوٹنگ کیسے ہوگی؟‘‘
لقمان صاحب نے کہا ’’تم فکر نہ کرو اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو ہم ڈپلی کیٹ سے کام چلالیں گے۔ ہم نے تمہاری ہم شکل ایک اور لڑکی بھی تلاش کرکے رکھی ہے‘‘۔
’’اور پانی میں میرا میک اپ جو خراب ہوجائے گا؟‘‘ انہوں نے نکتہ طرازی کی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 104 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بھئی تمہیں پانی میں غوطہ لگانے کیلئے تو نہیں کہا جا رہا ہے۔ تم اپنا منہ ہر حال میں پانی سے باہر ہی رکھنا‘‘۔
وہ بولیں ’’لقمان صاحب، ایمان سے مجھے تیرنا نہیں آتا۔ اگر پانی میں بہہ گئی یا ڈوب گئی تو راوی میں جاکر ہی نکلوں گی‘‘۔
’’اتنی دور نہیں جانے دیں گے آگے نہر پر ایک پل ہے۔ وہاں تمہیں روک لیں گے‘‘۔
مسرت مختلف بہانے کر رہی تھیں اور یونٹ کے تمام لوگ حسبِ توفیق انہیں لاجواب کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
سنتوش صاحب نے کہا ’’مسرت ہمت سے کام لو۔ شیر بنو شیر‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے ’’شیر بنو‘‘ والا لطیفہ بھی سنا دیا۔ سب نے لطیفے سے لطف اٹھایا۔ مسرت نے کہا ’’مگر میں شیر کیسے بن سکتی ہوں۔ میں تو عورت ہوں‘‘۔
’’تمہیں عورت کون کہتا ہے؟ مگر خیر پھر بھی تم شیرنی تو بن سکتی ہو، تم ایسا کرو کہ آنکھیں بند کرکے ایک دم پانی میں چھلانگ لگادو۔ جاڑوں میں نہر کا پانی گرم ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
’’اور جب پانی سے باہر نکلوں گی تو کیا ہوگا؟‘‘
’’تمہارے لیے کمبل اور انگیٹھی کا انتظام ہے۔ اطمینان رکھو، تمہیں بیمار نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
’’سنتوش صاحب بہت بڑھ چڑھ کر باتیں نہ بنائیں۔ خود بھی ذرا شیر بن کر دکھائیں۔ یہ گرم اوور کوٹ اور مفلر اتار کر ذرا آپ بھی پانی میں جاکر دکھائیں‘‘۔
سنتوش صاحب نے کہا ’’بھئی میں تو سمندر میں بھی کود سکتا ہوں۔ مگر اس سین میں میری ضرورت نہیں ہے‘‘۔
مسرت نذیر لقمان صاحب کے سر ہوگئیں کہ اس سین میں سنتوش صاحب کو بھی شامل کرلیں۔ جب ہیروئن پانی میں چھلانگ لگائے تو ہیرو بھی اسے بچانے کیلئے دریا میں کود جائے۔‘‘
’’ہاں بھئی، ہوتو سکتا ہے‘‘ لقمان صاحب نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ ذرا بابا عالم سیاہ پوش کو بلاؤ۔ ابھی سین میں تبدیلی کرالیتے ہیں‘‘۔
سنتوش صاحب گھبراگئے ’’لقمان صاحب، کیا ہوگیا ہے آپ کو۔ ایک نادان لڑکی کے کہنے پر سین بدل رہے ہیں۔ اس طرح تو کہانی کا ستیا ناس ہوجائے گا‘‘۔
کافی دیر تک یہ گپ شپ جاری رہی۔ اسی دوران میں رضا میر صاحب نے روشنیاں درست کرلیں۔ جب ریہرسل کا وقت آیا تو مسرت نذیر نے بہت شور مچایا اور کہا کہ اتنی سردی میں ریہرسل کی کیا ضرورت ہے۔ بس براہِ راست ٹیک کرلیں۔
’’اور جو ری ٹیک ہوگئی تو؟‘‘ رضا میر صاحب نے کہا۔
’’بالکل نہیں ہوگی، اور اگر ہوئی تو میں دوسرا شاٹ دے دوں گی‘‘۔
خدا خدا کرکے منظر کی فلم بندی شروع ہوئی۔ لقمان صاحب کی آواز گونجی۔ ’’فل لائٹس، اسٹارٹ کیمرا‘‘۔
’’اسٹارٹیڈ‘‘ کیمرا اسسٹنٹ نے کہا۔
’’ایکشن‘‘۔
اس کے ساتھ ہی ہیروئن نے نہر میں چھلانگ لگادی۔ روشنیوں میں نہائی ہوئی مسرت نذیر نہر کے پانی کے بیچوں بیچ ایک جل پری نظر آرہی تھیں۔
لقمان صاحب نے پکار کر کہا ’’مسرت، آگے بڑھو‘‘۔
مگر مسرت وہیں کھڑی ہوگئیں بلکہ پانی میں بیٹھ گئیں۔
’’ارے ارے، کیا کرتی ہو، آگے بڑھو نا‘‘۔
مسرت نے ایک دم قہقہے لگانے شروع کردیے اور پانی کے اندر سمٹ گئی۔
ابھی لقمان صاحب ناراض ہونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ایک اسسٹنٹ نے شور مچایا۔
’’سر۔ وہ کیا چیز بہہ کر جا رہی ہے؟‘‘
معلوم ہوا کہ ہیروئن کالاچا نہر کے تیز رو پانی میں بہہ گیا ہے۔ غنیمت ہے کہ وہ احتیاجاً اس کے نیچے ایک گرم پاجامہ بھی پہنے ہوئے تھیں۔
’’پکڑو، پکڑو، یہ بہہ نہ جائے‘‘۔
بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ ایک دو لڑکوں نے لپک کر چھلانگیں لگادیں۔ اور اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
مسرت نذیر کے قہقہے رکے تو انہوں نے کہا ’’مجھے تو باہر نکالیں۔ سردی لگ رہی ہے‘‘۔
اس ہنگامے کے دوران میں لائٹس آن تھیں۔ رضا میر صاحب نے لائٹس آف کرنے کی ہدایت کی۔ فوراً کمبل اور گرم چادریں لائی گئیں اور مسرت نذیر کو نہر سے باہر نکلا گیا۔ اسٹوڈیو کے دفتر میں لے جاکر انہیں گرم انگیٹھی سے گرمی پہنچائی گئی۔ ابلے ہوئے انڈے اور چائے سے تواضع کی گئی۔ چلغوزے اور خشک میوہ پیش کیا گیا۔ ان دنوں سردی کے موسم میں ابلے ہوئے گرم انڈے اور چائے یا کافی کا بہت رواج تھا۔ ابلا ہوا انڈا دو آنے میں ملتا تھا۔ ایک آنے کا چائے کا کپ، اگر دو اندے بھی کھائیں تو پانچ آنے میں سردی کا سامان بھی ہوجاتا تھا اور پیٹ بھی بھر جاتا تھا۔ اب وہ زمانہ خواب و خیال ہوا، کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔
پتن کی شوٹنگ کے زمانے کا ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ اسٹوڈیو کے نزدیک ہی ایک کھلے میدان میں بستی کا سیٹ تعمیر کیا گیا تھا۔ چند جھونپڑیاں، چند پکے مکان اور دکانیں۔ چند ریڑھے، کچھ گائیں بھینسیں اور بکریاں۔ آوارہ کتے خود ہی چلے آتے تھے۔ لیجئے بستی کا ماحول تیار ہوگیا۔ وہی سردی کا موسم تھا اور شوٹنگ بھی رات کے وقت ہو رہی تھی۔ کھلے آسمان تلے ساری رات لاہور کی کڑکڑاتی سردی میں شوٹنگ کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مگر فلم والے بے چارے یہ سب مشکل کام کرتے ہیں اور فلم دیکھنے والوں کو لمحہ بھر کیلئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ جو منظر چند لمحے میں ان کی نظروں کے سامنے سے گزر جاتا ہے اسے فلمانے کیلئے اداکاروں اور فلم یونٹ کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ شدید گرمی ہو یا شدید سردی۔ ہر موسم میں دن رات فلم بندی جاری رہتی ہے۔ جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ میں ہیروئن بڑے مزے سے ننگے پاؤں محبت بھرا گیت گاتی ہوئی نظر آتی ہے مگر یہ گانا فلماتے وقت اس پر اور یونٹ کے لوگوں پر کیا گزری تھی اس کا فلم دیکھنے والوں کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹھٹھراتی ہوئی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پانی میں بھیگتے ہوئے جب گانا فلمایا جاتا ہے تو سارے یونٹ والوں پر تو خیر جو بیتتی ہے وہ بیتتی ہے لیکن غریب ہیروئن کی تو جان پر ہی بن جاتی ہے۔(جاری ہے)

وہ اداکارہ جس کا لاچہ ہی پانی میں بہہ گیا، فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر 106 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)