فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 286
ناشاد صاحب بہت سُریلے تھے، ان کی آواز میں سوز اور مٹھاس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جو طرز وہ ۷خود گا کر سناتے تھے۔ ریکارڈ ہونے کے بعد اس میں وہ خوبصورتی محسوس نہیں ہوتی تھی حالانکہ اس زمانے میں بہت بڑے اور نامور گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو میسر تھے۔ میڈم نور جہاں‘ مہدی حسن‘ استاد امانت علی خاں‘ فریدہ خانم‘ اقبال بانو‘ ثریا خانم‘ رونا لیلیٰ‘ نیرہ نور‘ مالا‘ اخلاق احمد‘ مجیب عالم‘ احمد رشید‘مسعود رانا‘ سلیم رضا‘ غلام علی گلوکاروں کی ایک کہکشاں تھی کہ جگمگا رہی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک گلوکار فلمی گانوں کے لئے موجود تھا۔ وہ پاکستان کی فلمی موسیقی کا گولڈن دور تھا۔ موسیقار‘ گلوکار‘ نغمہ نگار‘ ہدایت کار‘ مصنّف‘ اداکار سب اپنی اپنی جگہ انگوٹھی میں نگینوں کی طرح جُڑے ہوئے تھے مگر میری وہ بات اس کے باوجود اپنی جگہ ہے کہ ناشاد صاحب جب گا کر طرز سناتے تھے‘ اس میں جو لطف اور سُرور ملتا تھا‘ وہ گانا ریکارڈ ہونے کے بعد محسوس نہ ہوتا تھا۔ خدا جانے اس کا سبب کیا تھا لیکن یہ شکایت اس زمانے میں ہر اچھے موسیقار کو تھی کہ گانے کی کوالٹی ریکارڈنگ کے بعد کم ہو جاتی ہے۔ شاید اس میں لگن کی کمی اور بے توجہی اور بے پروائی کا بھی دخل تھا۔ گلوکاروں اور موسیقاروں کی مصروفیات بے پناہ ہو گئی تھیں۔ ریہرسل کے لئے نہ گانے والوں کے پاس وقت تھا‘ نہ سازندوں کے پاس تو پھر مکمل ریہرسلوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 285 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ناشاد صاحب بہت سادہ اور معصوم آدمی تھے۔ ہر ایک کی باتوں میں آ جاتے تھے۔ کسی کی بُرائی یا غیبت میں شامل نہیں ہوتے تھے۔ بس اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ طرز تو وہ منٹوں میں بنا لیتے تھے مگر اگلے روز جب آتے تو اسے بھول کر مختلف طرز سنانے لگتے۔
’’ارے ناشاد صاحب یہ وہ طرز نہیں ہے جو کل سنائی تھی‘‘۔
’’وہی تو ہے بھئی آپ خوامخواہ مجھے نہ بوکھلائیں۔‘‘
کافی اصرار کے بعد وہ مختلف طرزیں گا کر سناتے اور پھر اوریجنل طرز بھی دستیاب ہو جاتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے دو چار انداز میں طرز سنائی اور کوئی اور انداز پسند آ گیا۔ ہزار بار کہا کہ ناشاد صاحب ایک ٹیپ ریکارڈر ہی خرید لو۔ ساری طرزیں محظوظ ہو جائیں گی اور آنے والے وقت کے لئے بھی یاد گار بن جائیں گی۔
وہ کہتے ’’ارے یار ٹیپ ویپ سب بے کار چیزیں ہیں۔ اللہ میاں کا بنایا ہوا ٹیپ سب سے اچھّا ہے۔ دماغ ہے۔ آواز ہے اور کیا چاہئے‘‘۔
ناشاد صاحب ویسے تو بڑے مرنجان مرنج آدمی تھے۔ منکسر مزاج بھی تھے مگر گانے کے معاملے میں بڑے بڑوں کوبلا تامّل ٹوک دیتے تھے۔ ایک بار ہماری ایک فلم کے گانے کی ریکارڈنگ میں مہدی حسن گا رہے تھے وہ بار بار جگہیں بھول جاتے تھے ۔
ناشاد صاحب ریکارڈسٹ کے پاس سے اٹھ کر آئے اور مہدی حسن سے کہا ’’خان صاحب کچھ کام کی طرف بھی دھیان لگایا کرو‘‘۔
مہدی حسن بڑے نفیس انسان تھے،ایک تاثر تو ان کے چہرے پر آیا لیکن پھر وہ ہنسنے لگے ’’سارا دھیان اسی طرف ہے۔ ناشاد صاحب ۔‘‘
’’خاک دھیان ہے، ادائیگی صحیح نہیں کر رہے ہو۔ جگہیں غلط لے رہے ہو‘‘ ۔
پھر وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے گانا گا کر سنایا اور مہدی حسن سر ہلانے لگے ’’ ٹھیک کہا آپ نے اب غلطی نہیں ہو گی‘‘۔
’’میاں دو چار بار دہرا تو لو۔ پروڈیوسر کا مال پانی ہو رہا ہے‘‘۔
ناشاد صاحب کو فلم ساز کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔وہ فالتو سازندے گانے میں شامل نہیں کرتے تھے اور نہ ہی بلاوجہ ریکاڈنگ میں زیادہ دیر لگاتے تھے۔ وہ وہمی نہیں تھے ۔جیسے ہی ایک ٹیک سے مطمئن ہوتے اسے ’’اوکے‘‘ کر دیتے اور ریکارڈنگ پیک اپ، ورنہ کئی موسیقار تو کسی طرح مطمئن ہی نہیں ہوتے تھے۔
ناشاد صاحب کی موسیقی کی بنیاد لَے اور سُر پر ہوتی تھی۔ وہ راگوں پر مبنی سادہ آسان طرزیں بناتے تھے جنہیں گانا دشوار نہیں تھا اور سمجھنا بھی آسان تھا۔ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنی طرز بنانے کے بعد گانے والے کی آواز کو کھینچ تان کر اس پر منڈھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ گلوکار کی آواز کی رسائی کے مطابق طرز بناتے تھے۔ بعض گلوکارائیں اونچے سُروں میں زیادہ اچھّا نہیں گا سکتی تھیں۔ ان کی آواز بگڑ جاتی تھی مگر موسیقار کا اصرار ہوتا تھا کہ گلوکار اتنے ہی اونچے سُروں میں گائے جو اس نے بنائے ہیں مگر ناشاد صاحب کی یہ امتیازی خوبی تھی کہ وہ آواز کے مطابق طرز بناتے تھے ۔ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں انہوں نے انتہائی مدّھم اور دھیمے سُروں میں نغمے ریکارڈ کئے ہیں جو کانوں میں رس گھول دیتے ہیں۔ اس طرح مالا کیلئے انہوں نے ایسے سُر لگائے کہ وہ سہولت اور عمدگی سے گا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گانوں میں آوازیں زیادہ بھلی لگتی ہیں۔ ان کی دُھنوں میں میلوڈی‘ راگ اور سُر کی مٹھاس شامل ہوتی ہے۔ طرزیں وہ تھوک کے حساب سے بناتے تھے اور ایک گانے کی اتنی طرزیں بنا لیتے تھے کہ خود بھی انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ البتہ آرکسٹرا کے اہتمام میں وہ اتنے ہنر مند نہیں تھے۔ ان کے بڑے بیٹے واجد علی ناشاد نے بی اے کرنے کے بعد ناشاد صاحب کی معیّت میں کام کرنا شروع کیا تو ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ واجد نئے زمانے کا نوجوان تھا جو مغربی پوپ میوزک سے بھی واقف تھا اور اسے طرزوں میں سمونے کا کا خواہش مند بھی رہتا تھا۔ وہ ناشاد صاحب کا چیف اسسٹنٹ بھی تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ ناشاد صاحب نے ایک طرز بنا کر پسند کرائی۔ گھر گئے تو واجد نے ریہرسل کے وقت اس میں اپنی پسند کے مطابق ذرا سی تبدیلی کر دی۔ ناشاد صاحب تو بھولنے کے عادی تھے۔ سوچ میں پڑ جاتے تو واجد کہتے ’’اباّ یہ ایسے ہی تھا‘‘۔
اگلے دن اباّ طرز سناتے تو وہ کچھ اور ہی بن جاتی تھی۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا ۔بڑی مشکل سے ہم نے گنگنا کر ناشاد صاحب کو طرز یاد دلائی تو وہ بیٹے پر بگڑنے لگے’’ہاں۔ یہ ٹھیک ہے نا۔ یار تم مجھے کیوں گمراہ کرتے رہتے ہو‘‘۔
ہم نے واجد کو بھی سمجھایا کہ ’’بھائی یہ آدھا تیتر ‘ آدھا بٹیر نہ کرو۔ تمہارے اباّ کا انگ دیسی ہے۔ تم اس میں مغرب کا تڑکا لگانے کی کوشش مت کیا کرو۔ اس طرح طرز خراب ہو جاتی ہے‘‘۔
ناشاد صاحب ایک بار ہم سے کہنے لگے’’آفاقی صاحب واجد کو کوئی فلم تو دلاؤ، بہت اچھّا لڑکا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’آپ اپنی کوئی فلم واجد کو کیوں نہیں دے دیتے؟‘‘
بولے’’بھائی فلم پروڈیوسر نہیں مانتے‘‘۔
’’تو پھر ایسا کریں کہ خود میوزک بنا کر اس پر واجد کا نام دے دیں‘‘۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے بھئی۔ میں اپنا کریڈٹ کسی اور کو کیوں دے دوں؟‘‘
’’ناشاد صاحب ۔ یہ کوئی اور نہیں۔ آپ کا بیٹا ہے۔ ولی عہد ہے‘‘۔
ناشاد صاحب ہنس کر چپ ہو گئے مگر واجد نے یہ بات پلّے باندھ لی۔ گھر جا کر اس نے یہ تجویز والدہ کے سامنے پیش کر دی اور وہ بیٹے کی وکالت کرنے لگیں۔
دوسرے دن ناشاد صاحب ملے تو کہنے لگے’’بھئی آپ بہت فسادی آدمی ہیں‘‘۔
’’کیوں۔ کیا ہوا؟‘‘
’’ارے میاں گھر میں جھگڑا کرا دیا‘‘ پھر انہوں نے سارا واقعہ سنایا۔
’’ٹھیک تو کہتی ہیں آپ کی بیگم۔ ناشاد صاحب بیٹے کی خاطر آپ یہ قربانی نہیں دے سکتے؟‘‘
بولے’’نہیں۔ یہ فن کا معاملہ ہے‘‘۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
آغاز کے دنوں میں ناشاد صاحب کراچی کی چند فلموں کی موسیقی کیلئے وہاں گئے تھے کہ شوکت حسین رضوی صاحب نے اپنی فلم ’’عاشق‘‘ کی موسیقی بنانے کیلئے انہیں بلا لیا۔ لاہور میں انہوں نے ’’جلَوہ‘‘ کی موسیقی بھی بنائی تھی ’’سالگرہ‘‘ سپرہٹ فلم تھی جس میں شیون رضوی کے گیتوں نے سونے پر سہاگے کا کام دیا تھا۔
’’لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘
اس فلم کا یاد گار گانا تھا۔ دوسرے گانے بھی بہت اچھّے تھے۔ناشاد صاحب کی ابتدائی سبھی فلموں کا میوزک قیامت خیز تھا اور فلمیں بھی زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھیں۔(جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 287 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں