فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 257
اختر نواز صاحب کی عادت تھی کہ وہ بازار سے کھانا منگوا کر نہیں کھاتے تھے۔ اپنی چائے اور کھانا خود ہی بناتے تھے۔ ایک روز دوپہر کے وقت گوشت بھون رہے تھے کہ اچانک ریکس سینما کے مالک آ گئے۔ انہوں نے جنرل مینجر کو گوشت بھونتے ہوئے دیکھا تو ناراض ہو گئے اور اختر نواز سے کہا کہ آئندہ آپ سینما میں گوشت نہ بھونئے گا۔ جواب میں اختر نواز صاحب نے اپنا استعفی ان کے حوالے کر دیا اور بوریا بستر سنبھال کر لاہور آ گئے۔
آغا جی اے گل پاکستان کی فلمی صنعت اور ٹریڈ کی ممتاز ترین شخصیت تھے اور اختر نواز صاحب کے مرتبے اور صلاحیتوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے ایورنیو سٹوڈیو نیا نیا تعمیر کیا تھا۔ آغا صاحب کے اصرار پر اختر نواز صاحب نے ایورنیو سٹوڈیوز کے جنرل مینجر کا عہدہ سنبھال لیا۔ جن لوگوں نے اس دور کے ایورنیو سٹوڈیو کو دیکھا ہے وہ اس کی خوبصورتی کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ایک تو عمارت بالکل نئی اور خوبصورت تھی۔ دوسرے آغا جی اے گل نے بڑے شوق سے یہ سٹوڈیو بنوایا تھا اور اسے پاکستان کا بہترین سٹوڈیو بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اختر نواز صاحب کے تعاون سے انہوں نے ایورنیو کو ایک مثالی سٹوڈیو بنا دیا تھا۔ نظم و نسق اور حُسن و دلکشی کے اعتبار سے اس کی کوئی مثال نہ تھی۔ اختر نواز صاحب ہاتھ میں چھڑی تھامے ہر وقت سٹوڈیو میں گھومتے رہتے تھے اور اس کی سجاوٹ میں کوئی کمی برداشت نہیں کرتے تھے۔ فلم ساز‘ کارکن‘ مالک سبھی مطمئن اور خوش تھے پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ خان صاحب کی ناک پر مکھّی بیٹھ گئی۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 256 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس زمانے میں پاکستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سربراہ جب لاہور آتے تھے تو ایورنیو سٹوڈیوز بھی انہیں بڑے اہتمام سے دکھایا جاتا تھا۔ فلمی صنعت کے ممتاز افراد اکٹھے ہوتے تھے اور مہمان کی چائے یا کھانے سے تواضع کی جاتی تھی۔ ترکی کے صدر جلال بایار لاہور آئے تو ان کے اعزاز میں آغا جی اے گل نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ خوبرو ہیرو‘ حسین و طرح دار ہیروئنیں‘ ہدایتکار‘ فلم ساز اور فلموں سے وابستہ دوسرے قابل ذکر اشخاص بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ صدر جلال بایار پاکستان کے ہیروز سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ سنتوش کمار‘ درپن‘ اسلم پرویز‘ سدھیر‘ یوسف خان اور کمال کو دیکھ کر انہوں نے یہ ریمارکس دیئے کہ پاکستان کے ہیرو یہاں کی ہیروئنوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ ہیرو حضرات کافی عرصے تک اس فقرے کو سند کے طور پر استعمال کرتے اور ہیروئنوں پر فقرے بازی کرتے رہتے تھے۔
اس تقریب میں شہر کے معززین اور اعلی افسروں کے علاوہ آغا صاحب کی بیگم بھی موجودہ تھیں۔ اختر نواز خان سفید قمیض‘ سیاہ پتلون پہنے‘ سیاہ رنگ کی بو لگائے دیکھ بھال میں مصروف تھے اور نمایاں نظر آ رہے تھے۔ آغا صاحب کی بیگم نے مخاطب کرنے کے لئے ’’شش‘‘ کی آواز نکالی اور انہیں پاس بلایا۔ اختر نواز صاحب کی رگ پٹھانی جوش میں آ گئی۔ غصے کے مارے آگ بگولا ہو گئے۔ اگلے دن آغا گل اپنے ہیڈ آفس میں پہنچے تو ان کی میز پر اختر نواز صاحب کا استعفی پڑا ہوا تھا۔ آغا صاحب خود بھی پٹھان تھے اور بڑے وضع دار آدمی تھے۔ اختر نواز کی خودداری سے بھی بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے اس موضوع پر اختر نواز صاحب سے بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نہ ہی انہیں منانے کی کوشش کی۔ ان کا استعفٰی تومنظور کر لیا مگر اسی روز انہیں اپنے ہیڈ آفس میں جنرل مینجر کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اختر نواز کے لئے ایک علیحدہ کمرے کا بندوبست کیا گیا اور تمام دفتری امور ان کو سونپ دئیے گئے۔ اختر نواز صاحب نے بھی اپنے فرائض بڑی خوبی سے سرانجام دئیے۔ آخری عمر میں چار فٹ اونچی دیوار سے گرنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کافی عرصے ان کی ٹانگ پلاسٹر میں رہی مگر آغا گل کی طرف سے تنخواہ کی ادائیگی میں ناغہ نہیں ہوا۔ اختر نواز صاحب جیسے ہی چلنے پھرنے کے قابل ہوئے‘ چھڑی سنبھال کر پلاسٹر سمیت دفتر میں آنے لگے۔ بعد میں پلاسٹر تو اتر گیا تھا مگر وہ باقاعدگی سے چھڑی لے کر دفتر آتے تھے او یہ معمول زندگی بھر قائم رہا۔ وہ انگریزی خط و کتابت میں مہارت رکھتے تھے۔ کاروباری سوجھ بوجھ کے بھی مالک تھے۔ آخری عمر میں بھی اپنے کمرے میں بیٹھے اخبار کا مطالعہ کرتے یا کھانستے کھنکارتے رہتے۔ دفتر میں حاضری انہوں نے مرتے دم تک نہیں چھوڑی۔ وہ جانتے تھے کہ آغا گل انہیں گھر بیٹھے تنخواہ دیتے رہیں گے اور یہ ان کی پٹھانی غیرت کو گوارا نہ تھا۔ اس لئے آغا صاحب کے کہنے کے باوجود باقاعدگی سے دفتر آتے رہے حالانکہ ان کے فرائض بہت کم ہو گئے تھے۔
اختر نواز صاحب سے ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ نشاط سینما لاہور کے مینجر تھے۔ یہ بہت اچھا سینما تھا۔ بھارتی فلمیں اس زمانے میں سینما گھروں میں دکھائی جاتی تھیں اور یہ سینما فلموں کے انتخاب کے سلسلے میں مشہور تھا۔ ہم صحافی بھی تھے اور فلم بینی کے رسیا بھی۔ سینما ٹکٹ کی قیمت برائے نام تھی مگر کئی بار دو چار روپے بھی جیب میں نہیں ہوتے تھے اور ہم شیر زماں پان فروش سے پیسے ادھار لے کر فلمیں دیکھتے اور دوستوں کو دکھاتے تھے۔ اختر نواز صاحب تعلیم یافتہ اور باشعور آدمی تھے۔ صحافیوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے ہم سے بہت اخلاق اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہمارے ساتھ تو ٹکٹ حاصل کرنے میں رعایت کرتے ہی تھے مگر ہمارے ساتھیوں کو بھی ٹکٹ دے دیا کرتے تھے۔ مفت فلم دیکھنے کی نہ کبھی ہم نے کوشش کی اور نہ ہی انہوں نے اس کی پیشکش کی۔ جب وہ ریکس سنیما (کراچی) کے مینجر ہوئے تو وہاں بھی ان سے ملاقاتیں رہیں لیکن ایورنیو سٹوڈیو کے زمانے میں تو ان سے بہت زیادہ ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا۔ وہ خالص اور کھرے پٹھان تھے مگر ہمارے ساتھ مہربانی کرتے تھے اور ہماری ضد سے بھی صرف نظر کر لیتے تھے۔
وہ ایورنیو پکچرز کے ہیڈ آفس پہنچے تو وہاں بھی ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ ہم جب بھی آغا صاحب سے ملنے کے لئے ایبٹ روڈ کے اس دفتر میں جاتے تھے تو اختر نواز صاحب سے صاحب سلامت ضرور ہوتی تھی۔
ایک دن ہم وہاں پہنچے تو چپراسی نے بطور خاص پیغام دیا کہ اختر نواز صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے کمرے میں گئے تو چھڑی لئے بیٹھے تھے اور ایک موٹی سی فائل سامنے کھلی رکھی تھی۔ وہ ایک فلم کا سکرپٹ لکھ رہے تھے اور ہماری رائے لینے کے خواہش مند تھے۔ ہم نے پاکستان میں پہلی بار کسی فلم کا سکرپٹ نہایت مفصّل اور خوبصوتی کے ساتھ انگریزی میں ٹائپ شدہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ظاہر ہے کہ خان صاحب اردو میں تو لکھ نہیں سکتے تھے۔ انگریزی پر انہیں عبور حاصل تھا اس لئے انگریزی میں سکرپٹ لکھ ڈالا‘ یہاں تک کہ مکالمے اور گانوں کے بول تک انگریزی میں تھے۔
ہم نے کہا ’’خان صاحب‘ کیا انگریزی فلم بنا رہے ہیں؟‘‘
بولے ’’شرارت مت کرو‘ یہ فلم اردو میں ہو گی۔‘‘
’’مگر مکالمے تو انگریزی میں ہیں۔‘‘
کہنے لگے ’’آپ کو کس لئے بلایا ہے؟ اس لئے کہ اس مفہوم کو اردو میں لکھ دیں۔‘‘
ہم نے پوچھا ’’اور گانے؟‘‘
ہنسنے لگے اور کہا ’’تم جانتے ہو کہ گانے شاعر ہی لکھ سکتا ہے۔ میں نے تو صرف سچویشن کے موڈ کے مطابق گانوں کا مفہوم لکھا ہے۔ بول تو شاعر ہی لکھے گا۔‘‘ پھر پوچھا ’’تم شاعری کرتے ہو؟‘‘
ہم نے عرض کیا ’’کرتے تو نہیں۔ آپ کہیں گے تو وہ بھی کر لیں گے۔‘‘
کہنے لگے ’’صرف وہی کام کرنا جو تم جانتے ہو۔‘‘
ہم نے کہا ’’آپ حکم دیں گے تو شاعری بھی سیکھ لیں گے۔‘‘
ہنسنے لگے ’’میں اناڑی شاعر سے گیت نہیں لکھواؤں گا۔‘‘
انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ یہ سکرپٹ مکمل ہو جائے گا تو نظرثانی کرنے کے بعد ہمارے حوالے کر دیں گے۔ مگر وہ سکرپٹ مکمل نہ ہو سکا۔
افسوس کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور اختر نواز صاحب یہ نوکری بھی چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ یہ تو ان کی پرانی عادت تھی اس بار فرق یہ تھا کہ وہ دنیا ہی سے رخصت ہو گئے تھے۔
اختر نواز صاحب کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ اگر کوئی باقاعدہ فلمی ریکارڈ مرتّب کیا جائے تو اختر نواز صاحب کا نام نمایاں ہو گا۔ انہوں نے گریجویشن کرنے کے بعد فلمی صنعت کا رخ کیا تھا۔ حالانکہ بڑی سے بڑی سرکاری ملازمت کر سکتے تھے۔ 1923ء سے 1931ء تک وہ خاموش فلموں میں ہیرو کے طور پر نمودار ہوتے رہے اور وقت کی ممتاز ترین ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ مردانہ وجاہت اور دلکشی کے باعث کئی ہیروئنیں ان کی طرف ملتفت بھی ہوئیں مگر خان صاحب کی پٹھانیت راہ میں حائل رہی۔ فلمی ہیروئن کے ساتھ اپنا نام وابستہ کرنا وہ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے بمبئی کی امپیریل فلم کمپنی سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد کولہا پور سینے ٹون نامی فلم ساز ادارے سے وابستہ ہو گئے۔(جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 258 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں