فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ پنتالیسویں قسط

فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ پنتالیسویں قسط
فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔۔ پنتالیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہوٹل میں ہم اور سید کمال ایک ہی کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ برابر والے کمرے میں ہمالیہ والا اور ساقی کا قیام تھا۔ ایک شام کو یہ ہوا کہ کسی دعوت میں ہوٹل سے باہر جانے سے پہلے ہمالیہ والا نے ہمارے پاس دو سو روپے رکھوائے اور کہا کہ دیکھو۔ کسی کو بتانا نہیں ورنہ یہ لوگ مجھ سے مانگ لیں گے یا خرچ کرادیں گے۔
دعوت میں پینے پلانے کا سلسلہ بھی چلتا رہا جو اس زمانے میں رواج تھا۔ ہم تو جلدی لوٹ آئے مگر ہمالیہ والا رات گئے ہوٹل واپس پہنچے۔ یکایک انہیں اپنے دو سو روپوں کا خیال آیا کہ وہ کہاں گئے۔ پہلے تو انہوں نے اپنے سارے کپڑوں کی تلاشی لی۔ پھر ساقی صاحب کے کپڑوں میں تلاش کیا۔ اس کے بعد ساقی کو جگا کر پوچھا کہ تم نے میرے دوسو روپے تو نہیں دیکھے ؟ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور پھر سو گئے۔ ہمالیہ والا کو دو سو روپے کسی طرح بھلائے نہیں بھول رہے تھے۔ کافی رات گزر گئی تھی۔ میں اور کمال اپنے اپنے بیڈ پر لیٹے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک کمرے کے دروازے پر آہٹ ہوئی۔ کمرے میں بہت مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا تو آہستہ سے کھلتے ہوئے دروازے میں سے ایک ہیولا سا اندر داخل ہوا اور دبے پاؤں کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھا۔ ہم پہچان گئے کہ وہ ہمالیہ والا تھے۔ چپ چاپ دیکھتے رہے۔ وہ دبے پاؤں الماری کے پاس گئے اور الماری میں لٹکے ہوئے تمام کپڑوں کی تلاشی لینے میں مصروف ہو گئے۔ پھر دبے پاؤں ہم دونوں کے نزدیک آئے اور ہمارے سرہانے کچھ تلاش کرنے لگے۔ کمال نے ایک دم ٹیبل لیمپ جلا دیا۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی اور ہمالیہ والا بھی بھونچکارہ گئے۔ وہ صرف جانگیا اور بنیان پہنے ہوئے تھے۔ یہ ان کا شب خوابی کا لباس تھا۔ وہ سوتے میں خراٹے بھی بہت زبردست لیتے تھے اور ساقی صاحب ہر روز ہم سے التجا کرتے تھے کہ یار مجھ سے کمرہ بدل لو۔ میری نیند پوری نہیں ہوتی۔

44ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے کہا ’’مگر ہماری نیند کیسے پوری ہو گی ؟‘‘
’’تم تو بہت گہری نیند سوتے ہو۔ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ ‘‘ وہ بولے۔
ہمالیہ والا صاحب نے ہم لوگوں کو بیدار پایا تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی میں بولے ’’نقصان ہو گیا ہے کسی نے میرے دو سو روپے نکال لئے ہیں۔‘‘ یہ کہا اور کمرے سے رخصت ہو گئے۔
ہم نے کمال کو بتایا کہ یہ دو سو روپے انہوں نے ہمارے پاس رکھوائے تھے۔ کمال نے کہا کہ انہیں روپے واپس کر دو مگر ہم نے کہا ’’اس وقت وہ پھر کہیں رکھ کر بھول جائیں گے۔ صبح دے دیں گے۔‘‘
دوسرے دن صبح ناشتے پر سب اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہمالیہ والا آس پاس کے تمام کمروں میں اپنے دو سو روپے تلاش کرتے رہے تھے۔ ڈائننگ ہال میں ہماری صورت دیکھتے ہی انہیں یاد آگیا اور وہ ہمارے پاس آکر کہنے لگے ’’میرے دو سو روپے دے دو۔ ‘‘
ہم نے خاموشی سے دو نوٹ ان کے حوالے کر دیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب ہمالیہ والا کی شادی ہوئی تو ان کی بیگم نے ان کے سامنے دو شرطیں رکھیں۔
ایک یہ کہ وہ شراب نہیں پئیں گے۔
دوسری یہ کہ وہ سر شام گھر آجایا کریں گے۔
ہمالیہ والا نے بخوشی یہ شرطیں منظور کر لیں۔ شادی کے بعد کچھ روز ان پر عمل بھی کیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پرانی عادتیں عود کر آئیں۔ ایک رات بیگم انتظار کرتی رہیں مگر ہمالیہ والا صاحب غائب تھے۔ کافی رات گئے وہ واپس تشریف لائے تو ترنگ میں تھے۔
بیگم نے سنجیدگی سے کہا ’’وقت دیکھا ہے آپ نے ؟ ‘‘
’’سوری۔ کچھ دیر ہوگئی۔‘‘
’’کچھ نہیں۔ کافی دیر ہوگئی ہے۔ دیکھئے‘ آپ اپنا وعدہ یاد رکھئے۔ اگر آپ دوبارہ ایسا کریں گے تو میں ساری کراکری توڑ دوں گی۔‘‘
انہوں نے دوبارہ وعدہ کر لیا مگر دو تین دن کے بعد پھر اسی عالم میں رات گئے واپس لوٹے۔ بیگم نے ذرا بھی جھگڑا نہیں کیا۔ خاموشی سے اٹھیں اور برتنوں کی الماری میں سے قیمتی برتن نکال نکال کر زمین پر پھینکنے شروع کر دیے۔ ہمالیہ والا صاحب بہت پریشان ہوئے۔ بڑی مشکل سے بیگم کو روکا اور ایک بار پھر پکا وعدہ کیا کہ آئندہ معاہدے کی پابندی کریں گے۔
بیگم نے کہا ’’اگر آپ نے وعدہ خلافی کی تو میں آپ کے تمام سوٹ جلا دوں گی۔‘‘
ہمالیہ والا صاحب نے انہیں یقین دلایا کہ آئندہ وہ عہد کی پابندی کریں گے۔ چند دن تو خیر سے گزر گئے مگر پرانی عادتیں کہاں چھٹتی ہیں۔ ایک رات پھر ہمالیہ والا دیر سے گنگناتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ بیگم نے ان سے تو کچھ نہیں کہا مگر الماری میں سے قیمتی سوٹ نکال کر لان میں ڈالے اور ماچس کی تیلی لگا دی۔ ہمالیہ والا صاحب کے تو ہوش اڑ گئے بلکہ کہنا چاہیے کہ ہوش ٹھکانے آگئے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے کچھ سوٹ بچائے اور بیگم سے ایک بار پھر پختہ عہد کیا کہ آئندہ انہیں شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔
بیگم نے کہا ’’ہمالیہ صاحب۔ اگر آپ اس کے بعد بھی باز نہیں آئیں گے تو میں آپ پرپٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گی‘‘۔
ہمالیہ والا نے دوسرے دن یہ بات اپنے ایک قریب ترین دوست کو سنائی۔ انہوں نے کہا ’’دیکھوہمالیہ والا‘‘ تمہیں اب تک یہ تو معلوم ہو چکا ہو گا کہ بھابی اپنی بات کی کتنی پکی ہے۔ میری مانو تو سچ مچ باز آجاؤ۔ مجھے ڈر ہے کہ بھابی اپنی دھمکی ضرور پوری کرے گی۔‘‘
اس کے بعد ہمالیہ والا صاحب واقعی باز آ گئے اور رفتہ رفتہ بالکل تبدیل ہو گئے۔ یہ واقعہ ان کے قریب ترین دوست نے ہمیں سنایا تھا جن کا اب انتقال ہو چکا ہے۔ مگر ساری دنیا نے یہ دیکھا کہ ہمالیہ والا جیسا بے پروا اور بے فکرا شخص انتہائی ذمے دار اور مثالی شوہر کے سانچے میں ڈھل گیا۔ شام کا وقت وہ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ گزارتے تھے اور بہت خوشگوار گھریلو زندگی بسر کرتے رہے۔ ان میںیہ انقلاب پیدا کرنے والی ہستی ان کی بیگم کے سوا اور کون ہو سکتی ہے ؟ وہ ایک باشعور‘ سگھڑ اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ہمالیہ والا کو جن لوگوں نے شادی سے پہلے دیکھا تھا اور پھر بعد میں ایک شوہر اور مشفق باپ کے روپ میں دیکھا انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی شخص اسقدر بدل سکتا ہے ؟
ہمالیہ والا کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ شوٹنگ کے دوران میں مکالمے بھول جایا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو چھوٹے چھوٹے فقرے بھی غلط بول جاتے تھے۔ مگر خوبی یہ تھی کہ الفاط تمام کے تمام وہی ہوتے۔ صرف ان کی ترتیب بدل دیا کرتے تھے۔ جب بار بار ری ٹیک ہونے لگتی تو وہ اس کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دیا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ فلاں شخص ہل رہا ہے۔ کبھی کہتے کہ اوپر والا لائٹ مین مسکرا رہا ہے۔ ہدایت کار سر پکڑ لیتا تھا اور کہتا ’’آخر آپ ادھر اُدھر دیکھتے ہی کیوں ہیں ؟‘‘
ہمالیہ والا صاحب کی ایک دلچسپ عادت یہ تھی کہ وہ عموماً اس وہم کا اظہار کرتے رہتے تھے کہ ان کے خلاف انٹریگ (سازش ) ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ’’ آفاقی۔ تمہیں بتاؤں۔ دراصل اس یونٹ میں میرے خلاف بہت انٹریگ ہو رہی ہے۔‘‘
ہم پوچھتے ’’ کون انٹریگ کر رہا ہے ؟‘‘
معصومیت سے کہتے ’’ یار یہی تو پتا نہیں چل رہا مگر زبردست انٹریگ ہو رہی ہے۔‘‘
ہمالیہ والا بہت دلچسپ‘ بااخلاق اور وضع دار تھے۔ اداکار بھی بہت اچھے تھے۔ اسی لیے ان کے مکالمے بھولنے کی عادت کے باوجود فلم ساز اور ہدایت کار ان کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ حالانکہ بعض اوقات ان کی اس عادت کے باعث بہت نقصان بھی ہو جاتا تھا۔
جن دنوں وہ انور کمال پاشا صاحب کی فلم ’’ انار کلی ‘‘ میں اکبر اعظم کا کردار ادا کر رہے تھے‘ ایک روز اپنا مکالمہ بھول گئے۔ انہیں بڑے شاہانہ دبدبے سے یہ کہنا تھا کہ ’’مابدولت حکم دیتے ہیں کہ باغی کو ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔‘‘یا کچھ اسی قسم کا مکالمہ تھا۔
ہمالیہ والا صاحب بھول گئے اور ری ٹیک شروع ہو گئیں۔
کبھی وہ کہتے ’’ مابدولت تمہیں باغی کولانے کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
یہاں تک کہ ایک بار جوش میں آ کر بولے ’’ مابدولت‘تمہیں آرڈر کرتے ہیں۔ ‘‘
پاشا صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔’’ ہمالیہ۔ تم اکبر ہو۔ اکبر بادشاہ۔ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔‘‘
وہ ہر بار بھول جانے پر بڑے اخلاق سے ’’ سوری ‘‘ کہتے اور ہدایت کار اور سیٹ پر موجود دوسرے لوگوں کی خفگی کو نظر انداز کر کے مسکراتے ہوئے کہتے ’’ او کے اوکے۔ ایک بار پھر ٹیک کر لیتے ہیں۔‘‘
ان کے مکالمے بھولنے کے واقعات کم نہیں ہیں اور کافی دلچسپ ہیں۔ ایک بار سیف الدین سیف کی فلم ’’ رات کی بات ‘‘ کی شوٹنگ میں وہ نہ صرف مکالمے بھول گئے بلکہ سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا۔ سین یہ تھا کہ نیر سلطانہ فلم میں ان کی پاک دامن اور نیک فطرت بیگم ہیں۔ ہمالیہ والا عیش پسند رئیس ہیں اور رات گئے شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے حویلی میں داخل ہوتے ہیں۔ بیگم خدمت کے لیے آگے بڑھتی ہیں تو انہیں جھڑک دیتے ہیں۔ اس کے بعد میاں بیوی کے مابین مکالمہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر ہمالیہ صاحب نے اپنی بیگم کے مکالموں کے ’’ کیو ‘‘ بھی یاد کر لیے ’’ کیو ‘‘ وہ لفظ یا فقرہ ہوتا ہے جو مکالمے کے آخر میں بولا جاتا ہے۔اس کیو کو سن کر مقابل اداکار اس کے جواب میں اپنا مکالمہ ادا کرتا ہے۔ ہمالیہ والا خدا جانے کس موڈ میں تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ’’کیو‘‘ بھی اپنے مکالموں کے ساتھ شامل کر لیے۔ اب مکالمے کچھ اس طرح ہو گئے۔
بیوی ’’ آپ میری وفا پر بھروسا کریں میرے سرتاج۔‘‘
شوہر ’’ میرے سرتاج‘ میں اپنے معاملات میں تمھاری دخل اندازی برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
جعفر ملک اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ انہوں نے شاٹ‘کٹ کرا دیا اور کہا ’’ہمالیہ صاحب۔ میرے سرتاج تو آپ کا’’ کیو ‘‘ہے۔ آپ اپنی بیوی کو میرے سرتاج کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’ او کے۔ اوکے‘ دوبارہ ٹیک کر لیں گے ‘‘ ہمالیہ صاحب نے مسکرا کر کہامگر دوسری بار بھی وہی مکالمہ اد ا کیا۔ پتا چلا کہ اپنی بیوی کے تمام ’’ کیو‘‘ انہیں یاد ہو گئے ہیں۔
اس قسم کی غلطیوں میں ہمالیہ صاحب کا کوئی قصور نہیں ہوتا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ دراصل سلیقے سے کام کرنے کے عادی تھے۔ ہدایت کار سے ان کا یہ تقاضا ہواکرتا تھاکہ میرے سین میرے حوالے کیے جائیں تاکہ میں اپنے مکالمے یاد کر کے آؤں۔ حالانکہ اس زمانے میں کوئی دوسرا اداکار مکالمے یاد کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کیا کرتا تھا۔ ٹریجڈی یہ تھی کہ ہمالیہ صاحب کے مکالمے یاد کرنے کا انداز ہی خرابی کی جڑ تھا۔ وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ٹہلتے جاتے اور ان کا سیکرٹری مکالمے بول کر انہیں سناتا اور وہ ان مکالموں کو یاد کر لیتے تھے۔ بعض اوقات سیکرٹری موجود نہ ہوتا تو یہ فرض کوئی دوسرا ملازم سر انجام دیتا تھا۔ ہمالیہ صاحب تو اس کے پڑھے ہوئے مکالمے یاد کر تے رہتے تھے۔ اس طرح اس قسم کے لطیفے جنم لیتے تھے۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)