وہ سعودی خاتون جسے 66سال پہلے سعودی عرب میں گاڑی چلانے کی عدالت نے اجازت دی ،قاضی نے یہ اجازت دی کیوں تھی ؟وجہ ایسی کہ آپ بھی حیران رہ جائیں گے

وہ سعودی خاتون جسے 66سال پہلے سعودی عرب میں گاڑی چلانے کی عدالت نے اجازت دی ...
وہ سعودی خاتون جسے 66سال پہلے سعودی عرب میں گاڑی چلانے کی عدالت نے اجازت دی ،قاضی نے یہ اجازت دی کیوں تھی ؟وجہ ایسی کہ آپ بھی حیران رہ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ریاض(ڈیلی پاکستان آن لائن)سعودی فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے سعودی عرب کے 87ویں قومی دن کے موقع پر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے کر جہاں دنیا بھر کو حیران کر دیا تھا وہیں اس خبر کے ساتھ ہی سعودی خواتین میں بھی خوشی کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی تھی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے لیکن لوگو ں کی اکثریت کے لئے یہ بات کسی دل چسپی اور حیرت سے خالی نہ ہو گی کہ سعود ی عرب میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو گاڑی چلانے کا پہلا باضابطہ ڈرائیونگ لائسنس66 سال قبل  1951ء میں سعودی شہر مجمعہ میں وہاں کے قاضی شیخ علی بن سلیمان الرومی کے حکم پر دیا گیا تھا اور اس خاتون کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کے پیچھے وجہ بھی ایسی تھی کہ جسے جان کر سب کے منہ کھلے کہ کھلے رہ جائیں گے ۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کو خطے کے ممالک میں استحکام کو متزلزل کرنے اور دہشتگردی کی سرپرستی بند کرنا ہوگی: عادل الجبیر

عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے قومی دن کی خوشی میں سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے کر خوشی سے نہال کر دیا ہے ،اس اعلان کے ساتھ ہی سعودی خواتین نے باقاعدہ ڈرائیونگ کے پلان اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی شروع کر دی ہے جبکہ گاڑیاں بنانے والی کئی غیر ملکی کمپنیاں بھی اس حوالے سے کافی متحرک دکھائی دیتی ہیں لیکن سعودی عرب میں کسی خاتون کو پہلا ڈرائیونگ لائسنس دینے کا واقعہ ایسا دلچسپ ہے کہ جسے جان کر ہر کوئی عش عش کر اٹھے گا ۔معروف سعودی تاریخ دان الشیخ عبدالکریم الحقیل کا کہنا ہے کہ کسی خاتون کو گاڑی چلانے کا پہلا باضابطہ ڈرائیونگ لائسنس 66 سال قبل  1951ء میں سعودی شہر مجمعہ میں وہاں کے قاضی شیخ علی بن سلیمان الرومیؒ کے حکم پر دیا گیا تھا اور اس خاتون کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کی وجہ یہ تھی کہ سعودی شہر مجمعہ میں ایک نابینا شخص تھا جس کی صرف دو بیٹیاں تھیں ،ان میں سے ایک بیٹی اپنے نابینا باپ کو گاڑی ڈرائیو کر کے روزانہ مجمعہ شہر کے مرکزی بازار لاتی تھی جہاں وہ اپنی اشیا ء کو فروخت کرتا تھا ۔ الشیخ عبدالکریم الحقیل کا کہنا ہے کہ مجمعہ کی مرکزی مارکیٹ اور بازار کے لوگ اس بات کو بہت معیوب سمجھتے تھے کہ کوئی عورت شرعی لحاظ سے گاڑی کس طرح ڈرائیو کرسکتی ہے ؟مارکیٹ میں کام کرنے والے عرب تاجروں نے آپس میں صلاح مشورہ ہو کر اس نابینا شخص اور اس کی بیٹی کو شہر کے قاضی (جج) کے پاس لیجانے اور کسی خاتون کے گاڑی ڈرائیو کرنے کا معاملہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ایک روز بہت سارے عرب تاجر اکٹھے ہوئے اور اس لڑکی اور اس کے نابینا باپ کو قاضی شیخ علی بن سلیمان الرومیؒ کی عدالت میں لے گئے ۔

قاضی نے نابینا شخص کے تمام تر حالات اور بیٹی کے گاڑی چلانے کی مجبوری اور ضرورت کو سنا اور پھر اس شخص کی بیٹی کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔ قاضی علی الرومیؒ نے نہ صرف اس خاتون کو ڈرائیونگ کی اجازت دی بلکہ بازار والوں کے سامنے یہ بات بھی واضح کی کہ ایسی کوئی شرعی بنیاد نہیں جس کے سبب خواتین کے لیے گاڑی چلانا ممنوع قرار دیا جائے۔سعودی تاریخ دان الشیخ عبدالکریم الحقیل کا کہنا ہے کہ انہیں یہ واقعہ خود قاضی شیخ علی بن سلیمان الرومیؒ نے سنایا تھا جو 2001ء میں وفات پا گئے تھے ۔ الشیخ عبدالکریم الحقیل کا کہنا تھا کہ قاضی شیخ علی بن سلیمان الرومیؒ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں کسی خاتون کو گاڑی چلانے کی سرکاری طور پر اجازت دی،یہ شیخ رحمہ اللہ کے علم اور ان کی فقہی بصارت سے متعلق معاملہ تھا۔انہوں نے کہا کہ جزیرہ عرب میں ایسے کئی مثالیں ملتی ہیں جب ابتدا میں کسی چیز کو علماء کرام نے ممنوع قرار دیا تاہم بعد ازاں لوگوں نے اس کو اپنا لیا اور پھر وہ امور عوام کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن گئے۔

مزید :

عرب دنیا -