’مجھے لوگوں نے دھمکیاں دیں، بے تحاشہ رقم کی پیشکش بھی کی لیکن میں نے اپنے مرحوم باپ سے کیا گیا وعدہ نہیں توڑا اور۔۔۔‘ اس عرب خاتون نے اپنے باپ سے ایسا کیا وعدہ کیا تھا؟ جان کر آپ بھی بے اختیار تعریف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے
رملہ (مانیٹرنگ ڈیسک) قدومیم کالونی کے یہودی آباد کار 70 سالہ فلسطینی خاتون باحیہ احمد حسین کو جنونی بڑھیا قرار دیتے ہیں۔ شمالی مقبوضہ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والی یہ معمر فلسطینی خاتون روزانہ یہودی بستیوں میں داخل ہوتی ہے اور اپنے زیتون اور انجیر کے درختوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ باحیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی زمین کی ہمیشہ دیکھ بھال کریں گی، لہٰذا انہیں یہودی آبادکاروں نے ہر طرح کی دھمکیاں دیں اور حتیٰ کہ جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی دیں لیکن وہ ہر خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روزانہ اپنے باغ کی دیکھ بھال کیلئے آتی ہیں۔ ان کے والد کی وفات 1992ءمیں ہوئی اور اس کے بعد سے وہ مسلسل ان کی چھوڑی ہوئی 13ایکڑ زمین کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
’جو بھی آکر ہمارے گاﺅں میں رہے گا اسے 2 لاکھ 30ہزار روپے نقد دیں گے کیونکہ۔۔۔‘ وہ گاﺅں جس نے سب سے انوکھا اور شاندار اعلان کردیا
باحیہ کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہر طرح کا حربہ آزمایا جاچکا ہے۔ پہلے یہودی آبادکاروں نے انہیں خالی چیک پیش کئے تاکہ وہ اپنی مرضی کی رقم لکھ کر زمین ان کے حوالے کردیں۔ یہ حربہ کامیاب نہ ہوا تو انہیں ٹرک اور بلڈوزر سے کچل کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ باحیہ کا کہنا ہے کہ ان پر یہودیوں نے اتنی بار بندوق تانی ہے کہ اب انہیں یاد بھی نہیں کہ اس طرح کے واقعات کتنی بار پیش آچکے ہیں۔کئی بار تو ان کے زیتون کے درختوں کو بھی اکھاڑ دیا گیا۔ بعض یہودی چالباز ایک جعلی اجازت نامہ بھی بنا کر لے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ باحیہ کے والد نے انہیں اجازت دی تھی کہ وہ ان کے باغات سے پھل لے سکتے ہیں۔
جب اسرائیل نے 1967ءمیں مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو قدومیم یہاں آباد کی جانے والی پہلی یہودی بستی تھی۔ باحیہ کا کہنا ہے کہ یہودیوں کے لڑکے روزانہ ان پر پتھر برساتے ہیں، وہ کئی بار شدید زخمی ہوئی ہیں اور بار بار اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو شکایت بھی کی ہے، لیکن سب بے فائدہ۔
لڑکی نے 21 سال قبل خالی بوتل میں پیغام لکھ کر سمندر میں پھینک دیا، دو دہائیوں بعد اب اس کا کہاں سے اور کیا جواب آگیا؟ ایسا واقعہ کہ پوری دنیا کے لوگوں کو حیران کردیا
باحیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن اسرائیلی قانون کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور جانتی ہیں کہ اس قانون کے تحت انہیں بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ قانون کی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ہی انہوں نے یہودی آبادکاروں کی اپنی زمین میں سے سیوریج کی لائنیں بچھانے اور پانی کی لائنیں بچھانے کی کوششیں متعدد بار ناکام بنائی ہیں۔ وہ اپنی زمین پر یہودیوں کے قبضے کے خدشے کی وجہ سے اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کیلئے بھی نہیں جاسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسی لئے شادی بھی نہیں کی کیونکہ وہ اپنے والد کی زمین کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں اور تاعمر اس کی حفاظت کرکے اپنے باپ سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا چاہتی تھیں۔