وہ اہم ترین سعودی شہزادہ جو ملک سے بھاگ کر ایران جا پہنچا، یہ کون ہے؟ سب سے بڑی خبرآ گئی
ریاض(ڈیلی پاکستان آن لائن )سعودی شاہی خاندان کے رکن اور شہزادہ ترکی بن محمد اپنے چچا شہزادہ عبد العزیز بن فہد کی موت کے چند گھنٹوں بعد سعودی عرب کے روائیتی حریف ملک ایران فرار ہو نے کا دعویٰ سامنے آیا ہے ۔
#Saudi Prince Turki bin Mohamed, late King Fahd’s grandchild, fled to Iran seeking political asylum after arrest of his father in MBS’ purge https://t.co/WrfgsPUVYD
— SaadAbedine (@SaadAbedine) November 7, 2017
Source to @kann: Saudi Prince Turki Bin Mohammed Bin Fahd, grandson of #Saudi King Fahd (d. 2005), was granted asylum in Iran. https://t.co/Pyx7QzJ9v3
— Mohamed Soltan (@soltanlife) November 6, 2017
بھارتی خبر رساں ادارے” انڈیا ٹوڈے“نے شاہی خاندان کے اراکین پر سفری پابندی کے باوجود شہزادہ ترکی بن محمد کے فرار پر سوال اٹھا تے ہوئے کہا ہے کہ شہزادہ ترکی بن محمد نے ایران سے سیاسی پناہ بھی مانگی جو انہیں فراہم کردی گئی ہے ۔سعودی عرب میں قیاس آرائی چل رہی ہے کہ شہزادہ عبدالعزیز بند فہد اور شاہ فہد کے چھوٹے بیٹے کی موت اس وقت ہوئی جب انہوں نے سیکیورٹی فورسز کو گرفتاری دینے سے مزاحمت کی۔
The hashtag “death of Prince Abdulaziz Bin Fahd” has been circulating in #KSA - #وفاة_الامير_عبدالعزيز_بن_فهدhttps://t.co/ijJP9duHqd
— Al Bawaba News (@AlBawabaEnglish) November 7, 2017
جب سعودی حکام عبد العزیز کی موت کی خبر کو مسترد کر رہی تھے تو اس وقت ایف بی آئی کے سابق اسپیشل ایجنٹ نے ان کی موت کی تصدیق کی ۔
Abdul Aziz is confirmed dead. He was 44 years old. Earlier, Mansour son of the former crown prince Muqrin was also declared dead. https://t.co/IsUyU896o4
— Ali H. Soufan (@Ali_H_Soufan) November 5, 2017
ایکسپر یس ٹربیون کے مطابق شہزادہ ترکی بن محمد نے دو شہزادوں کی موت کے بعد ایران جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ فرمانروا شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کی سربراہی میں اینٹی کرپشن کمیٹی بنانے کا حکم دیا اور اس کمیٹی نے کئی شہزادوں کو حراست میں لےرکھا ہے ۔
مزید خبریں :سعودی عرب نے بڑے ملک کے دارالحکومت پر حملہ کردیا
VIDEO: Last video of #Saudi Prince Mansour bin Muqrin, officials before helicopter crash pic.twitter.com/424VsFI9jT
— Al Arabiya English (@AlArabiya_Eng) November 6, 2017